بموں کا خاندان
اس وقت دنیا کے 9 ممالک کے پاس ایٹمی اسلحہ اور بم موجود ہیں۔
KARACHI:
اپریل 2017ء کے دوسرے ہفتے میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حکم پر جو دس ہزار کلو گرام وزنی دس میٹر لمبا اور ایک میٹر چوڑا بم افغانستان کے علاقے ننگرہار کی پہاڑیوں کی غاروں اور سرنگوں میں چھپے داعش کے جنگجوؤں کو ہلاک کرنے کے لیے گرایا گیا اس کو MOAB یعنی مدر آف آل بمز کا نام دیا گیا ہے۔ یہ بم سن 2003ء میں ٹیسٹنگ کے مراحل سے گزرا جو پاکستان کے سرحدی علاقے کے نزدیک ترین مقام پر گرایا گیا۔
ایک عام جنگی روایتی بم 250 کلو گرام وزنی ہوتا ہے جب کہ یہ بم اس سے چالیس گنا وزنی تھا جس میں پہاڑیوں کی گہری غاروں اور پناہ گاہوں کو تباہ و برباد کرنے کی صلاحیت تھی۔ ملبے تلے ہمیشہ کے لیے دفن ہوجانے والے ملک ملک کے دہشت گردوں کی صحیح تعداد کا تو شاید بم گرانے والوں کو بھی علم نہ ہو لیکن یہ ہزاروں تک پہنچی ہو گی۔ اس تباہ کن اور وزنی بم کو MC 130 کارگو جہاز میں لاد کر حملے کے مقام پر پہنچانے کے بعد گرایا اور پھر سیٹلائٹ سے رہنمائی لے کر نشانے پر داغا گیا۔
عام بم کا داعش کی زیر زمین سرنگوں اور محفوظ پناہ گاہوں تک مار کرنا ممکن نہ ہوتا اس لیے اسے سن 2002ء میں امریکی ملٹری کی ریسرچ لیبارٹری میں ڈیزائن کیے گئے MOAB کا غالباً پہلی بار استعمال کیا گیا۔ یہ ایسا Thermobaric ہتھیار تھا جو دھماکے کے ساتھ ہی فضا میں موجود آکسیجن کو شامل کر کے انتہائی شدید گرمی اور انرجی کے ساتھ اپنے ٹارگٹ کو تباہ و برباد کر دیتا ہے۔ حسب توقع اس بم کو تباہ کاری پر کوئی قابل ذکر مخالفانہ ردعمل نہیں آیا۔
ظاہر ہے بموں کی تیاری اور استعمال کا ذکر جنگجوں اور فتوحات کے حوالے ہی سے ہوتا چلا آیا ہے۔ بارہویں اور تیرہویں صدی میں منگولوں کے جاپان پر حملوں میں اور چین کی طرف سے منگولوں کے خلاف جنگوں میں بموں کے استعمال کا ذکر ملتا ہے۔ ان کا نام ''Thunder Crash Bomb'' ہوتا تھا۔ شروع میں گن پاؤڈر بانس کے بمبوٹیوبز میں اور اس کے بعد ترقی کر کے لوہے کے ٹیوبز میں گن پاؤڈر ڈال کر پھر ان میں فیوز کا سسٹم بنا کر شور اور دھماکا کے ذریعے دشمن پر حملہ کیا جاتا رہا۔ بموں کا مذکورہ استعمال ہونا بہت بعد میں ڈوبے ہوئے سمندری جہازوں پر تحقیق ہونے پر ثابت ہوا جب ان غرق شدہ سمندری جہازوں میں سے ''Thunder Crash Bombs'' ملے۔
جب ہماری یہ دنیا Bipolar تھی اور امریکا کے مدمقابل USSR یعنی یونائیٹڈ اسٹیٹس آف سوویٹ رشیا تھا تو دونوں بڑی طاقتیں ایک دوسری کو نیچا دکھانے میں مصروف رہتی تھیں۔ بالکل امن تو تب بھی نہیں تھا لیکن کچھ بہتری ضرور تھی پھر روس کی گرم پانیوں تک رسائی کی جدوجہد میں جنرل ضیاء الحق کے دور حکومت میں ہم نے جو حکمت عملی اپنائی اس نے روس کے حصے بخرے کرنے میں اہم کردار ادا کر کے امریکا کے ہاتھ مضبوط کر دیے اور ہم نے کلاشنکوف اور ہیروئن کے تحائف لینے کے علاوہ دہشت گردی کی فصل اپنے کھیتوں میں بو دی۔ ضیاء الحق نے اس مہم جوئی میں اپنوں کے لیے ڈالر بھی کمائے جو ذاتی طور پر البتہ اس کے اپنے کام نہ آئے۔
اگرچہ USSR ٹوٹنے کے بعد اب صرف ماسکو والا روس باقی رہ گیا ہے لیکن زمین ہو سمندر ہو یا خلا ماسکو کو Under Estimate کرنا نادانی ہو گی کیونکہ اس کے شکستہ ہونے کے باوجود جنگی اور سائنسی خزائن ماسکو ہی میں ہیں اور امریکی بموں کی ماں MOAB کی تباہ کاری کے بعد دنیا کو معلوم ہوا ہے بموں کا باپ نامی FOAB روس کے پاس ہے۔ روس کا یہ غیر جوہری بم اگرچہ امریکی غیر جوہری بم سے سائز میں چھوٹا ہے لیکن تباہ کاری کے لحاظ سے چار گنا زیادہ طاقتور ہے۔
روسی ''بموں کے باپ'' کو 11 ستمبر 2011ء کو تجرباتی مرحلے سے گزارا گیا جس سے اس کی تباہ کاری کا جائزہ لیا گیا۔ اس بم کے دھماکے کا دائرہ 300 میٹر تک جاتا ہے جو امریکی بم سے دوگنی جگہ گھیرتا اور دوگنی حرارت پیدا کرتا ہے۔
بم دھماکا اور تپش پیدا کرتا ہے، آگ لگاتا ہے، فضائی آکسیجن کشید کر کے زندگی ختم کر دیتا ہے اور اب اس کی بے شمار قسمیں ایجاد ہو چکی ہیں۔ ہمارے بچپن میں بڑے اور پرانے تالوں کی سوراخ والی چابیوں میں گندھک اور پوٹاش بھر کے اس کو کیل سے بند کر کے دھماکے دار کھیل کھیلا جاتا تھا اور تب کسی بچے کو اندازہ نہیں تھا کہ ہم دراصل بم کو کھلونا بنائے ہوئے ہیں۔ اس کے بعد ماضی قریب میں ہم نے ہر روز ملک کے کسی نہ کسی حصے میں چلتے پھرتے بموں کی تباہ کاریاں بصورت خودکش بمباروں کے دیکھیں اور بھگتیں۔
چابی والے پٹاخوں، چلتے پھرتے بموں، بموں کی ماں اور بموں کے باپ کا ذکر ہوا ہے تو ان ایٹم بموں کا ذکر کیوں نہ ہو جنھوں نے چھ اور نو اگست 1945ء میں جاپان کے شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی میں تباہی پھیلا کر وحشت و بربریت کا بھیانک انسانی چہرہ دنیا کو دکھایا تا کہ آئندہ کا انسان اس سے محبت اور انسانیت کا سبق سیکھے۔
اس وقت دنیا کے 9 ممالک کے پاس ایٹمی اسلحہ اور بم موجود ہیں۔ ان کے نام اور ان کے بموں کی تعداد یوں ہے۔ روس 7300، امریکا 6970، فرانس 300، چین 260، برطانیہ 215، پاکستان 110، انڈیا 110، اسرائیل 80، نارتھ کوریا نامعلوم۔ افسوس کہ بموں کے خاندان میں کمی کے بجائے اضافہ ہی ہوتا چلا جا رہا ہے اور دعا ہے کہ یہ اضافہ ہی ہوتا چلا جا رہا ہے اور دعا ہے کہ یہ اضافہ Deterrent کا رول ادا کرے تا کہ انسانیت امن اور محبت کا بول بولا ہو۔