کشمیر رو رہا ہے
انسان دوسرے انسان کو کس بے دردی سے اپنی نفرت کا نشانہ بنا رہا ہے
ISLAMABAD:
سوشل میڈیا پر ان دنوں خاصی بحث چھڑ رہی ہے کوئی کہہ رہا ہے کہ اس کے نقصانات بہت ہیں، کسی کا خیال ہے کہ اس سے معاشرے میں بے اطمینانی اور عدم تحفظ پھیل رہا ہے تو کسی کا کہنا ہے کہ یہ نوجوانوں کی بے راہ روی میں اہم کردار ادا کر رہا ہے اگر ان تمام مسائل کو دیکھا جائے تو ایسا کچھ غلط بھی نہیں ہے۔ ہمارے نوجوان اس سوشل میڈیا کے چکر میں اپنا مستقبل برباد کر رہے ہیں اور اپنے گھر والوں اور عزیز و اقارب کے لیے شرمندگی کا باعث بن رہے ہیں اور یہ منفی رجحان خاصا توجہ طلب ہے۔
سوشل میڈیا کے مثبت انداز کی جانب دیکھیے تو بہت کچھ نظر آئے گا جس میں دنیا بھر میں ہونے والے حالات و واقعات جو عام طور پر کسی اخبار، چینل یا صحافی کی نظر میں نہیں آتے وہ اس میڈیا کے ذریعے تیزی سے وائرل ہوجاتے ہیں اور یوں خبر کو جیسے پَر لگ جاتے ہیں، شام اور کشمیر میں ہونے والے روح کو جھنجھوڑ دینے والے واقعات نے اسی سوشل میڈیا کے ذریعے لوگوں کو بتایا ہے کہ وہاں کیا حالات چل رہے ہیں اور انسان دوسرے انسان کو کس بے دردی سے اپنی نفرت کا نشانہ بنا رہا ہے۔
ایسی ہی کچھ ویڈیوز کشمیر سے متعلق تھیں جس میں نوجوانوں پر تشدد، بزرگوں پر تشدد اور عام معصوم نہتے شہریوں کی بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں درگت بنتی ہم سب نے دیکھی اور دل خون کے آنسو رویا ایسا کیوں ہے؟ ایک انسان دوسرے انسان کو محض اس لیے جانوروں کی مانند مارپیٹ رہا ہے کہ وہ انسان اپنے لیے ایک آزاد ریاست چاہتا ہے ایک ایسا گھر چاہتا ہے جس کی زمین بھی آزاد ہو اور آسمان بھی۔ جسے وہ اپنا کہہ سکے۔ اس کشمیر عزیز پر انسانی وجود نے کیسے کیسے ستم سہے اور اب بھی کیسے کیسے جوان، کڑیل ، بہادر، پڑھے لکھے، باغیرت اس دھرتی پر اپنا خون بہا رہے ہیں کہ خون خود بولتا ہے۔
کشمیریوں کے ساتھ بھارتی افواج کا سلوک انتہائی ناروا ہے۔ جو نوجوانوں اور بچوں پر بے تحاشا ظلم کرتے ہیں تو بزرگوں کو بھی اپنی بربریت کا نشانہ بنا رہے ہیں، کشمیری خواتین اس ظلم پر نوحہ کناں ہیں کہ عالم انسانیت سے کون کون ان کے درد پر اشک افروز ہے، کبھی انھیں جیپ کے سامنے باندھ کر ڈھال بنایا جاتا ہے تو کبھی بزرگوں کو سڑکوں پر رگیدا جاتا ہے، کیا عزت ہے وہاں کشمیری مسلمانوں کی؟ کیا انھیں اس کے خلاف آواز اٹھانے کا حق نہیں۔
موہن داس کرم چند گاندھی کاٹھیاواڑ کے ایک ممتاز تاجر کے یہاں پیدا ہوئے۔ راج کوٹ میں ابتدائی تعلیم کے بعد بیرسٹر کی ڈگری ولایت سے حاصل کی۔ ولایت سے آکر ممبئی میں وکالت شروع کی لیکن انھیں کوئی خاص کامیابی نہ ملی انھیں امید کی ایک کرن نظر آئی اور وہ ایک مسلمان تاجر کے وکیل بن کر اس کے ہمراہ جنوبی افریقہ چلے گئے۔ جنوبی افریقہ اس وقت شدید نسل پرستی کا شکار تھا جہاں ہندوستانیوں اور کالوں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا اس حقارت اور نفرت کا شکار وہ خود بھی بنے۔ ایک دفعہ گاندھی جی سڑک پر جا رہے تھے ایک سپاہی نے ٹھوکر مار کر انھیں سڑک سے نیچے پھینک دیا، ہندوستانی ہونے کی حیثیت سے گاندھی جی کے دل پر اس نفرت و حقارت نے کاری وار کیا۔
اور یہی صدمہ انھیں سیاست تک گھسیٹ لایا۔ آپ نے قوت و ظلم کا مقابلہ کرنے کے لیے جتن شروع کردیے خیال یہی تھا کہ انھیں اور ہندوستانیوں کو وہ عزت اور مقام مل سکے کہ جس کے وہ حقدار ہیں کہ یہ سرزمین تو ان کی ہی ہے لیکن اس پر انگریز زبردستی قابض ہوئے ہیں، پہلے گاندھی جی کا خیال تھا کہ جنگ میں انگریزوں کی مدد کی جائے تو ان کے حسن سلوک سے متاثر ہوکر اور جنگ جیت جانے پر ہندوستان کو نوآبادیات کا درجہ مل سکے گا، یہ وقت تھا 1914ء کا لیکن ان کے خیال کے برعکس انگریزوں نے ایسا نہ کیا۔ اسی زمانے میں رولٹ ایکٹ اور جلیانوالہ باغ کا خوفناک واقعہ ہوا، جس نے انھیں اچھی طرح سمجھا دیا کہ انگریزوں کی نظر میں ہندوستانیوں کی کیا اہمیت ہے وہ برٹش راج کے خلاف احتجاج کرتے رہے۔
مولانا محمد علی جوہر نے تحریک خلافت شروع کی تو بظاہر گاندھی جی نے بھی اس تحریک میں ان کا ساتھ دیا لیکن اس کے درپردہ وہ اس کو ناکام بناکر مسلمانوں کو نقصان پہنچاتے گئے اور اسی درجے پر وہ توازن جسے وہ محض ہندوستانیوں کے بھرم پر چلا رہے تھے برقرار نہ رہ سکا اور ہندوؤں کے لیے ان کی کوششیں انتھک جاری رہیں، ہندو قوم نے انھیں ''مہاتما'' اور ''باپو'' کے خطاب دیے، انھوں نے کئی تحریکیں چلائیں جیل بھی گئے۔
1934 میں انھوں نے سیاست سے دستبرداری کا اعلان کیا اور واردھا (وسطی ہند) میں قیام کیا لیکن پھر 1942 میں سیاست میں واپس آگئے اور اپنی زندگی کی آخری عوامی تحریک ستیہ گرہ چلائی اور جیل چلے گئے۔ 1944 میں طبیعت کی خرابی کے باعث جیل سے رہائی ملی، گاندھی جی نے ہندوستان کی تقسیم کے وقت مسلمانوں کے قتل عام کے خلاف آواز اٹھائی اور بھوک ہڑتال کی گو ان کی عمر خاصی ہو چلی تھی لیکن ہندو مسلمان کے فرق اور ہندوؤں کے لیے احتجاج کرتے سہولتیں سمیٹتے سمیٹتے بھی انھیں اس بات کا احساس تھا کہ اب جب کہ تقسیم ہو ہی چکی ہے تو پھر خون خرابہ کیسا اور اسی احتجاج پر رجعت پسند ہندو بھڑک اٹھے اور 30 جنوری 1948 کو انھیں گولی مار کر ہلاک کردیا گیا۔ موہن داس کرم چند گاندھی ہندوستان کی تاریخ کا ایک بڑا لیڈر تھا جس نے اپنے وطن اور ہندوؤں کی آزادی اور عزت کی حفاظت کے لیے جنگ لڑی۔
گاندھی جی نے جس حقارت اور نفرت کے خلاف علم اٹھایا تھا اس نے انھیں ہندوستان کا باپو اور مہاتما بنادیا اب اگر مظلوم کشمیری اپنے حق خود ارادیت کے لیے آواز اٹھاتے ہیں احتجاج کرتے ہیں تو بھارتی حکمرانوں کو اس قدر ناگوار گزرتا ہے کہ فرماتے ہیں کہ کشمیری نوجوانوں کا علاج گولیوں سے ہی ہونا بہتر ہے۔ کیا وہ اپنے باپو جی کی محنت اور مشقت کو بھول گئے جو انھوں نے اپنی قوم کے لیے انجام دی تھی۔ آج پھر تاریخ کا پہیہ گھوم رہا ہے، ایک بڑے خطے کے اکثریتی عوام اپنے حق کے لیے ایک آواز ہوکر پکار رہے ہیں آزادی۔