وہ کل ضرور آئے گی
مگر وہ تو ازل سے ہے ابد تک اور اس کا سسٹم بھی
دنیا جائے عبرت بھی ہے، جائے پناہ بھی ہے اور جائے عیش و آرام بھی ہے۔ یہ تراکیب لفظی ذرا سی وضاحت کی طالب ہیں۔ ایک طالب علم کی حیثیت سے کہ جو اس دنیا میں سو سال بھی رہا تو طالب علم ہی رہا۔ اس تصور کو پیش نظر رکھتے ہوئے اور اس خیال کو واثق سمجھتے ہوئے اگر ہم غور کریں تو درمیان کی بات کو پہلے سوچیں گے۔ یعنی دنیا جائے پناہ ہے۔ آج دنیا کا جو عالم ہے اسے دیکھتے ہوئے شاید لوگ یہ کہیں کہ اس جہان سے بہتر تو کوئی اور جہان ہوتا، جہاں ہم آرام سے زندگی گزارتے بھلا یہ بھی کوئی دنیا ہے کہ جس میں ہر وقت مرنے کا خوف غالب۔
شاعر نے کیا خوب کہا تھا ''یہاں مرنے کی پابندی وہاں جینے کی پابندی''۔ خیر یہ تو ایک رمز ہے جو سمجھ جائے، پا جائے کہ لوگ جو کچھ کہتے ہیں بے شک شعرا بھی اس میں ان کا اپنا کیا ہے، ترسیل ہے پیغامات کی، جس طرف کے Signals آپ قبول کرلیں۔
اب اس دور میں یہ بات کتنی آسان ہوگئی ہے کہ لوگ Weak Signal بھی سمجھنے لگے ہیں۔ پچاس سال پہلے یہ سمجھانا مشکل تھا، پانچ سو سال پہلے اس سے بھی مشکل اور ہزاروں سال پہلے اس سے بھی زیادہ مشکل بلکہ ناممکن۔
مگر وہ تو ازل سے ہے ابد تک اور اس کا سسٹم بھی۔ وقت کے ساتھ ساتھ وہ واقف کراتا جا رہا ہے کہ دیکھو یہ اس طرح ہوتا ہے تم Bites نام رکھ لو، اس کے پاس کوئی اور نام ہوگا شاید! تم مہینوں میں برسوں میں سیاروں تک پہنچ رہے ہو اور مان رہے ہو کہ پہنچا جاسکتا ہے اور جلد ہی مان لوگے کہ وقت کو روکا جاسکتا ہے، ہر چندکہ وہ کسی کے لیے رکا ہو اور دوسروں کے لیے جاری ہو۔
میں بہت کمزور مسلمان ہوں، اس کے باوجود سائنس کو اسلام کی تصدیق جانتا ہوں۔ جانتے تو وہ بھی ہیں مگر تسلیم کرتے ہچکچاتے ہیں اور جو مسلّم ہو گیا وہ مسلم ہوگیا، ایسا ہم نے اکثر معاملات میں دیکھا ہے اللہ ہم پر بھی ایسا کرم کرے کہ مسلم سے مسلّم بنا دے۔
خیر تو نکتہ بحث یہ تھا کہ دنیا جائے پناہ ہے تو اس کا بے حد آسان جواب ہے کہ آدم کو خدا نے کہاں بھیجا۔ دنیا میں اور یہ بھی ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ تمام تر کوتاہیوں (انسانی) کے باوجود انسان خدا کی بہترین تخلیق ہے۔ اگر انسان کسی نقص کے ساتھ پیدا ہوتا ہے تو اک تحقیق کی جائے گی تو کہیں نہ کہیں انسان کا قصور اور اس کی غلطی نظر آجائے گی جس کی وجہ سے نشو و نما میں کوئی نقص پیدا ہوا، پر انسان اسے مانے گا کہاں۔
تو دنیا پناہ گاہ ہے، کاہے سے پناہ؟ گناہوں سے پناہ! یہ بھی عجب بات ہے کہ گناہ بھری دنیا میں رہ کر گناہ سے پناہ اور کوئی اور راستہ تلاش کرنا تو اس کا جواب ہے کہ ایک تیراک اگر پانی میں گر جائے تو کیا وہ تیراکی جانتے ہوئے بھی ہاتھ پاؤں نہ مارے گا اور ڈوب جائے گا۔ لوگ اس کو برا بھلا مرنے کے بعد بھی نہ کہیں گے کہ عجب آدمی تھا بہترین تیراک تھا اور ڈوب گیا، ذرا کوشش نہیں کی؟
اسی طرح یہ دنیا ہے، اور انسان تیراک ہے۔ ہر مذہب اچھے برے کے بارے میں بتاتا ہے اور عمل کی تلقین بھی کرتا ہے، مگر سوال یہ ہے کہ جو بتایا جاتا ہے، جو تلقین کی جاتی ہے، وہ تیراکی کے اصول ہی تو ہیں، جو انسان فراموش کرکے دنیا میں ڈوب جاتا ہے۔ سب نہیں اکثر!
یہ جو کچھ دنیا میں ہو رہا ہے اور جس طرح قومیں قوموں کو نیست و نابود کرنے پر تلی ہوئی ہیں یہ سب تیراکی کے اصول کے خلاف کام ہو رہا ہے اور ان کو ڈوب جانا ہے۔ ڈوبتے رہے ہیں، جنگیں عالمی ہمارے سامنے ہیں اور جنگیں پیش نظر ہیں اور رہیں گی، کچھ لوگ اس دنیا کو پناہ گاہ انسان کی نہیں رہنے دیں گے۔
اب دوسرا نکتہ دنیا جائے عیش و آرام ہے۔ اس کو دو حصوں میں تقسیم کردینا چاہیے۔ یہ عیش و آرام ذہن کے مطابق ہیں۔ مذہب اور عقیدے سے الگ ہوکر خالصتاً انسانی ذہن کے مطابق۔ ملک سب کا ہے کوئی، سب جانتے ہیں۔ وہ بھی جو اسے بظاہر نہیں مانتے کسی بھی وجہ سے ریاست کا جبر یا کچھ اور یا سرشت میں بغاوت، تکبر تو یہ دنیا ان کے لیے کچھ اور معنی رکھتی ہے اور وہ اس قسم کا عیش کرتے ہیں۔ بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست۔ بابر محض علامت ہے قوت اور تکبر کی۔
دوسرے لوگ اور ہیں، ان کے لیے بھی عیش و آرام ہے دنیا میں اس کی حیثیت ایک جائے عیش و آرام ہے مگر ان کی سوچ اور خیال اور مرکز کچھ اور ہے یہ کل کے لوگ ہیں اور آج میں ہیں، یہاں بھی عیش و آرام میں ہیں کل بھی ہوں گے۔ یہ ہرگز وہ لوگ نہیں جن کا معیار آپ دولت سے قائم کرسکیں، یہ ہیں مگر نہیں ہیں۔
بس اس سے زیادہ صراحت نہیں کی جاسکتی ان لوگوں کی جن کو دلچسپی ہے وہ سمجھ گئے ہوں گے کو نہیں سمجھنا چاہتے ان کو بتانا بے کار ہے۔ بقول پروردگار عالم ''اے رسولؐ! یہ لوگ ہرگز ایمان نہ لائیں گے۔'' وجہ بھی پروردگار نے آگے بیان کردی ہے۔
تیسرا نکتہ دنیا جائے عبرت ہے۔ یہ دو نکات سے جن پر ہم نے ابھی بات کی تعلق رکھتا ہے۔ اور بہت واضح ہے یوں سمجھ لیجیے کہ آپ کو کوئی امانت دی جائے اور دنیا کے ہر مذہب، عقیدے میں امانت کا ذکر ہے اور اس کی عزت اور اس کو فرض کے طور پر ادا کرنا یعنی لوٹانا بھی ہر مذہب اور عقیدے نے لازم قرار دیا ہے۔
تھوڑا سا واضح کرلیں۔ دنیا اور انسان! انسان کے پاس جسم اللہ کی امانت ہے اور چاہے آپ سو سال زندہ رہیں یا بارہ سو سال۔ جسم واپس کرنا ہے اور کیا گیا ہے۔ اور سب نے کیا ہے۔ چاہے راکھ بناکر واپس کیا۔ یہ فیصلہ بعد میں ہوگا کہ درست کیا یا غلط کیا ، راکھ بنانے کے ضمن میں! اختیار ابھی آپ کے پاس ہے جو چاہے کریں۔
اس کے ساتھ ساتھ یہ دنیا بھی انسان کے پاس اللہ کی امانت ہے۔ ہر عقیدے اور مذہب میں دنیا کو اچھا بنانے کی تلقین ہے کس کے لیے، انسان کے لیے کہ وہ دنیا میں رہتا ہے۔ جب دنیا اور انسان کو تخلیق کرسکتا ہے تو کیا نہیں کرسکتا۔ بے شک وہ قادر مطلق ہے۔
یہاں وہ مرحلہ ہے جس پر غور ضروری ہے کہ دنیا جائے عبرت ہے۔ جس نے تاج محل بنایا اس کا انجام کیا ہوا، اور جس نے کھوپڑیوں کے مینار بنائے اس کا انجام کیا ہوا۔ آج بھی دو سمندر ایک دوسرے سے الگ ہیں اب تو دنیا نے دیکھ لیا ہے کہ وہ کہاں ہیں اور شاہد ہیں کہ قدرت نے فیصلہ کیا اور اپنے فیصلے کو قائم رکھا اور جب تک یہ دنیا یہ ساری کائنات ختم نہ ہوجائے یہ فیصلہ یہ منظر دنیا کے سامنے رہے گا۔
کیا دنیا نے اس سے کچھ سیکھا؟ مذاہب میں اختلاف پیدا کرنا مقصود نہیں، یہ قدرت کا ثبوت ہے، سائنس نے کہہ دیا ہے کہ یہ پانی آپس میں نہیں مل سکتے۔ کیا سکے جمع کرنا انسانوں نے چھوڑ دیا؟ کیا انسان انسان کے کام آنے لگا؟ دنیا میں امن قائم ہوگیا، نہیں دنیا کی ہولناکی اور ہوس دنیا میں اضافہ ہوگیا ہے۔ اگر تابوت بھی مل جائے تو خوش قسمت ہے انسان قبر کی جگہ تو خدا ہی جانے کیا سے کیا ہوجائے گی۔ کیا ہوس زر کے پجاری ختم ہوگئے اور دوسرے ہوس کار کیا ختم ہوگئے؟
نہیں ایسا نہیں ہوا۔ امن کی جگہ آگ جل رہی ہے، لوگ جل رہے ہیں بھسم ہو رہے ہیں لالچ کے ایندھن میں، آنکھیں بند ہیں کان سن نہیں سکتے کہ اس نے کہہ دیا ہے کہ ''ہم نے ان کے قلوب پر مہر لگا دی ہے'' یہ دنیا ان کے لیے جائے عبرت ہے، کل انھیں عبرت کا نشان بنادیا جائے گا۔ وہ کل ضرور آئے گی۔ اس نے آنا ہے۔ وہ تقدیر ہے اس کائنات کی۔