احسان اللہ احسان کی واپسی
آپریشن رد الفساد کی مکمل کامیابی کے لیے ایک نہیں کئی احسان اللہ احسان واپس آنے چاہئیں۔
احسان اللہ احسان کے اعترافی ویڈیو بیان کے بعد اب کسی کو یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان اسلام کے نام پر کام کر رہی ہے یا وہ مسلمانوں کی ہمدرد ہے۔ اس دہشت گرد تنظیم کا ایک ہی ایجنڈا ہے کہ کسی طرح پاکستان کو کمزور کر دیا جائے۔
اس اعترافی ویڈیو میں بھارت اور افغانستان کے گٹھ جوڑ کے حوالے سے بھی بہت کچھ ہے۔ بھارتی خفیہ ایجنسی ''را'' کی فنڈنگ اور افغانستان کی این ڈی ایس کس طرح سے ان دہشت گردوں کی مدد کر رہی ہے اس کا کچا چٹھا احسان اللہ احسان نے کھول کر رکھ دیا ہے۔ ان دہشتگردوں کو نہ صرف افغانستان میں پناہ دی گئی ہے بلکہ بھرپور مالی مدد اور آزادانہ آمدورفت کی مکمل سہولت بھی دی گئی ہے۔ افغانستان کا شناختی کارڈ ''تذکرہ'' تمام دہشت گردوں کے پاس موجود ہے اور وہ بڑی آسانی کے ساتھ ایک سے دوسری جگہ جا سکتے ہیں۔
اس اعترافی ویڈیو سے یہ بھی معلوم ہو گیا ہے کہ آپریشن رد الفساد کافی حد تک کامیاب ہو گیا ہے۔ دہشت گردوں کو افغانستان میں پناہ اور بھارت کی پشت پناہی نہ ملتی تو یہ اب تک قصہ پارینہ بن چکے ہوتے۔ اس اعترافی ویڈیو کے ایک ایک لفظ پر اس لیے بھی یقین کیا جا سکتا ہے کہ احسان اللہ احسان نے ٹی ٹی پی کی اصلیت جاننے کے بعد خود کو پاک فوج کے حوالے کیا ہے۔ یہ وفاقی وزیرخزانہ اسحاق ڈار کی طرح ''دباؤ'' میں لیا گیا اعترافی بیان نہیں ہے۔ احسان اللہ احسان کو گرفتار کرنے کے بعد یہ اعترافی بیان لیا جاتا تو پھر اس پر شبے کا اظہار بھی کیا جا سکتا تھا۔
احسان اللہ احسان کے اعترافی ویڈیو بیان سے پہلے کلبھوشن یادیو کی شکل میں ایک جیتا جاگتا ثبوت ہمارے ہاتھ لگا تھا لیکن ہماری سیاسی قیادت نے اسے دنیا کے سامنے اس طرح پیش نہیں کیا جس طرح پیش کیا جانا چاہیے تھا۔ بھارتی خفیہ ایجنسی کا حاضر سروس فوجی افسر پاکستان کی سرزمین سے نہ صرف پکڑا گیا بلکہ اس نے بلوچستان اور کراچی سمیت ملک کے مختلف علاقوں میں تباہی پھیلانے کے منصوبوں کا اعتراف بھی کر لیا۔ اس کے باوجود حکومت کا رویہ ایسا رہا کہ شاید کلبھوشن کی گرفتاری میں ہماری کوئی غلطی تھی۔
وزیراعظم نے جنرل اسمبلی میں خطاب کے موقع پر بھی اس کا نام لینا گوارا نہیں کیا۔ بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات کی خواہش رکھنا غلط نہیں ہے۔ بہتر تعلقات دونوں ملکوں کے مفاد میں ہیں لیکن کیا یہ ممکن ہے کہ ایک ملک دوسرے کے خلاف مسلسل تخریبی کارروائیاں کرے اور پھر بھی دن رات اس کی محبت میں غرق رہا جائے۔ ایسی یکطرفہ محبت کا کیا فایدہ۔ بھارت ابھی تک کلبھوشن تک قونصلر رسائی کا مطالبہ کر رہا ہے اور اس کی تازہ ترین درخواست بدھ کو رد کی گئی ہے۔
بھارت یہ اعتراف بھی کر چکا ہے کہ کلبھوشن فوجی افسر ہے مگر ہم دنیا کو یہ بتانے میں ناکام رہے کہ ہم ''را'' کی دہشت گردی کا شکار ہیں۔ دہشت گردی کے شکار پاکستان سے اگر آج بھی امریکا ''ڈومور'' کا مطالبہ کرے تو اس سے بڑی بدقسمتی کیا ہو سکتی ہے۔ بھارت کے حوالے سے سیاسی حکومت اور خاص طور پر وزیراعظم کے معذرت خواہانہ رویے کو سمجھنا کافی مشکل ہے۔
مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم پر چار چھ بیان ضرور وزیراعظم کے کریڈٹ پر ہیں لیکن پاکستان میں اس کی دہشت گردانہ کارروائیوں پر وہ خاموش رہنا ہی پسند کرتے ہیں۔ کچھ مواقع پر کوئی سوال پوچھا بھی گیا تو وزیراعظم نے جواب دیا دونوں ملکوں کو ایک دوسرے کے معاملات میں مداخلت سے باز رہنا چاہیے۔
احسان اللہ احسان کے اعترافی بیان کے بعد ان لوگوں کی آنکھیں بھی کھل جانی چاہئیں جو یہ سمجھتے تھے یا سمجھتے ہیں کہ ٹی ٹی پی اسلام کے نفاذ کے لیے کوئی جدوجہد کر رہی ہے۔ ٹی ٹی پی اور جماعت الاحرار کے سابق ترجمان کا کہنا ہے کہ ان کالعدم تنظیموں کی قیادت معصوم مسلمانوں سے بھتہ لیتی، ان کا قتل عام کرتی ، اسکولوں اور کالجوں پر حملے کرتی ہے۔ جس مذہب میں ایک بے گناہ انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیا جائے ، کیا وہاں اس طرح کی کارروائیاں کرنے والے یہ دعویٰ کر سکتے ہیں کہ وہ اسلام کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں۔
احسان نے ٹی ٹی پی جوائن کی تو وہ خود طالب علم تھا، اس لیے اس نے اسٹوڈنٹس سے اپیل کی ہے کہ وہ پراپیگنڈے کا شکار ہو کر ان کا حصہ نہ بنیں۔ روایتی میڈیا نے ان کی کارروائیوں اور بیانات کی کوریج بند کر دی تو انھوں نے نوجوانوں کو ورغلانے کے لیے سوشل میڈیا استعمال کرنا شروع کر دیا۔ ٹی ٹی پی اوراس جیسی دوسری تنظیمیں جہاد کے نام پر نوجوانوں کو ورغلاتی ہیں۔
داعش جیسی تنظیموں کو یورپ سے بھی شکار مل جاتے ہیں، جہاں نہ روزگار کے زیادہ مسائل ہیں نہ حصول انصاف میں مشکلات۔ ہمارے جیسے معاشرے تو اس قسم کی تنظیموں کے لیے نرسری کی حیثیت رکھتے ہیں جہاں انصاف ملتا ہے نہ روزگار۔ سیاسی لیڈر روزانہ کی بنیاد پر ایک دوسرے کو چور اور ڈاکو قرار دے رہے ہوں تو پھر نوجوانوں کو ورغلانہ کہاں مشکل رہ جاتا ہے۔ نوجوان کسی بھی قوم کی تقدیر بدلنے میں اہم ترین کردار ادا کرتے ہیں۔ انھیں غلط راستے پر ڈال دیا جائے تو پھر اس قوم کی تباہی آسان ہو جاتی ہے۔
احسان اللہ احسان کے اعترافی ویڈیو بیان کو محض ایک بیان سمجھ کر آگے نہیں بڑھ جانا چاہیے۔ 9سال تک ٹی ٹی پی کا حصہ رہنے والا یہ شخص ان کے ہر ٹھکانے اور ہر چال سے واقف ہے۔ اسے یہ بھی معلوم ہو گا کہ انھیں کہاں کہاں سے مدد مل رہی ہے۔ ممکن ہے کہ کئی شرفاء بھی دہشت گردوں کی مدد کر رہے ہوں۔ میڈیا کو جاری کیا گیا بیان زیادہ طویل نہیں ہے۔ اس نے بہت سے ایسے رازوں سے بھی پردہ اٹھایا ہو گا جو شاید اس وقت لوگوں کے ساتھ شیئر کرنا مناسب نہیں ہوں گے۔ دشمن کا ایجنڈا بے شک بے نقاب ہو گیا۔ میڈیا پر اس ویڈیو بیان کو شیئر کرنے سے فایدہ بھی ہو گا۔ ممکن ہے کہ کچھ نوجوان اس کا اثر لے لیں اور ٹی ٹی پی جیسی تنظیموں کی حقیقت جان لیں۔
ہماری ریاست اور حکومت اگر اس کے دیرپا فوائد حاصل کرنا چاہتی ہے تو پھر ہمیں یہیں رکنا پڑے گا۔ ماضی میں کی گئی غلطیوں کا جائزہ لینا ہو گا۔ماضی میں سر زد ہونے والے گناہوں کا کفارہ ادا کرنے کے لیے بہت کچھ کرنا پڑے گا۔ ہم جس مقام سے غلط موڑ مڑ گئے تھے، اسی مقام پر واپس جانا پڑے گا۔ وہیں سے درست راستے کا تعین کرنا پڑے گا۔ اگر ہم واقعی چاہتے ہیں کہ اس معاشرے کو شدت پسندی سے پاک کر دیں تو پھر اس کی ابتدا نیشنل ایکشن پلان پر مکمل عمل درآمد سے کرنا ہو گی۔ بنیادی نکتہ نصاب کی تبدیلی ہے۔ نفرت انگیز مواد کی تلفی اور بلا امتیاز کارروا ئی وقت کی اہم ضرورت ہے۔
آپریشن رد الفساد کی مکمل کامیابی کے لیے ایک نہیں کئی احسان اللہ احسان واپس آنے چاہئیں۔ یہ ایسی صورت میںممکن ہے کہ ہم ''مٹی پاؤ'' کا رویہ تبدیل کر لیں۔ ورنہ کھیلنے کے لیے پانامہ اور نیوز لیکس جیسے ایشو موجود ہیں۔ آئیں! کھیلتے رہتے ہیں۔