کلبھوشن یادیو پر نئے سوالات
بلوچستان سے گرفتار ہونے والے بھارتی خطرناک جاسوس کلبھوشن یادیو، جسے سزائے موت سنائی جا چکی ہے
بلوچستان سے گرفتار ہونے والے بھارتی خطرناک جاسوس کلبھوشن یادیو، جسے سزائے موت سنائی جا چکی ہے، نے پاکستان بھر میں فساد برپا کیے رکھا تھا۔ ایک سال قبل وہ جعلی پاسپورٹ پرایران سے پاکستان میں داخل ہُوا۔نام تو اُس کا کلبھوشن سنگھ یادیو ہے لیکن وہ حسین پٹیل نام والے پاسپورٹ کے ساتھ بلوچستان داخل ہُوا تھا۔ اُس نے اپنے ایجنٹوں اور گماشتوں کے ذریعے پاکستان کے مختلف شہروں میں فساد اور دہشتگردی کی جتنی بھی کارروائیاں کروائیں، ان سب جرائم کا وہ اعتراف کر چکا ہے۔ یہ سب کچھ ویڈیو میں ریکارڈ ہو کر پاکستان سمیت ساری دنیا تک پہنچ چکا ہے۔
اپنے ''شاہ جاسوس'' کے رنگے ہاتھوں پکڑے جانے، اُس کے اعترافات اور بعد ازاں اُسے سزائے موت سنائے جانے پر بھارت اور بھارتی اسٹیبلشمنٹ سخت پریشانی کا شکار ہے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ اُسے پھانسی دی بھی جاتی ہے کہ نہیں یا اس سزا پر کب عمل در آمد کیا جاتا ہے؟ بعض لوگوں کا تو یہ بھی کہنا ہے کہ کلبھوشن سے پہلے بھی نصف درجن بھارتی جاسوس پاکستان میں رنگے ہاتھوں گرفتار ہُوئے تھے اور اُنہیں بھی سزائے موت دی گئی تھی لیکن کسی کو بھی تختہ دار پر نہ کھینچا جا سکا؛چنانچہ کلبھوشن کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوسکتا ہے۔
بھارتی وزیرخارجہ، سشما سوراج، نے پاکستان کو دھمکی دیتے ہُوئے کہاہے کہ اگر کلبھوشن یادیو کو پھانسی پر لٹکایا گیا تو یہ ''قتلِ عمد'' تصور کیا جائے گا۔ پاکستانی وزارتِ خارجہ کی طرف سے مگر سشما سوراج کو دندان شکن جواب نہیں دیا جا سکا۔
بھارت کلبھوشن یادیو پر پاکستان کی طرف سے لگائے گئے الزامات مانتا ہے نہ یہ تسلیم کرتا ہے کہ اُسے ایران سے پاکستان میں داخل ہونے پر جعلی حسین پٹیل پاسپورٹ کے ساتھ گرفتار کیا گیا تھا۔ بھارتی بنئے کا دعویٰ ہے کہ پاکستانی ایجنسیوں نے اُسے ایران سے ''اغوا'' کیا تھا۔ بھارت کلبھوشن کے ویڈیو اعترافات کو بھی نہیں مانتا،یہ کہہ کر کہ اُسے تشدد اور دباؤ کے تحت ''ناکردہ'' جرائم تسلیم کرنے پر مجبور کیا گیا۔ کلبھوشن کے حوالے سے اب بھارت کے اندر سے بھی کئی نئے سوالات ابھرنے لگے ہیں۔ ان سوالوں نے بھارت سرکار،نریندر مودی، بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج کو شدید خلجان اور پریشانی میں مبتلا کر دیا ہے۔
کلبھوشن کے پُراسرار کردار کے حوالے سے سوالات اٹھانے والے مشہور بھارتی دانشوروں اور صحافیوں میں کرن تھاپر سرِ فہرست ہیں۔ تھاپر صاحب بھارتی الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کا معروف نام ہیں۔تعلیم، خاندانی اور پیشہ وارانہ پس منظر میں بھی اُنہیں غیر معمولی حیثیت حاصل ہے۔ کرن تھاپر بھارتی افواج کے سابق سربراہ، جنرل(ر) پران تھاپر، کے صاحبزادے ہیں۔ عالمی شہرت یافتہ بھارتی تاریخ دان،ڈاکٹر رومیلا تھاپر، اُن کی فرسٹ کزن ہیں۔ کرن تھا پر برطانیہ کی معروفِ عالم جامعات، کیمرج اور اوکسفرڈ، کے فارغ التحصیل ہیں۔ وہ تقریباً ڈیڑھ عشرہ برطانوی صحافت پر چھائے رہے۔
بھارت کے کئی ہر دلعزیز ٹاک شوز (مثال کے طور پر ہارڈ ٹاک، فیس ٹُو فیس، دی لوسٹ ورڈ، ٹُو دی پوائنٹ وغیرہ) کے میزبان رہے ہیں۔ بھارتی سی این این سے بھی وابستگی رہی۔ گزشتہ تین عشروں سے بھارتی میڈیا کا وہ مسلسل محترم اور معتبر نام چلے آ رہے ہیں۔اگر اِس سٹیٹس کا بھارتی جرنلسٹ کلبھوشن کے مشکوک کردار کے بارے میں نئے سوال اٹھا رہا ہے تو بھارت کسی بھی طرح پاکستان کو موردِ الزام نہیں ٹھہرا سکتا،یہ کہہ کر کہ پاکستان نے بے جا طورپر کلبھوشن کو سزائے موت سنائی ہے!!
بھارتی انگریزی اخبار میں 21 اپریل 2017ء کو جناب کرن تھاپر نے The Mysterious Mr Jadhavکے زیر عنوان ایک مفصل آرٹیکل لکھتے ہُوئے نئے سوالات اٹھائے ہیں کہ ...''کلبھوشن یادیو کے پاس دو پاسپورٹ کیوں تھے؟ ایک کلبھوشن یادیو کے نام کا اور دوسرا حسین پٹیل کے نام کا۔ آخر کیوں؟ ایک پاسپورٹ کا نمبر E6934766 اور دوسرے کا نمبرL9630722 ہے۔ حسین پٹیل کے نام کا پاسپورٹ 2003ء میں جاری کیا گیا جب کہ 2014ء میں اس کی تجدید کی گئی۔ جب (دو مختلف نام والے پاسپورٹوں کے بارے میں) بھارتی وزارتِ خارجہ سے پوچھا جاتا ہے تووہ سیدھا جواب دینے کے بجائے اُلٹا یہ کہنا شروع کر دیتے ہیں کہ پہلے (پاکستان) کلبھوشن یادیو کو ملنے کی اجازت دے،پھر ان سوالوں کے جواب دیں گے۔یہ بھلا کیا بات ہُوئی؟''
کرن تھاپر نے اسی سلسلے میں مزید بنیادی سوال اٹھائے ہیںجن کا جواب دینے سے بھارتی حکومت فرار کا راستہ اختیار کر رہی ہے۔ مثال کے طور پر، کرن تھاپر نے پوچھا ہے: ''معروف بھارتی اخبار نے لکھا ے کہ 2007ء سے کلبھوشن یادیو نے ممبئی میں اپنی والدہ،آونتی، کے لیے حسین پٹیل کے نام سے کرائے پر فلیٹ لے رکھا ہے۔ آخر اُس نے کیوں اپنے اصل نام کے بجائے حسین پٹیل کے نام پر یہ فلیٹ کرائے پر لیا؟کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ مسلمان ہو چکا تھا؟ اور اگر ایسا تھا بھی تو وہ کس مجبوری کے تحت اپنے اصل نام کا پاسپورٹ بھی رکھے ہُوئے تھا؟ اور انڈین گورنمنٹ نے بھی اُسے ایسا کیوں کرنے دیا؟
(بھارتی) حکومت کا دعویٰ ہے کہ کلبھوشن کو زبردستی ایران سے اغوا کر کے بلوچستان لایا گیا۔ پاکستان میں متعین ایک سابق جرمن سفارتکار،گنٹرمولک، نے بھی کچھ ایسا ہی دعویٰ کیا تھا۔ تو کیا بھارت سرکار نے گنٹر سے رابطہ کیا؟ اس کا جواب بھی ہنوز خاموشی ہے۔اور اگر کلبھوشن کو ایران سے اغوا کیا گیا تھا تو کیا بھارت نے اس سلسلے میں ایران سے کچھ پوچھا؟ ایران نے پھر کیا جواب دیا؟اس سلسلے میں جو باتیں سامنے آئی ہیں، وہ یہ ہیں کہ ایران نے بھارت سے تعاون کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ ایران تو انڈیا کا سٹریٹجک پارٹنر چلا آرہا ہے۔ پھر وہ کلبھوشن کے معاملے میں بھارت سے تعاون کرنے پر کیوں تیار نہیں؟''
کرن تھاپر نے مزید سوال اٹھاتے ہُوئے لکھا ہے: ''اگر بھارت کا یہ دعویٰ مان لیا جائے کہ پاکستان نے کلبھوشن کو ایران سے اغوا کیا تھا تو سوال یہ ہے کہ آخر پاکستانی ایجنسیوں کی نظریں کلبھوشن ہی پر کیوں مرکوز ہُوئیں؟ اُس میں کیا ایسی خاص بات تھی کہ اُسے اٹھا لیا گیا؟ ایران میں تو اور بھی 4 ہزار بھارتی کام کر رہے ہیںلیکن اغوا کنندگان کا ہاتھ اُن پر کیوں نہ پڑا؟
بھارتی اخبارات نے یہ بات رپورٹ کی ہے کہ کلبھوشن یادیو نے پاکستانی ڈرگ لارڈ، عذیر بلوچ، سے بھی تعلقات بنارکھے تھے۔ تو کیا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کلبھوشن نے منشیات فروشوں سے کوئی ایسی گندی اور دوہری چال چلی ہو کہ بدلہ لینے کے لیے اُنہوں نے اُسے چکمہ دے کر گھیرا اور پھر پکڑوا دیا؟ یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ عذیر بلوچ اور کلبھوشن کی گرفتاری آگے پیچھے ہُوئی ہے۔''
کرن تھاپر مزید پوچھتے ہیں: ''کلبھوشن نے از خود 2010ء اور 2012ء کے دوران ''را'' کے ٹیکنیکل سروس ڈویژن میں شمولیت اختیار کرنے کی کوشش کیوں کی؟ آخر کیا وجہ ہے کہ کلبھوشن کو (پاکستان کی طرف سے) سزائے موت سنائے جانے کے فوراً بعد بھارت، نیپال سرحد سے متصل مقام (لمبینی) پر پاکستان آرمی کا ایک ریٹائرڈ لیفٹیننٹ کرنل، ظاہر حبیب، غائب ہو گیا؟
پاکستانی میڈیا کا بالیقین کہنا ہے کہ ظاہر حبیب کو بھارتی خفیہ ایجنسی (را) نے جال میں پھنسایا ہے۔کیا بھارت ظاہر حبیب کے پرد ے میں کلبھوشن کا سودا کرنا چاہتا ہے؟'' نامور بھارتی اخبار نویس،کرن تھاپر، نے جرأت سے اپنی حکومت اور بھارتی اسٹیبلشمنٹ سے کلبھوشن کے بارے میں سُلگتے سوالات پوچھے ہیں۔ بھارتی بنیا مگر کسی ایک بھی سوال کا جواب دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔ کہیں سارے پردے نہ چاک ہو جائیں، شائداس لیے!!