سچ کی ادھڑی لاشیں
تم یہاں تو سزا سے ضرور بچ سکتے ہو لیکن وہاں کوئی بھی سزا سے نہیں بچ پائیگا
KHAR:
وارنر رہرڈ نے کہا تھا ''سچائیاں آپ کو بالآخر آزاد کردیں گی لیکن یہ پہلے آپ کو جی بھر کر تڑپائیں گی'' اور مہاتما بدھ نے کہا ہے ''تمام انسانی دکھ سچائیوں کا سامنا نہ کرنے سے پیدا ہوتے ہیں''۔ آج کل ہمارے ملک میں ہر طرف مجرموں کی بہار آئی ہوئی ہے، آپ کو باآسانی، بغیر ڈھونڈے اور وافر مقدار میں ہر جگہ ہر قسم کے مجرم دستیاب ہیں۔ ہر مجرم حسب اوقات اپنے اپنے کرتب اور کارستانی دکھانے میں مصروف اور مگن ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ہر مجر م ہر موقع کو آخری موقع جانتے اور سمجھتے ہوئے اپنا کام کر رہا ہے۔
انسانوں کی یہ نایاب قسم آپ کو بازاروں، آفسوں، ایوانوں، گلیوں، محلوں، عبادت گاہوں میں جابجا اور خودبخود دیکھنا نصیب ہوجاتی ہے۔ ان مجرموں کو ملک بھر میں کسی سے بھی اور کسی بھی قسم کا خطرہ نہ تو لاحق ہے اور نہ ہی آیندہ لا حق ہونے کا کوئی خطرہ ہے۔ ان کی بے فکری کا یہ عالم فکروں اور اندیشوں سے دیکھا نہیں جارہا ہے اور ان کو فکر ہو توکس بات کی ہو، جب آپ ملک بھر سے سچ کو ڈھو نڈ ڈھونڈ کر اس کا قتل عام شروع کردینگے اور ہر سچ کی ننگی اور ادھڑی ہوئی لاش کے چاروں طرف کھڑے ہوکر قہقہے لگا رہے ہونگے اور باقی زندہ بچے سچ آپ سے چھپتے پھررہے ہونگے تو اس سے مختلف نتیجہ جو نکلا ہے، کوئی دوسرا نکل بھی کیسے سکتا تھا۔
بے شرمی اور بے حیائی کی اس وقت حد ہوجاتی ہے جب مجرم سرعام سچ کو ننگی ننگی گالیاں دیتے پھررہے ہوتے ہیں۔ ہمارے سارے دکھوں نے اسی سچ کی لاشوں او ربے حرمتی کی کوکھ سے جنم لیا ہے پھر ان ہی دکھوں کو ہم نے بچوں کی طرح پال پوس کر بڑا کیا۔ اب جب ان دکھوں نے ہم پر اور ہمارے گھروں پر قبضہ کرلیا ہے اور ہمیں اپنے آپ سے اور اپنے گھروں سے بے دخل کر دیا ہے تو پھر رونا کس بات کا، دہائیاں کس لیے، گریہ اور آہ و زاریاں کیوں۔ کیا آپ نے کبھی اس بات پر غور کیا ہے کہ کسی جگہ سچ کا آزادانہ قتل کیوں کر ممکن ہوتا ہے۔
آئیں آزادانہ سچ کے قتل کے محرکات اور پس منظر کو سمجھنے کی مل کر کو شش کرتے ہیں۔ روجر شیم نے ملکہ ایلزبتھ کے دربار میں جو لوگوں کا چلن تھا ان باتوں کو اس طرح نظم کیا ہے ''مکاری، جھوٹ، خوشامد، دیدہ دلیری، یہ چار طریقے ہیں جن سے لوگ باتوقیر ہوسکتے ہیں، اگر تجھے ان میں سے کوئی نہیں آتا تو چل دے اور گھر بیٹھ''۔ جب ان چار چلنوں کا کسی دربار یا ایوان یا پھر ملک میں غلبہ ہوجاتا ہے تو پھر آپ کو سچ کو کسی بھی وقت اور کسی بھی جگہ آزادانہ قتل کرنے کی اجازت حاصل ہوجاتی ہے۔ شیکسپیئر کے ڈرامے ''اوتھیلو(1604)'' میں ایاگو، برائی، جھوٹ اور سازش کا نمایندہ ہے اور فتح مند رہتا ہے، ڈیسڈیمونا، نیکی، ایمانداری اور وفا ہے اور وہ قتل ہوجاتی ہے۔
شیکسپیئر کے دوسرے ڈرامے ''میکبتھ'' میں قاتل زندگی پر بے رحم فیصلہ دیتا ہے کہ ''ناتواں شمع بجھ گئی، زندگی محض ایک گریزاں سایہ ہے، ایک لاچار سازندہ، جو منڈپ پر اپنا مقررہ وقت پورا کرتا ہے اور پھر کبھی بھی اس کی آواز نہیں آتی۔ یہ ایک کہانی ہے جو کسی احمق نے سنائی، آواز اور غیظ و غضب سے بھرپور، جس کا کوئی بھی مطلب نہیں''۔ کیا زندگی کے متعلق کوئی اس سے زیادہ ترش رائے دی جاسکتی ہے؟ ہاں ایتھنز کے ٹیمون کو یاد کریں جو کبھی ایک ایتھنی لکھ پتی ہوا کرتا تھا اور ہر وقت خوشامدی دوستوں میں گھرا رہتا، دولت کھو جانے پر اس نے دیکھا کہ دوست رات بھر میں غائب ہوگئے۔
وہ تہذیب کی گرد اپنے پیروں سے جھٹک کر ایک جنگل کی کج تنہائی میں چلا جاتا اور وہاں امید کرتا ہے کہ ''نامہربان ترین درندے بھی نوع انسانی کی نسبت زیادہ مہربان ہونگے''۔ وہ خواہش کرتا ہے کہ کاش السی بیادیس ایک کتا ہوتا تاکہ میں تمہیں کچھ پیار کرسکتا، وہ جڑیں کھا کر گزارہ کرتا ہے، وہ مٹی کھودتا ہے اور سونا پاتا ہے۔ دوست دوبارہ آجاتے ہیں، وہ طعن و تشنیع کے ساتھ انھیں بھگا دیتا ہے لیکن جب فاحشائیں آتی ہیں تو اس شرط پر انھیں سارا سونا دے دیتا ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ مردوں کو جنسی بیماریاں لگائیں گی۔ نفرت کے سرور میں و ہ فطرت کو حکم دیتا ہے کہ انسانوں کی نسل کشی روک دے اور امید کرتا ہے کہ وحشی درندے تیزی سے تعداد میں بڑھ کر انسانی نسل کا صفایا کر دینگے۔
کیا یہ سچ نہیں ہے کہ ہمارے معاشرے کا ہر اِیاگو ہمیشہ فتح مند رہتا ہے اور ہر ڈیسڈیمونا ہمیشہ قتل ہوجاتی ہے۔ کیا یہ بھی سچ نہیں ہے کہ یہ سب کچھ دیکھ کر اور اپنے ساتھ بدترین سلوک پر کچھ نہیں بلکہ کروڑوں انسان ایتھنز کے ٹیمون نہیں بن چکے ہیں، کیا یہ بھی سچ نہیں ہے کہ وہ سب کے سب بوائلر نہیں بن گئے ہیں، کھولتے، ابلتے بوائلر، جو سب کچھ جلانے پر تلے بیٹھے ہیں، جو ہر مکار، جھوٹے، خوشامدی اور دیدہ دلیر اور ہر ایاگو کو بھسم نہیں کرنا چاہتے ہیں۔ کیا یہ بھی سچ نہیں ہے کہ وہ ہر مجرم اور سچ کے قاتلوں کو نفرت کی نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں۔
پہلے چینی فلسفی لاوزے جو روسو اور تھامس جیفرسن سے کوئی 2300 سال پہلے گزرا ہے، کہتا ہے ''فطرت میں تمام چیزیں خاموشی سے کام کرتی ہیں، وہ ہست ہوتی اور کچھ بھی حاصل نہیں کرتیں، وہ کوئی بھی دعویٰ کیے بغیر اپنا فریضہ سر انجام دیتی ہیں، تمام چیزیں ایک ہی انداز میں کام کرتی ہیں اور پھر ہم انھیں منتشر ہوتے دیکھتے ہیں، ہر چیز اپنے عروج کو پہنچنے کے بعد ماخذ میں لوٹ جاتی ہے، اپنے ماخذکی جانب واپسی کا مطلب قسمت کا لکھا پورا کرنا ہے، یہ الٹا بہاؤ ایک ابدی قانون ہے، جان لو کہ دانش ہی قانون ہے''۔ ایوانوں میں بیٹھے میرے زمینی خداؤ اور میرے ملک کے مجرمو، یاد رکھو، الٹا بہاؤ ایک ابدی قانون ہے، جلد ہی تمہاری زندگیوں کی رات ہوجائیگی اور جب رات ہوگئی تو تمہارے گرد جمع یہ سارے مکار، جھوٹے، خوشامدیوں میں سے تم ایک کو بھی اپنے پاس نہیں پاؤ گے اور تمہیں اپنے سارے اعمالوں کا حساب کہیں نہ کہیں تو ضرور دینا ہی ہے۔
تم یہاں تو سزا سے ضرور بچ سکتے ہو لیکن وہاں کوئی بھی سزا سے نہیں بچ پائیگا۔ عظیم ادیب و طنز نگار ایراسمس کے تصوراتی مکالمے میں پیٹر (پطرس) جولیس کو بہشت میں جانے سے روکتا ہے۔ پطرس: مجھے کچھ قریب ہونے دو۔ پادری والا چولا لیکن اس کے نیچے خونیں زرہ، آنکھیں وحشی، بولنے میں برا، پیشانی پہ بل، جسم گناہوں میں لتھڑا ہوا، سانس شراب سے لبریز، صحت بدکاری کے باعث تباہ، چاہے تم کتنا بھی ڈرا دھمکالو میں تمہیں بتادوں گا کہ تم کیا ہو، تم جولیس ہو، جہنم سے واپس آیا ہوا شہنشاہ۔ جولیس: تو کیا تم پھاٹک نہیں کھولو گے؟ پطرس: بہت جلد لیکن کسی تمہارے جیسے شخص کے لیے نہیں۔ اگر تمہارے پاس کچھ وقت ہو تو خدارا شہنشاہ جولیس کی کہانی ضرور پڑھ لینا۔ جب تم جولیس کی کہانی پڑھ رہے ہوگے تو ہوسکتا ہے کہ تمہاری ملاقات خود سے بھی ہوجائے۔ یاد رکھنا جولیس جیسے انسانوں کے لیے کبھی بھی بہشت کے دروازے نہیں کھلیں گے۔