استعفیٰ۔ دیوانے کا خواب
عمران خان کی ایک مشکل یہ ہے کہ انھیں بات دیر سے سمجھ سے آتی ہے
GILGIT:
عمران خان کی ایک مشکل یہ ہے کہ انھیں بات دیر سے سمجھ سے آتی ہے۔ اور جب تک بات ان کی سمجھ میں آتی ہے گیم ان کے ہاتھ سے نکل چکی ہوتی ہے۔اب سپریم کورٹ کے فیصلہ پر مٹھائیاں کھا کر اس پر تنقید بھی میرے اس موقف کی ایک اور تائید ہے۔ ویسے تو یہ کہا جاتا ہے کہ بیوقوف دوست سے عقلمند دشمن بہتر ہے۔ لیکن میاں نواز شریف کی موجودہ دور حکومت میں خوش قسمتی یہی رہی ہے کہ ان کے مد مقابل عمران خان رہا ہے۔ میں اب بھی سمجھتا ہوں کہ میاں نواز شریف نے عمران خان کو ہر محاذ پر بولڈ کیا ہے۔لیکن عمران خان کو بولڈ کرنے میں ہر دفعہ آصف زرداری نے میاں نواز شریف کا ساتھ دیا ہے۔
میاں نواز شریف سے استعفیٰ کا مطالبہ سب سے پہلے سندھ اسمبلی سے آیا ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلہ کے بعد سب سے پہلے آصف زرداری نے پریس کانفرنس کر کے نہ صرف فیصلہ کو مسترد کر دیا بلکہ جے آئی ٹی کو بھی مسترد کر کے استعفیٰ کا شو شا چھوڑ دیا۔ یہ آصف زرداری کانیا ترپ کا پتہ تھا۔ اور دیکھیں عمران خان ایک مرتبہ پھر بیوقوف بن گئے۔
ویسے تو یہ کہا جاتا ہے یاد ماضی عذاب ہے یا رب لیکن ایک اچھے سیاستدان کی پہچان یہی ہے کہ وہ اپنی غلطیوں سے سیکھتا ہے۔ ایک غلطی کو دوبارہ نہیں دہراتا۔لیکن عمران خان کی مشکل یہی ہے کہ وہ ایک غلطی بار بار کرنے کو اپنا ڈس کریڈٹ نہیں کریڈٹ سمجھتے ہیں۔ اب استعفیٰ کی بات کو ہی لے لیں۔ دھاندلی والے سارے ڈرامہ میں۔ دھرنوں کے بام عروج سے غروب آفتاب تک۔ ایمپائر کی حمایت سے بے وفائی تک عوام کے جم غفیر سے خالی کرسیوں تک۔ عمران خان میاں نواز شریف سے استعفیٰ کا مطالبہ کرتے رہے۔کنٹینر سے روز یہ اعلان کرتے رہے کہ ایمپائر کی انگلی اٹھنے والی ہے۔
عوام کو یہ سمجھاتے رہے کہ جب تک میاں نواز شریف استعفیٰ نہیں دیتے دھاندلی کی غیر جانبدارانہ تحقیقات ممکن نہیں۔ خود بھی اسمبلیوں سے استعفیٰ دینے کا ڈرامہ کرتے رہے۔ غرض کہ میاں نواز شریف سے استعفیٰ لینے کے لیے عمران خان اور ان کی ٹیم نے ہر جتن کیا۔ لیکن ناکام رہے۔ آخر میں کیا ہوا۔ استعفیٰ کے مطالبہ سے د ستبردار ہونا پڑا۔عمران خان کو ہار ماننا پڑی۔ اور میاں نواز شریف نے یہ ثابت کیا کہ حالات کچھ بھی ہوں وہ کسی غیر قانونی اور غیر آئینی دباؤ میں استعفیٰ نہیں دیں گے۔ عمران خان کی ناکامی کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ان کے پاس میاں نواز شریف سے استعفیٰ لینے کا کوئی قانونی اور آئینی راستہ نہیں تھا۔ اور غیر آئینی راستہ کی امید دلانے والے بیچ راستہ ہی ساتھ چھوڑ گئے تھے۔
آج سندھ اسمبلی سے میاں نواز شریف کے استعفیٰ کی قراداد منظور کروا کر دراصل پیپلزپارٹی نے عمران خان کو بیو قوف بنایا ہے ۔ پیپلزپارٹی نے میاں نواز شریف کے ساتھ کوئی دشمنی نہیں کی ہے بلکہ میاں نواز شریف کو راستہ دیا ہے کہ وہ باقی تمام اسمبلیوں سے اپنی حمایت میں قرارداد منظور کروا کر اپنی پارلیمانی اور جمہوری برتری ثابت کریں۔ اب بلوچستان کی اسمبلی میں میاں نواز شریف کے حق میں متفقہ قرارداد منظور ہو چکی ہے۔ پنجاب سے منظور کروانے کے لیے اجلاس بلوایا جا چکا ہے۔ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان سے بھی منظور ہو جائیں گے۔ قومی اسمبلی سے بھی منظور ہو جائے گی اور ذرا محنت سے سینیٹ سے بھی پاس ہو جائے گی۔ اس طرح ملک کی تمام جمہوری ایوانوں کی اکثریت نواز شریف کی حمایت کا اعلان کر دے گی۔ ایسے میں اکیلی سندھ اسمبلی کی قرارداد کیا کر سکے گی۔
دوسری طرف کے پی کے سے بھی یہ قرارداد منظور کروانے کے لیے عمران خان کو بہت محنت کرنا ہو گی۔ یہ آسان کام نہیں ہے۔ پتہ نہیں عمران خان کو یہ سمجھ کیوں نہیں آرہی کہ میاں نواز شریف پرویز مشرف نہیں ہیں جن کے خلاف چاروں صوبائی اسمبلیوں نے جب قرارداد منظور کی تھیں تو ان کے پاس بھاگنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں تھا۔ لیکن میاں نواز شریف کے ساتھ تو دوصوبائی ایک قومی آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کی اسمبلیوں کی مکمل حمائت ہے۔ اس لیے سندھ اسمبلی کی قرار د اد میاں نواز شریف سے دشمنی نہیں ہے بلکہ محفوظ راستہ کی رہنمائی ہے۔
جیسے میاں نواز شریف کے استعفیٰ کا مطالبہ کر کے عمران خان نے نہ صرف اپنا دھاندلی کا مقدمہ خراب کر لیا تھا بلکہ اپنا دھرنا بھی فلاپ کر لیا تھا۔ ایسے ہی اب دوبارہ استعفیٰ کے ٹریپ میں پھنس کر عمران خان پانامہ کا مقدمہ بھی خراب کر رہے ہیں بلکہ جے آئی ٹی کی کامیابی کو بھی محدود اور چھوٹی سی کامیابی کو بھی نا کامی میں بدل رہے ہیں۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ عمران خان نے نہ کل دانشمندی سے کام لیا تھا اور نہ ہی آج لے رہے ہیں۔انھوں نے کل بھی دھاندلی میں سے میاں نواز شریف کو سرخرو کردیا تھا۔ اور اب پانامہ میں سے بھی میاں نواز شریف کو سرخرو کر دیں گے۔
ایک دوست کہہ رہے ہیں کہ وکلا کی تحریک کی بھی بہت اہمیت ہے۔ وکلا نے پہلے بھی بہت سے کامیاب تحریکیں چلائی ہیں۔ اور اب بھی ان کی جانب سے میاں نواز شریف کے استعفیٰ کا مطالبہ بہت اہم ہے۔ وکلا نے سات د ن کی ڈیڈ لائن دے دی ہے۔ جب کہ میں سمجھتا ہوں کہ وکلا کی تحریک کے نتیجے میں بھی میاں نواز شریف کا استعفیٰ ممکن نہیں ہے۔ ابھی تو صرف لاہور ہائی کورٹ بار نے یہ اعلان کیا ہے۔ جس طرح سندھ اسمبلی کی قرارداد کے بعد باقی اسمبلیوں سے میاں نواز شریف کی حمایت سامنے آ ئی ہے۔ اسی طرح وکلا کی باقی تنظیموں کی رائے ابھی سامنے آنا باقی ہے۔ شائد صرف لاہور ہائی کورٹ کے اعلان سے ضرورت سے زیادہ توقعات لگائی جا رہی ہیں۔
سوال یہ بھی ہے کہ اگر میاں نواز شریف کا استعفیٰ دیوانے کے خواب سے زیادہ کچھ نہیں۔تو پھر یہ طوفان کیوں ہے۔ کیا یہ بے وقت کی راگنی ہے۔ نہیں ایسا نہیں ہے۔ پتہ نہیں لوگ یہ کیوںبھول رہے ہیں۔ کہ یہ الیکشن کا سال ہے۔ الیکشن کا بگل بج چکا ہے۔ جیتنے والی گھوڑوں کی منڈی لگ چکی ہے۔ جناب عمران خان نے چار سال میاں نواز شریف کے وزیر رہنے والے لیاقت جتوئی کو قبول کر لیا ہے۔ تا کہ کم از کم سندھ سے ایک سیٹ تو نکل سکے۔لیاقت جتوئی کی شمولیت یہ ثابت کرتی ہے کہ تحریک انصاف جیتنے والے گھوڑوں کی منڈی کی بڑی خریدار ہے۔
دوسری طرف ہزار بار پیپلزپارٹی کو دھوکا دینے والے فیصل صالح حیات کو آصف زرداری نے قبول کر لیا ہے۔ حالانکہ یہ وہی فیصل صالح حیات ہیں جن کو آصف زرداری نے بڑی مشکل سے پیپلزپارٹی سے نکالا تھا۔ میاں نواز شریف نے بھی کے پی کے جیتنے کے لیے صابر شاہ کی قربانی دے دی ہے اور امیر مقام کو کے پی کے کا صدر بنا دیا ہے۔ پانامہ کے فیصلہ والے دن وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف اور میا ں نواز شریف اور مریم نواز کی تصویربھی جہاں یہ پیغام دے رہی تھی کہ ہم ایک ہیں۔ وہاں پنجاب میں الیکشن بگل کا اعلان تھا۔
آپ سمجھیں الیکشن کے اس سال میں کوئی بے لذت گناہ نہیں ہو گا۔کسی ماوراء آئین اقدام کی کوئی گنجائش نہیں ۔اس لیے زبردستی کے استعفیٰ کی کوئی گنجائش نہیں۔ بس یہ شور بڑھتا جائے گا۔ اسی میں نواز شریف کو پانامہ سے چھٹکارا مل جائے گا۔ اور نئے انتخابات ہو جائیں گے۔ اس لیے استعفیٰ کا خواب ایک دیوانے کے خواب سے زیادہ کچھ نہیں۔