مسلم معاشرہ اور لبرل ازم
دوسری طرف ایک طبقہ لبرل ہے جو مغرب کا آزادی والا تصور رکھتا ہے
مذہبی معاملات پر ردعمل کے واقعات ماضی میں بھی ہوتے رہے ہیں، مگر ان واقعات میں توہین غیر مسلموں کی جانب سے ہوتی تھی۔ اب کچھ عرصے سے پاکستان میں اس قسم کے واقعات میں جن افراد پر توہین کا الزام لگا ہے وہ خود مسلم ہیں یا وہ اپنے آپ کو ایک اچھا اور درست مسلمان قرار دیتے ہیں۔
ایسا عموماً لبرل نظریات رکھنے والوں کی جانب سے تاثر آرہا ہے اور اس کی بنیادی وجہ لبرل نظریات اور خاص کر اظہار رائے کی آزادی کا وہ نعرہ ہے جو مغرب سے آیا ہے اور جس کے تحت کسی بھی شخصیت کے خلاف کچھ بھی کہہ دینا ہر انسان کا بنیادی حق ہے۔ بنیادی بات یہ ہے کہ مذہب خاص کر دین اسلام میں ایسی کسی آزادی کا کوئی تصور نہیں ہے، نہ ہی کوئی گنجائش ہے، بلکہ حضور ﷺ کے بارے میں گستاخی پر علما کی جانب سے سخت فتویٰ موجود ہیں اور اس میں کوئی مسلکی اختلاف بھی نہیں ہے۔ مثلاً سلمان رشدی کے خلاف آیت اللہ خمینی نے بھی فتویٰ دیا تھا، غازی علم الدین شہید کو علامہ اقبال نے بھی شہید قرار دیا تھا۔
یوں دیکھا جائے تو مذہبی شعائرکی توہین کی اسلامی نظریات اور معاشرے میں کوئی گنجائش نہیں ہے، لہٰذا جو لوگ مسلمان نہیں ہیں یا جو لبرل نظریات رکھتے ہیں، اپنے آپ کو مسلم کہتے ہیں، انھیں یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ اس موضوع پر کسی بھی مسلم نظریات رکھنے والے فرد یا گروہ سے گفتگو یا بحث کرنا مناسب نہیں اور نہ ہی مسلم نظریات رکھنے والے کسی فرد یا گروہ کو ایسی بحث میں شامل ہونا چاہیے، کیونکہ ایسی صورت میں کوئی بھی جملہ یا بات دانستہ یا غیر دانستہ طور پر دل آزاری کا باعث بن سکتی ہے اور اس کے بعد حالات کنٹرول سے باہر ہوسکتے ہیں یا کوئی بھی شرپسند اس سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ ماضی میں بھی دل آزاری سے متعلق کئی ایک واقعات ایسے ہوچکے ہیں ۔
ایک اہم سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہورہا ہے؟ اس کے کئی جوابات ہوسکتے ہیں۔ راقم کے نزدیک ایک اہم وجہ آزادی کے مفہوم اور لبرل ازم کے ساتھ ساتھ ایک مسلم معاشرے کو نہ سمجھنا بھی ہے۔ آج کل خصوصاً سوشل میڈیا تک عام آدمی کی رسائی کے بعد سے ہر کوئی اپنے دانشورانہ خیالات کا اظہارکرنا اپنا حق اور ضروری امر سمجھتا ہے، خواہ کوئی بھی موضوع ہو۔ یہی وجہ ہے کہ اس حساس موضوع کو بھی ہر دوسرا شخص تختہ مشق بناتا نظر آتا ہے۔ حالانکہ یہ وہ موضوع ہے جس پر ذرا سی بے احتیاطی بھی خطرناک صورت اختیار کرسکتی ہے اور نادانستہ طور پر بھی انجانے میں کوئی بات توہین کے زمرے میں آسکتی ہے۔
سرسید احمد خان نے 1857 کی جنگ آزادی کے بعد رسالہ اسباب بغاوت ہند لکھ کر انگریزوں کو یہ بات سمجھانے کی کوشش کی کہ مسلمان انگریزوں کے دشمن نہیں ہیں اور انگریزوں کے درمیان فاصلے کی ایک بڑی وجہ غلط فہمیاں ہیں اور یہ غلط فہمیاں اس سبب ہیں کہ انگریز یہاں کے طور طریقوں اور نظریات سے واقف نہیں ہیں، وہ انجانے میں وہ اقدامات کر رہے ہیں جو مسلمانوں کے کلچر اور نظریات کے برخلاف ہیں۔ یہ بات بالکل درست ہے کہ اگر آپ کسی کے کلچر اور نظریات سے پوری طرح واقف نہ ہوں تو تضادات کی کیفیت بڑھ سکتی ہے۔ کچھ ایسی ہی صورتحال اب پاکستان میں توہین رسالت کے مسئلے پر بڑھتی دکھائی دے رہی ہے۔ پاکستان میں رہنے والوں کی بھاری اکثریت مسلمانوں کی ہے اور بلاتفریق تمام ہی مسالک کا توہین رسالت پر موقف بھی ایک ہی ہے، یعنی کوئی بھی مسلمان حضورﷺ کی شان میں گستاخی قبول کرنے کو تیار نہیں اور نہ ہی یہ چاہتا ہے کہ کوئی بھی فرد آزادی اظہار رائے کے نام پر توہین آمیز الفاظ ادا کرے۔
دوسری طرف ایک طبقہ لبرل ہے جو مغرب کا آزادی والا تصور رکھتا ہے اور چاہتا ہے کہ اظہار رائے کی جو آزادی مغرب میں لوگوں کو حاصل ہے وہی آزادی یہاں بھی ہو۔ چنانچہ بعض اوقات اس لبرل طبقہ کی جانب سے دانستہ یا نادانستہ طور پر آزادی اظہار رائے کے نام پر حضور ﷺ کی ذات مبارک کے بارے میں بھی ایسا اظہار خیال کیا جانے لگا ہے کہ جو مسلمانوں کے لیے قطعی قابل قبول نہیں۔ یوں حضورﷺ کی ذات گرامی کے بارے میں بلاوجہ اظہار خیال سے غلط فہمی کے دروازے بھی کھلنے لگے۔ ایسے واقعات رونما ہونے لگے کہ جن میں دعویٰ کیا جانے لگا کہ ایسا جان بوجھ کر کیا گیا ہے۔ ایسا ہی واقعہ صوبہ خیبرپختونخوا کی ایک یونیورسٹی میں بھی ہوا، جس میں ایک طالب علم کی جان چلی گئی۔ اس طالب علم نے واقعی گستاخی کی تھی یا نہیں؟ بات یہ ہے کہ اگر ہم نظریاتی بحث و مباحثے میں ایسے حساس موضوع کو شامل نہ کریں تو نہ غلط فہمی پیدا ہو، نہ ہی کسی کی دل آزاری ہو اور نہ ہی کوئی اس قسم کا حادثہ ہو۔
یہاں ایک اور بات سمجھنے کی ہے کہ روشن خیالی، اقوام متحدہ کا پیش کردہ انسانی حقوق کا منشور، لبرل ازم اور آزادی اظہار رائے کا موجودہ مغربی تصور اسلامی نظریات سے قطعی مختلف ہے۔ ان تمام تصورات کی اسلامی نظریات اور معاشرے میں کوئی گنجائش نہیں ہے، مثلاً روشن خیالی کا تصور دینے والا فلسفی کانٹ اپنے مضمون What is enlightenment میں کہتا ہے کہ جو شخص وحی الٰہی اور عالم دین کا انکار کرتا ہے اور ان سے ہدایت نہیں لیتا، وہی روشن خیال ہے۔ گویا مذہبی نظریات رکھنے والا کبھی بھی روشن خیال نہیں ہوسکتا، روشن خیال بننے کے لیے پہلے مذہب کو خیر باد کہنا ہوگا۔
اقوام متحدہ تمام قوموں سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ انسانی حقوق کے منشور کو تسلیم کریں اور اپنے ملک میں نافذ کریں، کیونکہ اس کی اقدار اور اصول آفاقی ہیں اور تمام مذاہب عالم پر بالاتر ہیں، گویا اس انسانی حقوق کے منشور کو نافذ کرنے کے لیے کسی مذہب کی بات بھی تسلیم نہیں کی جائے گی۔ اسی طرح مغرب کے تصور آزادی کے مطابق آئزہ برلن کہتا ہے کہ ہر فرد کو حق خود ارادیت حاصل ہے کہ وہ خیر اور شر کا جو چاہے تصور قائم کرے۔ چنانچہ اس آزادی کے تصور کے تحت ہر فرد خود خدا کے درجے پر آگیا کہ اسے مذہب بھی یہ ہدایت نہیں دے سکتا کہ کیا گناہ یا شر ہے اور کیا ثواب یا نیکی ہے۔
یوں مذہبی شخصیات کی توہین کرنے کا بھی حق حاصل ہوگیا اور پھر یہ انسان کے بنیادی حقوق کا حصہ بھی بن گیا۔ اسی لیے مغرب میں حضور ﷺ ہی نہیں، عیسائیوں کی مذہبی شخصیات کی توہین کرنا بھی جرم نہیں بلکہ آزادی اظہار رائے کا ایک حصہ ہے، جو ہر فرد کو حاصل ہے۔ مغربی فلاسفر جان رالز اور ڈربن لبرل ازم کی حمایت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہر ایک کو آزادی ہے، مگر وہ آزادی جو لبرل ازم کے بنیادی ایمان سے ہم آہنگ ہو۔ مخالفین کے لیے ان کا کہنا ہے کہ جو اس لبرل ازم کو نہ مانے، ایسے مخالفین کو سختی سے کچل دیں اور ان کو قائل کرنے کی ضرورت بھی نہیں ہے۔
گویا مذکورہ بالا تمام نظریات مذہب مخالف ہیں اور جو لوگ ان نظریات پر یقین رکھتے ہیں ان کی نظر میں کسی بھی شخصیت کو تنقید کا نشانہ بنانہ اور اس کے لیے برے الفاظ استعمال کرنا کوئی جرم نہیں۔ مغربی معاشرہ چونکہ یہ تمام نظریات اچھی طرح اپنا چکا ہے اس لیے وہاں کسی کی توہین کوئی جرم بھی نہیں سمجھا جاتا، نہ ہی کوئی ردعمل عوام کی جانب سے سامنے آتا ہے، لیکن پاکستانی معاشرہ ان لوگوں پر مشتمل ہے جو اس قسم کے لبرل نظریات نہیں رکھتے ہیں، جو بے شک نماز نہ پڑھتے ہوں مگر وہ اس دین اسلام پر ایمان رکھتے ہیں کہ جس میں حضورﷺ کی شان میں گستاخی سخت رد عمل کا سبب بن سکتا ہے۔
بات سمجھنے کی صرف اتنی سی ہے کہ پاکستان میں ابھی لبرل ازم کی جڑیں مضبوط نہیں ہوئی ہیں اور نہ ہی یہاں کی بھاری اکثریت نے جان لاک، آئزہ برلن، جان رالز اور ڈربن جیسے مفکرین کے لبرل نظریات کو قبول کیا ہے۔ لہٰذا ابھی اس معاشرے میں مذہبی شخصیات کے معاملے پر آزادی اظہار رائے کا مغربی اصول نہیں چلے گا اور اگر اس کی کو شش کی جائے گی توغلط فہمیوں کے امکانات اپنی جگہ موجود ہوں گے، جس سے قانون ہاتھ میں لینے کے واقعات میںاضافہ تو ہوسکتا ہے کمی نہیں۔ دانشمندی کا تقاضا ہے کہ اظہار رائے کی آزادی کی آڑ میں مذہب کو موضوع بحث نہ بنایا جائے۔