سستی رہائش کا مسئلہ
ایک صحافی اور تجزیہ نگار اپنے مطالعے اور مشاہدے کی روشنی میں صرف مشورہ ہی دے سکتا ہے۔
ہر صبح اخبار میں مختلف تعمیری کمپنیوں کے اشتہارات ہوتے ہیں۔ چند بڑی کمپنیاں جدید خطوط پر استوار ٹاؤنز اور کالونیاںبناکرفروخت کرنے کے اشتہارات دیتی ہیں، جب کہ کچھ کمپنیاں بنگلے اور فلیٹس تیار کرکے فروخت کر رہی ہیں۔ظاہر ہے ان کے خریدار بھی ہیں۔
یہ ہر شہری کا حق ہے کہ وہ اچھی زندگی گذارے، پر تعیش رہائش اختیار کرے۔ مگر یہ ان لوگوں کا معاملہ ہے، جن کی جیب میں رقم ہوتی ہے۔ یعنی پاکستان کے تناظرمیں 20 سے 25 فیصد متوسط اور بالائی متوسط طبقات ان سہولیات سے استفادہ کرسکتے ہیں۔ لیکن باقی75سے80فیصد آبادی کی جدید سہولیات سے آراستہ رہائش تک رسائی ممکن نہیں ہے۔
دو دہائی قبل تک کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں قائم شہری ترقی کے سرکاری ادارے ہر چند برس بعد رہائشی اسکیموں کا اعلان کیا کرتے تھے۔ جن میں آمدنی کے ہر گروپ کے لیے مختلف سائزکے رہائشی اور تجارتی پلاٹس اور فلیٹس آسان اقساط پرفروخت کیے جاتے تھے۔اس طرح کم آمدنی والے افراد کوقطعہ ارض، بنے بنائے مکانات یا فلیٹس مل جایا کرتے تھے۔مگر یہ سلسلہ بھی اب ختم ہوچکا ہے۔ حالانکہ پاکستان میں صحیح معنی میں کم قیمت رہائش مہیا کرنے کا کوئی مربوط منصوبہ نہیں رہاہے۔
ایک زمانے میں کراچی میں وزیر بحالیات جنرل اعظم خان مرحوم کی ذاتی دلچسپی کے نتیجے میں کورنگی کا علاقہ آباد ہوا تھا۔ جہاں 80مربع گز پر ایک کمرے،کچھ اور باتھ روم پر مشتمل مکانات تعمیرکرکے کم آمدنی والے افراد میں تقسیم کیے گئے تھے۔
شاہ فیصل کالونی(سابقہ ڈرگ کالونی)میں 80گز کے کورٹر اور فیڈرل بی ایریا میں 120گز پرسنگل اسٹوری مکانات تعمیر کرکے آسان قسطوں پر عام شہریوں کو دیے گئے۔ اسی طرح لاہور میںچار دہائی قبل ٹاؤن شپ میں مختلف سائزکے پلاٹس بنائے گئے۔جب کہ 5مرلے زمین پرکوارٹر تعمیر کرکے سستے داموں کم آمدنی والے شہریوں کو فروخت کیے گئے تھے۔ کراچی اور لاہور میں تین سے چار دہائی قبل تعمیرکیے گئے کوارٹراس قدر مضبوط تھے، کہ آج بھی نئے تعمیر شدہ مکانوں سے زیادہ مضبوط ہیں، لیکن یہ سلسلہ رفتہ رفتہ ختم ہوتا چلا گیا۔
1980اور 1990میں ڈائریکٹر جنرل کچی آبادی سندھ تسنیم صدیقی نے کراچی اور حیدر آباد میں 60 مربع گز پر خدا کی بستی کے نام سے کوارٹر بنانے کر سستے داموں کم آمدنی والے افراد کو دیے، مگر اب ایسا نہیں ہو رہا۔اس بارے میں مختلف آرا ہیں۔ کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ زمین کی قیمت اتنی زیادہ ہوگئی ہے کہ حکومت کے لیے سستی رہائشی اسکیمیں شروع کرنا ممکن نہیں رہاہے، یہ ایک طرح کا عذر لنگ ہے۔ کیونکہ حکومتوں کے لیے زمینوں کی کم یا زیادہ قیمتیں کو اہمیت نہیں رکھتیں۔
دوسری رائے یہ ہے کہ ترقیاتی اداروں میں کرپشن اس قدر بڑھ گئی ہے کہ وہ اس قسم کے منصوبوں کی راہ میں رکاوٹ بن گئے ہیں۔لیکن اسباب کچھ ہی کیوں نہ ہوں عام آدمی کے لیے سستی اور ضروری سہولیات سے آراستہ رہائش کا حصول ممکن نہیں رہا ہے۔
دوسری جانب دو سے تین دہائیوںکے دوران اربنائزیشن کا عمل تیز رفتار ہوا ہے۔ دیہی علاقوں میں روزگارکے ذرایع سکڑنے کے باعث لوگ روزگارکی تلاش میں شہروں کا رخ کررہے ہیں۔ شہروں میں سستی رہائش کی عدم موجود گی کے سبب یہ لوگ کچی بستیوں میں سکونت اختیار کرنے پر مجبور ہیں۔ یہ بستیاں عام طورپر پکی بستوں کے اطراف میں سرکاری زمینوں پر بسائی جاتی ہیں۔
اس کا سبب یہ ہے کہ ان لوگوں کو پکی بستیوں کے مکینوں کے یہاں گھریلو ملازمتیں مل جاتی ہیں۔ان کی خواتین بھی متوسط گھروں میں کام کاج کرکے خاندان کی آمدنی میں اضافہ کرتی ہیں۔ ان بستیوں میں نہ سیدھی گلیوں کا تصور ہوتا ہے۔ نہ فراہمی اور نکاسی آب کی کوئی سہولیت میسر ہوتی ہے۔ بجلی ،گیس اور پانی فراہم کرنے والی کمپنیاں ان علاقوں میں یوٹیلٹی سہولیات فراہم نہیں کرتیں۔ جس کے نتیجے میں بجلی کنڈے ڈال کر، جب کہ پانی مین لائن کو کاٹ کر غیر قانونی طورپر حاصل کیا جاتا ہے۔اس کے علاوہ یہ بستیاں جرائم پیشہ افراد کے لیے بھی محفوظ ٹھکانہ ہیں۔
خاص طورپر کراچی جو ملک کا سب سے بڑا تجارتی مرکز ہے، پورے ملک کے ہر شہری کے لیے اپنے اندر کشش رکھتا ہے۔دولت مند لوگ یہاں کاروبار کی خاطر پرآسائش بستیوں میں رہتے ہیں، جب کہ غریب محنت کش ان امیر بستیوں کے اطراف میں کچی بستیاں بساکر آباد ہیں۔ بلکہ آبادی کے شہر کی جانب تیز رفتار بہاؤ کی وجہ سے ندی نالوں کے کناروں پر بھی ان گنت بستیاں آباد ہوگئی ہیں۔ شہر سے درمیان سے دو بڑی ندیاں (ملیر اور لیاری) گذرتی ہیں۔
ان آبادیوں کے سبب ان کے پاٹ سکڑ گئے ہیں۔ جس کی وجہ سے اطراف کی پہاڑیوں سے برسات میں آنے والے پانی کی گذرگاہ محدود ہونے سے پانی شہر میں آنے لگا ہے۔ اسی طرح شہر میں سات قدرتی نالے ہوا کرتے تھے، جو ان ندیوں میں گرتے تھے۔ مگر یہ نالے بھی بند ہوگئے ہیں۔ اسی طرح انگریزوں نے نکاسی آب کے لیے پرانے شہر میں تین پکے نالے تعمیر کیے تھے۔ ان پر مارکیٹیںاور پلازہ تعمیر ہونے سے وہ بھی تقریباً بند ہوچکے ہیں۔یوں صرف شہرکی آبادی ہی میں بے ہنگم اضافہ نہیں ہورہا، بلکہ نکاسی و فراہمی آب میں رکاوٹ پیدا ہورہی ہے۔جب کہ دیگر یوٹیلیٹیزکے غیر قانونی استعمال میں اضافہ ہورہا ہے۔
2007میں راقم نے ایک کانفرنس کے سلسلے میں ممبئی میں کئی روز قیام کیا۔اس دوران وہاں کئی شعبہ جات کے طریقہ کار اور کارکردگی کا مطالعہ اور مشاہدہ کرنے کا موقع ملا۔ مقامی حکومت مہاراشٹر کی ریاستی حکومت کے تعاون سے کچی بستی کے رہائشیوں کے لیے سستی رہائش تعمیرکررہی تھی۔ ان بلڈنگوں میں 25 مربع گزپرفلیٹس تعمیر کیے گئے ہیں۔ہر فلیٹ ایک بڑے کمرے پر مشتمل ہے۔جس کی چھت 15فٹ بلند رکھی گئی ہے۔کمرے کے ایک جانب گیلری ہے،جس کے دونوں اطراف میں کچن اور باتھ روم بنے ہوئے ہیں۔ کمرے میں چاروں طرف 7فٹ کی بلندی پر6 فٹ چوڑائی کا مچان بنایاگیاہے۔
مقصد یہ بیان کیا گیا ہے کہ کمرہ دن بھر کی سرگرمیوں کے لیے ہے، جب کہ مچان کو سونے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ مقامی حکومت کے نمایندے کا کہنا تھا کہ 2025تک ایسے فلیٹس تعمیر کرکے وہ ممبئی سے کچی بستیوں کو مکمل طورپر ختم کردیں گے۔ اپنے اس دعوے میں وہ کس حد تک کامیاب ہوتے ہیں، یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ لیکن ان کم قیمت فلیٹوں نے ہماری شہری حکومتوں کے منصوبہ سازوں کو ایک راہ ضرور دکھائی ہے۔
اگر کراچی، لاہور اور اسلام آباد سمیت دیگربڑے شہروں میں اس قسم کے فلیٹس تعمیر کرکے کم آمدنی کے شہریوں کو آسان اقساط پر فراہم کیے جائیں، تورہائش کا مسئلہ خاصی حد تک حل ہوسکتا ہے۔ اس کے علاوہ ان شہروں میں بعض بڑی رہائشی اسکیمیں بھی تسلسل کے ساتھ جاری ہیں۔ جن میں زیادہ تر متمول اور صاحب حیثیت لوگ ہی رہائش پذیر ہیں یا ہونے والے ہیں۔ اس بستیوں میں مختلف خدمات سرانجام دینے والے افراد کے لیے کسی رہائشی علاقہ یا فلیٹس وغیرہ کا بندوبست نہیں ہے۔
یہ درست ہے کہ ہر بڑے گھر میں ایک سرونٹ کوارٹر ہوتا ہے۔ مگر اس میں صرف ایک ہی کام کرنے والا رہ سکتا ہے۔ باقی لوگ دور دراز سے کچی بستیوں سے آتے ہیں۔ لہٰذا بڑی بستیاں بسانے والے بلڈرز اگر یہ چاہتے ہیں کہ ان کی بستی کے اطراف میں کچی بستیاں آباد نہ ہوں تو اپنے منصوبے میں کچھ جگہ پر ممبئی طرز کے فلیٹس تعمیر کرکے انھیں کم آمدنی والے خدمت گار افراد کو مناسب اقساط پر دے سکتے ہیں۔
صنعت کاروں کی انجمن بھی اگر صنعتی علاقے سے متصل محنت کشوں کی بستی یا بنیادی سہولیات سے آراستہ فلیٹس تعمیر کرکے اپنے کارکنوں کو آسان اقساط پر دینے کا بندوبست کرسکتے ہیں۔ اس کام کو outsourceبھی کیا جاسکتا ہے اور پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے ذریعے بھی ممکن ہے۔ایک صحافی اور تجزیہ نگار اپنے مطالعے اور مشاہدے کی روشنی میں صرف مشورہ ہی دے سکتا ہے۔ باقی سوچنے، سمجھنے اور عمل کرنا ریاستی منصوبہ سازوں، صنعتکاروں اور تعمیراتی کمپنیوں کے ماہرین اور مالکان کاکام ہے۔