پاناما کیس کا فیصلہ جے آئی ٹی کا مرحلہ
عدالتی فیصلے کے بعد نوازشریف وزارت عظمیٰ کی کرسی پر بیٹھنے کا اخلاقی جوازکھوچکے ہیں۔
وزیراعظم صادق وامین نہیں رہے، مستعفی ہو جائیں، اگر الزامات سچ ثابت نہ ہوئے توعہدے پر واپس آجائیں،وزیراعظم ایک ہفتے میں استعفیٰ دے دیں ورنہ عدلیہ بحالی سے بڑی تحریک چلائی جائے گی، وزیراعظم قانونی وسیاسی لحاظ سے وینٹی لیٹر پر چلے گئے ہیں، بادی النظر سے دیکھا جائے تو فیصلہ وزیراعظم کے خلاف ہی آیا ہے، عدالتی فیصلے کے بعد نوازشریف وزارت عظمیٰ کی کرسی پر بیٹھنے کا اخلاقی جوازکھوچکے ہیں، پانچوں ججز نے ثابت کردیا کہ نواز شریف ایماندارنہیں، دو ججز سے نااہلی کا سرٹیفکیٹ مل گیا، وزیر اعظم اور بچے بری نہیں ہوئے،الزامات موجود ہیں، جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) مجرموں کے لیے بنتی ہے۔
ان خیالات کا اظہار پاناما کیس کے فیصلے کے بعد بالترتیب تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان، امیر جماعت اسلامی سراج الحق، مسلم لیگ ق کے صدر چوہدری شجاعت حسین، لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدرذوالفقار علی،آئینی ماہرین و تجزیہ نگار، پاکستان تحریک انصاف کراچی ریجن کے صدر فردوس شمیم نقوی، سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری، پاکستان کے آئینی اور قانونی ماہرین اور پیپلز پارٹی نے کیا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے رہنما و رکن قومی اسمبلی دانیال عزیز پاناما کیس سننے کے بعد سب سے پہلے عدالت عظمیٰ سے باہر آئے، انھوں نے سیڑھیاں اترتے ہی ( ہم کیس جیت گئے، وزیر اعظم نواز شریف زندہ باد) کا نعرہ لگایا۔
ادھر وزیر اعظم نواز شریف نے پاناما کیس کا تاریخی فیصلہ سننے کے بعد شکرانے کے نوافل ادا کیے، وزیر اعظم نے کہا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے شکرگزار ہیں جس نے سرخرو کیا ہے، عوام کی خدمت کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔ وفاقی وزراء نے پاناما لیکس کیس پر سپریم کورٹ کے فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ جمہوریت اورعوام کی فتح ہے، عوامی مینڈیٹ پر شب خون مارنے والوں کوایک بار پھر شکست کا سامنا کرنا پڑا،اب سیاسی تماشہ بند ہونا چاہیے، ثابت ہوگیا کہ وزیراعظم صادق اورامین ہیں۔
سپریم کورٹ نے پاناما کیس کے تفصیلی فیصلے میں 12اہم سوالات اٹھائے ہیں۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اس معاملے میں تحقیقات کی ضرورت ہے کہ گلف اسٹیل ملزکیسے قائم ہوئی؟ اس کوکس وجہ سے بیچا گیا؟ مل پر واجبات کا کیا کیا گیا؟ کس طرح اس مل کو فروخت کیا گیا؟ سرمایہ کس طرح جدہ، قطر اور برطانیہ پہنچا؟ کیا حسین نواز اور حسن نواز 90ء کی دہائی کے آغاز میں لندن فلیٹس خریدنے کے ذرایع رکھتے تھے؟ کیا اچانک سامنے آنے والا قطری شہزادے جاسم بن جابر الثانی کا خط ایک مفروضہ ہے یا حقیقت؟ بیئر شیئر کیسے فلیٹس میں تبدیل ہوئے؟ آف شور کمپنیوں نیلسن انٹر پرائز اور نیسکو لمیٹڈ کا اصل مالک کون ہے؟کس طرح ہل میٹل قائم کی گئی؟ حسن نوازشریف کے پاس فلیگ شپ اور دیگر کمپنیوں کے لیے رقم کہاں سے آئی؟ ان تمام سوالات کا جواب آنا ضروری ہے، اس لیے ایک مفصل انکوائری ضروری ہے۔
ممکنہ طور پر سات روزکے اندر جے آئی ٹی تشکیل دی جائے گی جو ہر پندرہ دن میں تحقیقات کے حوالے سے عدالت کو پیشرفت کی رپورٹ دینے کے ساتھ 60 روز میں حتمی رپورٹ پیش کرے گی۔ جے آئی ٹی عدالتی فیصلے میں کیے گئے سوالات کے حوالے سے تحقیقات کرے گی۔ پاناما کیس کے حکم نامے میں سپریم کورٹ نے وہائٹ کالرکرائم کی تفتیش میں تجربہ کار حامل شخص کو مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کا سربراہ بنانے کی ہدایت کی ہے۔
ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق جب کہ ایف آئی اے میں موجود ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل عہدے کے جو گریڈ 21 کے دو افسر تعینات ہیں ان میں کیپٹن ( ر) احمد لطیف اور واجد ضیاء شامل ہیں۔ ان دونوں افسران کے پاس وہائٹ کالر کرائمز کی تفتیش کا تجربہ نہیں ہے۔ باقی تمام سینئر افسر گریڈ 20 کے افسران ہیں۔ گریڈ 20 کے ماہر افسران میں حضرت علی، شاہد حیات، ڈاکٹر عثمان انور، ڈاکٹر شفیق پولیس سروس سے ہیں لیکن وہ ایف آئی اے میں بطور فیلڈ افسر کام کررہے ہیں اور وہائٹ کالر کرائمز کے ہائی پروفائل کیسز کی تفتیش کرچکے ہیں۔
ایکسپریس کی ایک اور رپورٹ کے مطابق اس وقت ایف آئی اے میں پولیس سروس آف پاکستان گریڈ 21 کے دو افسران ایڈیشنل ڈی جی ایف آئی اے کے عہدوں پر فائز ہیں، دونوں افسران کی ترقی کو سپریم کورٹ متنازع قرار دے چکی ہے، ان افسران میں کیپٹن (ر) احمد لطیف اور واجد ضیاء شامل ہیں۔ 2015ء میں ان افسران کو گریڈ 21 میں ترقی ملی تھی، دونوں افسران کا تعلق پولیس سروس کے 16 ویں کامن سے ہے۔ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم اعلیٰ ترین اختیارات کی حامل ہوگی، مذکورہ جے آئی ٹی کسی حکومتی ادارے یا شخصیت کے ماتحت نہیں ہوگی اور براہ راست سپریم کورٹ کے احکام کی روشنی میں کام کریگی۔
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر رشید اے رضوی نے پاناما لیکس کیس کے فیصلے پر موقف دیتے ہوئے کہا ہے کہ عدالت کو اس مقدمے میں مشتر کہ تحقیقاتی ٹیم بنانے کے بجائے ایک کمشنر مقرر کرنا چاہیے تھا جو وزیر اعظم اور ان کے دونوں بیٹوں کے بیانات ریکارڈ کرکے عدالت میں پیش کردیتا اور عدالت فیصلہ سنا دیتی۔ رشید اے رضوی کا مزید کہنا تھا کہ پاناما کیس کی سماعت کرنے والے 5 رکنی بینچ کے تمام ممبران نے وزیراعظم اور ان کے بچوں کے دفاع کو رد کردیا ہے اور وزیر اعظم کی دونوں تقاریر کو بھی تسلیم نہیں کیا، وزیراعظم اخلاقی جوازکھو چکے ہیں۔
اس حوالے سے آل پاکستان مسلم لیگ کے سربراہ سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کا بھی بیان سامنے آیا ہے جس میں انھوں نے کہا ہے کہ میاں نواز شریف وزارت عظمیٰ کے عہدے پر فائز رہنے کا جوازکھوچکے ہیں، انھیں فورا مستعفی ہوجانا چاہیے، سپریم کورٹ کے ججوں نے انھیں صادق اور امین قرار نہیں دیا، جے آئی ٹی ہمیشہ مجرم کے لیے بنائی جاتی ہے ، حیران ہوں کہ مٹھائیاں کس بات پر تقسیم کی جارہی ہے؟
پاناما کیس میں وزیر اعظم کے صاحبزادوں حسن اور حسین نواز اور اسحق ڈار کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ بالکل بھی حیران کن نہیں،اس وقت معاملہ صرف تفتیش کی حد تک آگے بڑھا ہے، ہماری یہی استدعا تھی کہ معاملات کی چھان بین عدالت خود نہیں کرسکتی، سپریم کورٹ ٹرائل کورٹ نہیں ہے۔
ایک ٹی وی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ جے آئی ٹی کوئی حتمی فیصلہ دے گی اور نہ ہی دے سکتی ہے، وہ صرف ایک رپورٹ پیش کریگی، جے آئی ٹی عدالت کی طرح کام نہیں کرے گی، تفتیش کے بعد دیکھا جائے گا کہ بادی النظر میں اگر کوئی کیس بنتا ہے تو کس عدالت میں ٹرائل ہونا ہے، اگرکوئی بہت ہی شفاف بات سامنے آتی ہے تب ہی عدالت وزیراعظم کی نااہلی پر غور کرے گی۔