لطیف مغل بھی چل بسے
میرا مرحوم سے بڑا گہرا تعلق تھا اور تقریباً 30 سال سے رابطہ رہا
WASHINGTON:
پیر 17 اپریل کے دن اپنی پوتی کو اسکول سے لے کر گھر پہنچا تو فوراً ہی بیٹے نے کہا کہ ابو آپ کے دوست لطیف مغل اللہ کو پیارے ہوگئے۔ میں سہم گیا اور آنکھیں بھیگ گئیں۔ وہ اس موذی مرض میں گزشتہ 12 سال سے مبتلا تھے، کئی بار علاج کی غرض سے لندن بھی گئے، اپنا علاج کرایا اور پھر وطن آگئے۔ وہ جب بھی علاج کے لیے لندن جاتے اور فون پر رابطہ کرتے، وہاں کے دوستوں عمر حسین، اکرم قائم خانی، حبیب جان سے رابطے میں رہتے اور مجھے ان کے فون نمبر لکھواتے۔
میرا مرحوم سے بڑا گہرا تعلق تھا اور تقریباً 30 سال سے رابطہ رہا۔ وہ جب پیپلز پارٹی میں تھے، ہم بھی ساتھ تھے، پھر KESC میں ملازم ہوئے۔ میں ریلوے میں تھا، اکثر خیرآباد ریسٹورنٹ میں شام کو ملاقاتیں ہوتی رہتیں۔ اس دوران پیپلز لیبر بیورو کے تین دوست یا تین کا ٹولہ بہت مشہور تھا۔ پی آئی اے کے شیخ مجید، کے ایم سی کے منظور بدایونی (مرحوم) اور لطیف مغل۔ اکثر بحث و مباحثہ ہوتا، وہ بڑے دھیمے لہجے کے ساتھ لطیف مغل بھی گفتگو کرتے، جب کہ منظور بدایونی تیز تیز باتیں کرتا۔ وقت گزرتا رہا، 2005 میں ان کی بیماری کا انکشاف ہوا، مگر وہ بڑے مطمئن رہتے تھے۔
انھوں نے کے ای ایس سی میں پیپلز ورکرز یونین کی بنیاد رکھی۔ سی بی اے منتخب ہوئے، وقت تیزی سے گزرتا رہا، ان 12 برسوں میں پی پی کے میڈیا سیل کے انچارج بھی رہے۔ بلاول ہاؤس اور پیپلز سیکریٹریٹ میں بھی بیٹھتے رہے۔ کئی ایک پروگرام کیے۔ میرے اور دوستوں کے ہمراہ دو مرتبہ ہندوستان ممبئی اور پھر تھر ایکسپریس کی دوسری ٹرین کے ذریعے ہم تیرہ دوستوں کا دورہ براستہ کھوکھرا پار، زیروپوائنٹ اور پھر موناباؤ، جودھپور، جے پور، اجمیر شریف تک 10 روزہ سفر بھی کیا۔ ساتھ گئے، ساتھ آئے، بڑے مزے مزے کی باتیں ہوتی رہیں۔
وہ انسانی حقوق کی تنظیم HRCP کے بھی ایک فعال رکن تھے۔ انھوں نے ایک فائیو اسٹار ہوٹلجس کی بنیاد 2000 میں رکھی گئی تھی، جب ہوٹل کے یونین رہنماؤں کو ملازمت سے برطرف کردیا گیا تھا وہ اس ہوٹل کی یکجہتی کمیٹی کے کنوینر بھی رہے، اور ہر سال عیدالفطر اور عیدالضحیٰ کے موقع پر عید کے دن صبح 11 بجے مظاہرہ کیا جاتا تھا۔ جہاں وہ عید کی نماز کے بعد گارڈن اپنے گھر سے صبح 10 بجے پہنچ جاتے تھے اور پھر مظاہرے کے بعد واپس۔ اس طرح ہم ٹریڈ یونین کے دوست ان مظاہروں میں گزشتہ 8 سال سے حصہ لیتے رہے۔
پی پی پی کی حکومت کے دوران بھی وہ حکومت سے ان ملازمین کی بحالی میں پیش پیش رہے۔ وہ سینیٹر تاج حیدر کے بھی بڑے قریب رہے اور ان کے دفتر میں بیٹھا کرتے تھے۔ کسی بھی ساتھی کو KESC کے زائد بلوں کی شکایات ہوتی، میں ان کو بتاتا، وہ ان کی ہر ممکن مدد کرتے۔ اکثر ایکسپریس کے کالم نگار اور مزدور رہنما ظہیر اختر بیدری مجھ سے فون کرکے لطیف مغل کا نمبر لے کر بات کرتے اور ان کی مدد کرتے رہتے تھے۔ اس طرح انھوں نے نہ صرف پیپلز پارٹی کے لیے کام کیا بلکہ وہ عام شہریوں، دوستوں، ٹریڈ یونین لیڈروں کے ساتھ خندہ پیشانی سے پیش آتے۔
لطیف مغل کئی ایک خوبیوں کے مالک تھے، بڑے دھیمے اور پرسکون انداز میں گفتگو کرتے اور اکثر جلسوں میں بھی دھواں دھار تقریر نہیں کرتے تھے، بڑے دھیمے اور پرسکون انداز میں تقریر کرتے اور مختصر انداز میں اپنا نقطہ نظر بیان کیا کرتے تھے۔ گزشتہ دو سال سے وہ شدید تکلیف میں مبتلا رہے، ان کے گلے میں خرابی پیدا ہوگئی تھی، علاج بدستور جاری تھا، پھر ٹھیک ہوئے۔ اکثر میٹنگ اور اجلاسوں میں ملاقات ہوتی تو مسکرا کر کہتے آپ ٹھیک ہیں۔ ان کے ہاتھ میں پانی کی چھوٹی بوتل ہوتی، تاکہ اگر گلہ خشک ہوجائے تو دو گھونٹ پانی پی لیتے اور پھر پرسکون انداز میں بات چیت کرتے۔
پیپلز پارٹی میں مزدوروں کے حقوق کی جنگ لڑنے والے کم ہوتے جا رہے ہیں۔ لیاری سے کامریڈ خدا بخش لاسی چلے گئے، ولی محمد لاسی چلے گئے، منظور بدایونی چلے گئے، کریم کانڈا والا چلے گئے، خواجہ محمد اعوان چلے گئے، کامریڈ محبوب احمد چلے گئے اور اب لطیف مغل بھی چلے گئے۔ اب ہمارے سینیٹ کے چیئرمین رضا ربانی، سینیٹر تاج حیدر، سینیٹر سعید غنی، حبیب الدین جنیدی، سید خورشید شاہ پر ذمے داری ہے کہ وہ پاکستان کے محنت کش عوام کے لیے بھرپور آواز بلند کرتے رہیں، چونکہ ان سب کا تعلق سندھ سے ہے اور سندھ میں بڑی بے روزگاری ہے، غربت ہے، جہالت ہے، تعلیم اور صحت کے اداروں کو ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔
جاگیرداری اور وڈیرہ شاہی کو ختم کرنے کی ضرورت ہے، محکمہ لیبر میں اصلاحات کی ضرورت ہے، ملک میں نئی لیبر پالیسی کی ضرورت ہے۔ کم ازکم اجرت بڑھانے کی ضرورت ہے۔ یہ ساری باتیں میں اس لیے کہہ رہا ہوں کہ آج لطیف مغل نہیں ہیں، وہ یہ سب باتیں ہمیشہ کہتے رہے۔ وہ چار دہائیوں سے پی پی پی کے ساتھ رہے۔ انھوں نے سندھ کے تینوں وزیراعلیٰ سید قائم علی شاہ، وزیراعلیٰ عبداللہ شاہ اور وزیراعلیٰ مراد علی شاہ کے ساتھ کام کیا اور نہ مشیر بنے، نہ وزیر بنے، نہ پلاٹ لیا، نہ دکان لی، نہ دولت کمائی، بس مزدوروں کے ساتھ وقت گزارا۔ انسانی حقوق کے لیے لڑتے رہے، ٹریڈ یونین حقوق کی باتیں کرتے رہے۔
لطیف مغل نے شہید ذوالفقار علی بھٹو، 2 مرتبہ شہید محترمہ بے نظیربھٹو کی حکومت دیکھی، سب کو دیکھا، سب کو سمجھا اور پی پی پی کے لیے کام کرتے رہے۔ غیروں اور اپنے دوستوں کو بتاتے رہے کہ اچھا دور آئے گا، ہمیں اپنے طور پر طبقاتی جدوجہد جاری رکھنی چاہیے۔ اسی لیے تو منگل کو ان کے جنازے میں جہاں سندھ کے چیف منسٹر مراد علی شاہ، سینیٹر سعید غنی، سینیٹر اعجاز وہرہ سمیت کئی ایک وزیر مشیر راشد ربانی، وقار مہدی سمیت ان کے چاہنے والے سیکڑوں اداروں کے محنت کشوں سمیت دیگر سیاسی پارٹیوں، انسانی حقوق کی تنظیموں، HRCP صحافیوں، دانشوروں، شاعروں، پروفیسروں، نوجوان بلکہ خواتین نے بھی بڑی تعداد میں شرکت کرکے ثابت کردیا کہ لطیف مغل صرف پی پی پی ہی نہیں بلکہ پاکستان کے محنت کشوں اور کراچی شہر کے تمام دوستوں کا دوست تھا۔ اب اس کا خلا کون پورا کرے گا، کب محنت کشوں کا راج آئے گا؟