خودکشی

خط کے ایک ایک لفظ سے صدا آرہی ہے کہ غربت ایک باپ کوماررہی ہے


راؤ منظر حیات April 24, 2017
[email protected]

''ماں، میں یہ خط لکھ رہاہوں۔میں تو مرگیا ہوں۔ اسکول سے میری ساری چیزیں لے کرآنا۔ میرا Box بھی لے کر آنا۔اس لیے اپنے آپکوماررہاہوں،کیونکہ ہوسٹل نہیں جانا چاہتا ہوں۔میرے جانے کے بعد میری قبرپر آکر رو لینا۔منیبہ اورمانی کوہوسٹل میں داخل نہ کرنا۔ماں،مجھے اس دنیاسے بہت پیارتھا،لیکن ہوسٹل کی وجہ سے یہ کرنا پڑا۔ہوسکے تومیرے مرنے کے بعدزیادہ نہ رونا۔الماری کے اندرایک ڈائری ہے،اسے ضرورپڑھ لینا۔شکریہ''۔

ایک معصوم بچے کااپنی ماں کوآخری خط ہے جواس نے زندگی ختم کرنے سے چندمنٹ پہلے لکھا۔اسکاایک ایک لفظ چیخ چیخ کربتارہاہے کہ بچہ ہوسٹل نہیں جانا چاہتا تھا۔شائداس لیے کہ اسے ماں باپ اورگھرسے بے انتہا محبت تھی۔ خاندان زبردستی ہاسٹل بھجواناچاہتاتھا۔

دوسراخط نقل کررہاہوں۔لکھتے لکھتے مجھے کئی بار رکنا پڑاہے۔کئی بار میزسے اُٹھ کرپانی پینے گیا۔دوتین بار عینک کے بوجھل شیشے بھی صاف کیے ہیں۔خط کسی نوجوان نے والدین کولکھاہے۔مرنے سے صرف چند منٹ پہلے۔ ''ابو، امی، میں جانتاہوں کہ آپ مجھ سے بہت محبت کرتے ہو۔لیکن ابو،میں بھی ایک لڑکی سے محبت کرتاہوں۔ اس لیے خودکشی کررہاہوں کہ معلوم ہے کہ آپ اسے میرا ہونے نہیں دینگے۔میری شادی کسی اورسے ہوجائے،یہ مجھے قبول نہیں ہے۔ بہت محبت ہے۔ پاپا، مجھے آپ سے بھی بہت محبت ہے۔سوری پاپا'' مجھے ان دونوں کانام نہیں پتہ۔یہ بھی علم نہیں کہ یہ کہاں کے رہنے والے تھے۔ مگرلڑکے اورلڑکی نے ایک دوسرے کے سامنے خودکشی کرلی۔سوال صرف یہ ہے،کہ کیاوالدین کو اندازہ تھاکہ انکالختِ جگرکس نفسیاتی شدت سے کسی سے محبت کررہاہے۔والدین اپنے بچوں کی ذہنی کیفیت سمجھ ہی نہیں پائے۔جب پتہ چلاتوبہت دیرہوچکی تھی۔

تیسراخط بھی سامنے رکھیے۔یہ بھی دل دہلانے والا ہے۔پتہ نہیں قیامت اورکیاہوتی ہے۔''پیاری بیٹی،میں تمہیں عیدکانیاجوڑالے کرنہیں دے سکتا۔میرے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں کہ کچھ بھی خریدسکوں۔بیٹی مجھے تم سے بہت پیارہے۔تمہارے اندرمیری جان ہے۔کتنابدقسمت باپ ہوں کہ بچی کوعیدکے دن بھی کچھ نہیں دے پایا۔ تمہاری ماں اورمیں دونوں بیروزگار ہیں۔ سمجھ نہیں آتی کہ کیاکروں۔تم لوگوں کوکیسے خوش رکھوں۔

خط کے ایک ایک لفظ سے صدا آرہی ہے کہ غربت ایک باپ کوماررہی ہے۔وہ مرنا نہیں چاہتامگروسائل کی نایابی سے بے حال ہوکر زندگی ہی ختم کرڈالی۔ عیدکے جوڑے نے جس ذہنی بحران کاشکاربنادیا،اس کی ایک منزل اپنے ہاتھ سے زندگی ختم کرناتھی۔بے بسی،بے کسی اورمفلسی اورکیاہوگی۔

تینوں خطوط میں ایک لفظ بھی کم یازیادہ نہیں کیا۔ صرف اس لیے کہ یہ معاشرے اورسماجی زندگی کااصل چہرہ بے نقاب کرتے ہیں۔ پاکستان نہیں،پوری دنیامیں لوگ اپنی زندگی خودختم کرلیتے ہیں۔ایک اندازہ کے مطابق سالانہ دس لاکھ کے قریب مرداورعورتیں کسی بھی ستم،ظلم یا ناانصافی کے تحت اپنے آپکوختم کرنابہترین حل گردان لیتے ہیں۔پاکستان میں خودکشی کرنے والوں کے کوئی مستندکوائف موجود نہیں ہیں۔ قطعاً اندازہ نہیں کہ ''پیارے ملک'' میں کتنے انسان حالات کی بدولت مرنا پسند کرتے ہیں۔

اوّل توایسی موت کاکسی سے ذکرہی نہیں کیاجاتا۔اسے ایک کلنک کاٹیکہ سمجھ کرخاموشی اختیارکرلی جاتی ہے۔محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں ہربرس سات ہزارلوگ خودکشی کرتے ہیں۔بالکل سطحی سااندازہ ہے۔اصل تعداد کا کسی کوعلم نہیں۔لیکن اگرسنجیدگی سے سوچا جائے تویہ تعداددوگنی یاچوگنی یااس سے بھی زیادہ ہوسکتی ہے۔مرنے کے بعدایک خاموش ساجنازہ ان کا مقدر بنتا ہے۔اس کے بعدگھروالے دروازے بند کرکے دیواروں سے لپٹ لپٹ کرگریہ کرتے ہیں۔ مگر باہرآوازنہیں جانے دیتے۔

یہ بھی درست ہے کہ ہمارے مذہب میں خودکشی حرام ہے۔اس پرکوئی دو رائے نہیں ہیں۔مگرصرف کہنے یالکھنے سے حقیقت سے صرفِ نظرنہیں کیا جاسکتا کہ خودکشی کاوجودہمارے معاشرے میں موجود ہے۔ آخر کیا وجوہات ہیں، کیاحالات بنتے ہیں کہ ایک ذی شعور انسان اتنازیادہ شکستہ دل ہوجاتاہے کہ اسے زندگی سے مرنا بہتر نظر آتا ہے۔ سماجی مشکلات،بدلتے ہوئے انسانی رویے،غربت بلکہ پیہم غربت،انصاف کافقدان اور اکیلا پن وہ گھمبیر معاملات ہیں جن پرہمیں غور کرنا چاہیے۔ بچوں پرکئی بارذہنی دباؤاس قدربڑھ جاتاہے کہ وہ آئے دن خودکشی کرتے رہتے ہیں۔والدین کواگرپتہ نہیں چلتا، توریاست کوکب معلوم پڑیگا۔یہاں توگھپ اندھیرا ہے۔

ابھی تک یادہے کہ کنگ ایڈورڈمیڈیکل کالج کے ہمارے ہی سیشن میں ایک ہم جماعت لڑکی نے خودکشی کرلی تھی۔یہ1979ء کی بات ہے۔ لڑکی سرگودھا بورڈ میں نمایاں پوزیشن لے کرمیڈیکل کالج میں داخل ہوئی تھی۔ فرسٹ ائیرکے تعلیمی دباؤمیں شائداسے کچھ سمجھ نہیں آئی۔ بدقسمتی سے چندابتدائی امتحانات میں فیل ہوگئی۔ذہنی طور پربرداشت ہی نہیں کیا،کہ وہ فیل بھی ہوسکتی ہے۔ انتہائی محنتی اورلائق تھی۔ کسی کوبتائے بغیر ہوسٹل کی چھت پرگئی اور ایک اوٹ میں جاکرزہریلی دوائی کھالی۔کسی کومعلوم ہی نہ ہوسکاکہ وہ مرچکی ہے۔

تین چاردن کے بعدلاش کی بدبوسے پتہ چلاکہ وہ مرچکی ہے۔بچی معمولی ناکامی کے دباؤکوبرداشت نہ کرپائی۔وجہ جوبھی ہو،کے ای کی طالبہ انیس بیس برس کی عمرمیں اس دنیاسے اپنے ہاتھوں چلی گئی۔تمام تعلیمی ادارے اس اَمر کو چھپاتے ہیں۔کسی کو ہوا نہیں لگنے دیتے۔مگرسچ یہ ہے کہ ہمارے بہترین درسگاہوں کے بہترین دماغ بھی اتنے شدیدنفسیاتی دباؤ کاشکارہوجاتے ہیں کہ خودکشی کرنے کوترجیح دیتے ہیں۔یہ انتہائی لائق لوگ ہوتے ہیں۔ویسے ذہین افراد میں خودکشی کارجحان بہت زیادہ ہوتاہے۔وہ کسی صورت میں ناکامی برداشت نہیں کرپاتے۔

آغاخان یونیورسٹی کی ایک تحقیق کے مطابق ہمارے ملک میں پانچ کروڑلوگ کسی نہ کسی طرح ذہنی، امراض میں مبتلاہیں۔ان میں سے اکثرکوخودمعلوم نہیں کہ مریض ہیں اورانھیں علاج کی ضرورت ہے۔نفسیاتی معالج کے پاس جانا بھی ایک سماجی داغ سمجھاجاتا ہے۔ کوشش کی جاتی ہے کہ کسی کومعلوم نہ ہوکہ خاندان کاکوئی بچہ،بچی یا مرد،عورت کسی ذہنی مرض کاشکارہے۔پانچ کروڑکی تعداد میں دوکروڑبچے ہیں جوکسی نہ کسی دباؤکی وجہ سے ذہنی مرض میں مبتلاہیں۔

ایک تجزیہ کے مطابق مردوں میں کسی بھی وجہ سے خودکشی کارجحان عورتوں سے دوگناہے۔ان میں سے اکثرنوجوان ہوتے ہیں۔ان میں سے ساٹھ فیصدغیرشادی شدہ ہوتے ہیں۔خواتین میں اپنے ہاتھوں جان لینے کارجحان شادی کے بعدبہت بڑھ جاتا ہے۔ اسی تجزیہ کے مطابق خودکشی کرنے والوں کی اکثریت عمر تیس برس سے کم ہوتی ہے۔ بیروزگاری، غربت،مہلک امراض،گھرکانہ ہونا،خاندانی جھگڑے، دہشتگردی اور ڈپریشن اس اقدام کے بنیادی محرکات ہیں۔

ساتھ ساتھ یہ المیہ بھی ہے کہ اگرکوئی شخص ذہنی طور پربیمارہے تواسے لے کرکہاں جائیں۔بیس کروڑعوام کے لیے پورے ملک میں صرف چارسونفسیاتی معالج ہیں۔یہ چارسوڈاکٹربھی بڑے شہروں میں موجودہیں۔نفسیاتی ماہرین کی غیرموجودگی یا کمی کافائدہ،جعلی پیر، فقیر، عامل، نجومی،جادوگراورسنیاسی بھرپورطریقے سے اُٹھاتے ہیں۔یہ بذات خودجہالت کا منبع ہوتے ہیں۔مگریہ معصوم لوگوں کوبھرپورطریقے سے بیوقوف بناتے ہیں۔ نوجوان بچیوں کی عزتیں لوٹتے ہیں۔پیسہ بٹورتے ہیں اورپھلتے پھولتے رہتے ہیں۔ ملک کاکوئی قصبہ، محلہ، شہر اورآبادی ان ظالموں سے خالی نہیں۔

ہماری ریاست صحت مندلوگوں کے متعلق کچھ نہیں کرپاتی توبے چارے ذہنی مریضوں کے لیے کیا کر پائیگی۔ اس پورے معاملے میں اہل خانہ کی ذمے داری بہت بڑھ جاتی ہے۔کیونکہ ہرکام انھوں نے ہی کرنا ہے۔آج تک مقتدر طبقے کے کسی فرعون کویہ توفیق نہیں ہوئی کہ سرِعام کہے،کہ میں وہ تلخ حالات بدل دونگا، جسکی بدولت ہزاروںپاکستانی اپنی جان لینے پرمجبور ہوجاتے ہیں۔کوئی یہ نہیں کہتاکہ میں بے سہاروں کاسہارابنوں گا، انھیں زندگی کے دھارے میں واپس لے کرآؤنگا۔ قیامت خیزعدم توجہ کی بدولت سات ہزارخودکشیوںکی تعداد آنے والے دنوں میں بے تحاشہ بڑھ سکتی ہے، مگر یہاں کسی کوکوئی فکر نہیں۔ سب اچھاہے!حرام موت مرنے والے سے ہمدردی کیسی!

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں