انقلاب نامی فلم کا دی اینڈ
’ہیرو‘‘ نے طربیہ، المیہ، جذبات سے بھرپور اور جاندار ایکٹنگ کا مظاہرہ کرکے بڑے بڑے اداکاروں کی چھٹی کرا دی۔
یہ ماننا پڑے گا کہ مقامی اور بین الاقوامی پلیئرز نے سیاسی کھیل کے اسکرپٹ میں اس بار تبدیلی کر دی تھی۔ ماضی میں کھیل کا مرکزی کردار امپورٹ کیا جاتا اور اسے مستقل یا نگران وزیر اعظم بنا دیا جاتا۔ اس بار مرکزی کردار امپورٹ تو ہوا لیکن نگران وزیر اعظم بنانے نہیں بلکہ نگران سیٹ اپ بنوانے کے لیے۔ ان پلیئرز کو یہ داد بھی دینا پڑے گی کہ انھوں نے امریکی پاسپورٹ ہولڈر (ماضی کی روایت) کی بجائے کینیڈین پاسپورٹ ہولڈر کو بذریعہ برطانیہ بلوایا۔ کھیل کا ''ہیرو'' سیاست نہیں ریاست بچائو کے بینر تلے انقلاب لانے کے لیے اسلام آباد کے ڈی چوک میں اترا۔
یہ ''بلٹ پروف انقلاب'' چار دن تک وفاقی حکومت میں برپا ہوتا رہا۔ انقلاب پایہ تکمیل کو پہنچا تو معلوم ہوا اس کے بطن سے کاغذ کے تین صفحات برآمد ہوئے جن پر ''کرپٹ اور سابق حکومت'' سے کوئی معاہدہ وغیرہ کیا گیا تھا۔
اس فلموں جیسی کہانی میںا مپورٹڈ ''ہیرو'' کی اپنی پرفارمنس بڑی شاندار تھی۔ اس نے گولی اور موسم کی شدت سے محفوظ بنکر میں کبھی بیٹھ کر اور کبھی کھڑے ہو کر شدید ٹھنڈ اور بارش میں ٹھٹھرتے ہوئے ہزاروں مداحوں کو گرمائے رکھا۔ گھروں میں گھنٹوں ٹی وی اسکرینوں کے سامنے بیٹھنے والے لاکھوں ناظرین الگ سے محظوظ ہوتے رہے۔ درجنوں کیمروں کے سامنے ہیرو موصوف آتا اور بار بار اپنی صداقت کی قسمیں کھاتا۔
اسکرپٹ کے عین مطابق یا فی البدیہہ مکالموں میں حکمرانوں، سیاستدانوں کو جھوٹے، مکار، چور، ڈاکو، لٹیرے اور یزید تک کہ جاتا۔ ''ہیرو'' نے چار دن میں طربیہ، المیہ، جذبات سے بھرپور اور جاندار ایکٹنگ کا مظاہرہ کر کے بڑے بڑے اداکاروں کی چھٹی کرا دی۔ فن کا یہ سلطان کبھی دھاڑا، کبھی رویا اور کبھی منت سماجت پر بھی اتر آیا۔ اس لائیو پرفارمنس کے دوسرے اور آخری دن وہ موقع بھی آیا جب اس ہیرو کی حالت قابل دید تھی۔
دوسرے دن سپریم کورٹ سے وزیر اعظم کی گرفتاری کے حکم نے ہیرو میں جیسے نئی جان ڈال دی اور اس نے اعلان کر دیا آدھا کام ہو گیا باقی کام اگلے دن ہو جائے گا' شرط صرف اتنی ہے کہ کوئی اسے چھوڑ کے نہیں جائے گا۔ آخری دن ڈیڑھ گھنٹے کا سیکنڈ لاسٹ الٹی میٹم دیتے ہوئے بھی ہیرو بہت پریشان تھا۔ اس الٹی میٹم کی مدت پوری ہوئی تو پندرہ منٹ کا آخری الٹی میٹم دے دیا گیا۔ پھر وہ وقت آ گیا جب ہیرو فاتح بن گیا۔ وہ جو دوپہر تک ''یزید'' تھے وہ ''دوست'' بن کر آئے اور فلم کا دی اینڈ ''کامیاب'' کرا کے واپس چلے گئے۔
وفاقی دارالحکومت کے ایک چوک سے چار دن تک لائیو چلنے والی یہ فلم پاکستان سمیت دنیا کے کئی ممالک میں دیکھی گئی۔ آپ نے کئی ایسی فلمیں دیکھ رکھی ہوں گی جو ہوتی تو کسی اور زبان میں ہیں مگر انھیں مقامی زبان میں ڈبنگ کے بعد دکھایا جاتا ہے۔ ٹی وی کے ناظرین آجکل ترکی کے ڈرامے دیکھ رہے ہیں جن کی اردو میں ڈبنگ کی گئی ہے۔ یہ کاروباری چربہ فلم اور ڈرامے کی کامیابی کے لیے مفید ثابت ہوتا ہے۔ ہم جس فلم کی کہانی پر بات کر رہے ہیں' کیوں نہ اس کا نام ''انقلاب'' رکھ دیا جائے۔
کیونکہ ہیرو کو سات سال بعد انقلاب کی تڑپ ہی تو وطن میں واپس لائی تھی۔ انقلاب کا اسکرپٹ لکھنے والوں نے کامیابی کے سارے پہلوئوں کا پورا خیال رکھا۔ ''ہیرو'' اپنے انٹرنیشنل مداحین سے انگریزی میں مخاطب ہوتا اور پھر لوکل مداحوں کے لیے اردو میں ڈائیلاگ بولتا۔ یہ فلم بلاک بسٹر تو ثابت نہ ہو سکی مگر اس کا اختتام ان فلموں کی طرح ہوا جن میں ہیرو کو اپنی ہیروئن مل جاتی ہے اور پھر وہ ہنسی خوشی رہنا شروع کر دیتے ہیں۔
ہیرو جاتے جاتے ان اداکاروں کی مدد بھی کر گیا جو انقلاب نامی اس فلم کے کردار ہوتے ہوئے بھی کیمرے کے پیچھے بیٹھ کر ایکٹنگ کرتے رہے۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ فلم کی بات ہو رہی ہے، ہیرو بھی سامنے ہے دیگر کرداروں کا بھی ذکر ہوگیا ہے لیکن ابھی تک ہیروئن کہیں دکھائی نہیں دی۔ تو جناب عرض کر دیتے ہیں کہ اس فلم کی ہیروئن کا نام جمہوریت تھا۔ ہیرو نے الٹی میٹم اور قسموں کے بعد سب سے زیادہ جس کا نام لیا وہ ہیروئن جمہوریت ہی تو تھی۔ پردہ سیمیں پر موجود اور پردے کے پیچھے متحرک تمام اداکار اور وہ سارے ولن جنھیں پوری فلم میں ہیرو للکارتا رہا ہیروئن کی محبت میں مرے جا رہے تھے۔ سب نے ایک ہی رٹ لگائے رکھی، جمہوریت، جمہوریت، جمہوریت۔
ان میں فرق صرف اتنا تھا کہ فلم کے شروع میں ہیرو جمہوریت نامی ہیروئن کو جعلی قرار دیتا تھا اور یہ کہتا تھا کہ اس کی جگہ نئی ہیروئن لائی جائے گی جو اصلی ہو گی۔ یہ اختلاف رائے پونے چار دن جاری رہا۔ کلائمکس کے قریب ہیرو کو احساس ہو گیا کہ پرانی ہیروئن پر ہی اکتفا کرنا پڑے گا۔ اس نے اپنے مداحوں کے سامنے بھی وضاحت کی کہ وہ اس پرانی ہیروئن کے خلاف نہیں تھا۔ وہ محض اتنا چاہتا تھا کہ اس کے گیٹ اپ میں تھوڑی بہت تبدیلی کر دی جائے۔ میک اپ درست ہو' بال سنور جائیں۔
اسے ڈھنگ کے کپڑے پہنا دیے جائیں تو وہ اسے قبول ہے۔ فلم کے آخری سین میں ہیرو نے کمال فیاضی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے دس ''ولنوں'' کو مکالمے بولنے کی پوری آزادی بھی دے ڈالی۔ اس کے بعد کیمرے کے سامنے آیا اور اپنی فتح کا اعلان کر دیا۔ پردہ گرنے سے پہلے جو آخری منظر فلم بینوں نے دیکھا اس میں ''ہیرو بہادر'' کمانڈوز کے حصار میں بلٹ پروف بنکر سے نکلا اور بلٹ پروف گاڑی میں سوار ہو کر اگلی منزل کی طرف روانہ ہو گیا۔ ہیرو حال مقیم لاہور' مسقبل کا ٹھکانہ جلد معلوم ہونے کی توقع۔
ہر کہانی اپنے پیچھے کوئی پیغام بھی چھوڑ جاتی ہے۔ اس کہانی میں پیغام یہ تھا کہ کوئی بھی لوکل یا انٹرنیشنل ایکٹر چند ہزار لوگوں کو اکٹھا کرے انھیں لے کر کسی جگہ احتجاج شروع کر دے تو اس کے مطالبات مان لیے جائیں گے۔ اس کہانی میں ایک سبق بھی ہے کہ سادہ لوح عوام انقلاب کا نعرہ لگانے والے ہر شخص کے پیچھے چل پڑتے ہیں۔ بدلے میں انھیں صرف اذیتیں ملتی ہیں اور ان کے خواب چکنا چور ہو جاتے ہیں۔ کیا اس قوم کے نصیب میں کبھی کوئی ایسا ہیرو بھی آئے گا جو جینوئن ہو گا اور اس قوم کی مشترکہ ہیروئن جمہوریت کو واقعی ایسی بنا دے گا جس کے آج تک صرف دعوے ہی سنائی دیے ہیں۔