جنوبی ایشیا کی بقا اور سلامتی

بھارت کو اس حقیقت کو بھی مان لینا چاہیے کہ اس کی علاقائی چوہدراہٹ کے دن بھی لد چکے


Shakeel Farooqi April 25, 2017
[email protected]

QUETTA: یورپی یونین براعظم یورپ کے اٹھائیس ممالک پر مشتمل وہ اتحاد ہے جس کے وجود میں آنے کی کہانی بڑی دلچسپ ہے۔ ہوا یوں کہ دوسری عالمگیر جنگ کے بعد 1952 میں جرمنی، فرانس، اٹلی، بیلجیم اور لگسمبرگ نے کوئلے اور فولاد کا مشترکہ کاروبار شروع کیا جس میں نیدر لینڈ کو بھی شامل کیا گیا اور یوں 6 ممالک پر مشتمل ایک برادری تشکیل دی گئی۔ پانچ سال بعد ان ممالک نے اپنی تجارت کے فروغ کے لیے ایک کمیونٹی بنائی جس نے آگے جاکر یورپی یونین کی شکل اختیار کرلی۔

58 ممالک کی ایک ہی کرنسی بھی جاری کی گئی جس کا نام یورو رکھا گیا اور یورپین سینٹرل بینک قائم ہوا۔ان ممالک کا کوئی بھی یورو کے ذریعے ان میں سے کسی بھی ملک میں باآسانی خرید و فروخت کرسکتا ہے اور اسے ان میں سے کسی بھی ملک میں آنے جانے کے لیے نہ تو کسی پاسپورٹ کی ضرورت ہے اور نہ ویزا کی۔ ان ممالک کی اشیا کے ایک دوسرے کے یہاں ترسیل پر نہ کوئی ٹیکس عاید ہے اور نہ ہی کوئی پابندی۔سب سے زیادہ دلچسپ اور حیرانی کی بات یہ ہے کہ ان ممالک میں دو چار یا دس بیس نہیں بلکہ تقریباً 200 زبانیں بولی جاتی ہیں ، درجنوں مذاہب کے لوگ آباد ہیں جو جیو اور جینے دو کے اصول پر سختی کے ساتھ کاربند ہیں اور اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں کہ: 'مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا'۔

جب ہم ان حالات کا ماضی کے حالات سے موازنہ کرتے ہیں تو ہمیں حیرت ہوتی ہے کہ یہ انقلاب کیسے برپا ہوگیا۔ پہلی اور دوسری عالم گیر جنگ کے حالات آج کے حالات سے قطعی اور یکسر مختلف ہیں۔ ان ممالک کے اختلافات کی کوئی حد نہیں تھی اور یہ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے اور تباہی و بربادی کے درپے تھے۔ یہ دو دھڑوں میں تقسیم تھے۔ ایک دھڑا سابق سوویت یونین کا حمایتی تھا تو دوسرا امریکا کا حمایتی تھا۔ آپس کے ان اختلافات کی وجہ سے ان ممالک کے زیادہ تر شہریوں کی زندگی ان کے لیے عذاب سے کم نہ تھی۔

کوئی اس وقت یہ سوچ بھی نہ سکتا تھا کہ ایک دوسرے کے وجود کے دشمن کبھی یک جاہ اور متحد بھی ہوجائیں گے اور ایک عظیم قوت بن کر دنیا کے نقشے پر ابھریں گے لیکن اب سے 65 سال پہلے 6 ملکوں نے ایک دوسرے کی جانب دوستی اور تعاون کا ہاتھ بڑھاکر اور اپنے ماضی کے تلخ تجربے اور اختلافات بھلا کر حقیقت پسندی کا ثبوت دیتے ہوئے یورپ کی کایا پلٹ کر رکھ دی اور دنیا کو یہ سبق سکھا دیا کہ آپس میں لڑنے اور جھگڑنے کا نتیجہ تباہی اور بربادی کے سوائے اور کچھ بھی نہیں اور بقول شاعر انجام یہی ہوگا کہ:

ہم تو ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے

یورپین یونین کے تجربے اور مثال سے یہ ثابت ہوگیا کہ اتحاد میں خیر اور فلاح ہے جب کہ آپس کے اختلافات اور لڑائی جھگڑوں کا آخری انجام سب کی تباہی اور بربادی کے سوا کچھ بھی نہیں ہوتا۔ یہ تجربہ اور یہ مثال براعظم ایشیا کے لیے ایک بہت بڑا سبق ہے۔ حسن اتفاق سے یہ براعظم بھی 50 ممالک پر مشتمل ہے۔ روئے زمین کا یہ خطہ نہ صرف زبردست افرادی قوت بلکہ قدرتی وسائل بشمول تیل کی دولت سے بھی مالا مال ہے۔ یہاں گیس، کوئلہ، فولاد، سونا چاندی، تانبہ اور پانی کے بھی بہت بڑے ذخائر موجود ہیں۔ اس کے علاوہ یہاں پہاڑ، دریا، سمندر اور زرخیز زمینیں بھی موجود ہیں اور مختلف موسم بھی اپنے جلوے دکھا رہے ہیں۔ یہ خطہ دفاعی، معاشی اور اقتصادی اعتبار سے بھی کسی سے کم نہیں ہے۔

لیکن آپس کے اتحاد کی کمی کی وجہ سے اس کی حالت خراب سے خراب تر ہو رہی ہے۔ عراق تباہ اور افغانستان برباد ہوگیا اور سب تماشائی بنے رہے۔ یمن میں انتشار پھیل گیا اور ہم دیکھتے رہے۔ اب شام میں قیامت برپا ہے اور ہم محض تماشا ہی دیکھ رہے ہیں۔ بھارت کی ریشہ دوانیوں کی وجہ سے سارک مفلوج ہوچکا ہے اور ہم بے بس ہیں۔ ادھر افغانستان کی کٹھ پتلی حکومت اغیار کے اشاروں پر ناچ رہی ہے حالانکہ پاکستان نے اپنی جانب سے ہر بار دوستی اور تعاون کا ہاتھ بڑھایا ہے۔ کاش افغان حکومت نے پاکستان کے خیر سگالی کے جذبے کا مثبت جواب دیا ہوتا۔ بھارت کی پاکستان دشمنی کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ امریکا نے حال ہی میں پاک بھارت کے درمیان ثالثی کی پیشکش کی تھی مگر پاکستان کے مان لینے کے باوجود بھارت نے صاف انکار کردیا۔ اس سے بھارت کی بدنیتی صاف ظاہر ہے۔

جنوبی ایشیا کے آٹھ ممالک میں سے چار مسلمان اور چار غیر مسلم ہیں، مگر ان چار چار میں بھی اتحاد کے بجائے شدید کشیدگی موجود ہے۔ اگر جنوبی ایشیا کے یہ آٹھوں ملک اپنے دروازے ایک دوسرے کے لیے کھول دیں تو ان کی ترقی برق رفتارہوجائے۔ مگر بھارت راستے کا کانٹا بنا ہوا ہے اور طاقت کے نشے میں چور ہے۔ وہ جبر و تشدد کے ذریعے کشمیریوں کی تحریک آزادی کو کچلنے کے خبط میں مبتلا ہے۔

وہ اس خام خیالی کا بھی شکار ہے کہ دھونس اور دھمکیوں سے پاکستان کو دبا لے گا۔ یہ اس کی خود فریبی اور سب سے بڑی بھول ہے، کیونکہ پاکستان دفاعی لحاظ سے اب بھارت سے بھی زیادہ طاقتور ہے۔ چین اس کی پشت پر ہے اور روس کے ساتھ بھی اس کے تعلقات بڑے مستحکم ہوگئے ہیں۔ بھارت کو اب زمینی حقائق کو تسلیم کرلینا چاہیے اور یہ جان لینا چاہیے کہ حالات اب ایک نئی کروٹ لے چکے ہیں اور سی پیک کی برکتوں سے خطہ عرب اور جنوبی ایشیا تک اور وسط ایشیائی ریاستوں سے لے کر براعظم یورپ تک اب پاکستان کا ہی بول بالا ہوگا۔

بھارت کو اس حقیقت کو بھی مان لینا چاہیے کہ اس کی علاقائی چوہدراہٹ کے دن بھی لد چکے اور اب اس کا یہ خواب کبھی بھی شرمندہ تعبیر نہ ہوگا۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ بھارت نہ صرف اپنے ایک ارب 32 کروڑ انسانوں کے لیے بلکہ خطے کے دوسرے لوگوں کے لیے بھی خدشات کا باعث بنا ہوا ہے۔ بھارت کو اس بات کا بھی احساس ہونا چاہیے کہ اب جنگیں مال و دولت نہیں لاتیں بلکہ قحط، بھوک اور افلاس کا عذاب نازل کرتی ہیں۔

لہٰذا اسے اب اپنی ہٹ دھرمی اور ضد چھوڑ دینی چاہیے اور اس حقیقت کو جان لینا چاہیے کہ فضول کے اختلافات بھلاکر اور اپنے تنازعات مذاکرات کے لیے طے کرکے جنوبی ایشیا میں امن و استحکام کی فضا پیدا کی جاسکتی ہے اور باہمی تجارت اور اقتصادی تعاون کے ذریعے اس پورے خطے میں امن و امان اور خوشحالی کا نیا دور شروع کیا جاسکتا ہے۔ اس میں نا صرف خطے کے تمام ممالک کا بھلا ہے بلکہ خود بھارت کی بقا اور سلامتی بھی اسی میں مضمر ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں