کیوں دور ہیں اپنے۔۔۔
ہم نے ملنساری اور ایثار و قربانی کی روش ترک کر کے اپنے لیے مزید بے چینی اور عدم اطمینانی کا سامان کیا ہے۔
رشتوں کے پھیکے پن نے ہماری زندگیوں میں بے رنگی پیدا کردی ہے۔ فوٹو: فائل
قدرت نے ہر جان دار کی طرح انسانوں میں بھی مذکر اور مونث بنائے اور پھر اس میں باقاعدہ خاندان کے ادارے کے ذریعے نسل انسانی کو ایک بقا عطا کی۔
خاندان کے تعلق سے بننے والے یہ رشتے انسان کی پیدایش سے لے کر موت تک ایک دائمی اور مستقل حیثیت رکھتے ہیں۔ ان رشتوں کی یہ حیثیت اسے گویا دیگر جان داروں سے ممتاز بھی بناتی ہے بلکہ انسانی زندگی میں ان کی اہمیت کو بھی واضح کرتی ہے، صرف معاشرتی ہی نہیں بلکہ مذہبی لحاظ سے بھی ان رشتوں کی اہمیت مسلّمہ ہے۔
یہ انسانی رشتے ایک طرف جہاں انسان کی مجلسی جبلت کی تسکین کرتے ہیں تو دوسری طرف زندگی کے سرد و گرم سے نبرد آزما ہونے میں بھی خاصا کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ مشکلات، مصائب اور دکھوں میں جہاں ان کی قربت اور موجودگی حوصلہ دیتی ہے، وہیں خوشی اور شادمانی کے لمحات میں ان کی شرکت، فرصت اور مسرت کے ان لمحات کو دو بالا کر دیتی ہے۔ بے لوث اپنائیت، خلوص، محبت اور انس کے جذبات ان رشتوں کو مضبوط سے مضبوط تر کر دیتے ہیں۔
انسانی زندگی میں ان رشتوں کی ضرورت اور اہمیت کے باوجود تیز رفتار اور مصروف ترین زندگی نے ان رشتوں کی حیثیت پر نہایت گہرے اثرات مرتب کیے۔ اب رشتوں کے تعلق کو ایک ثانوی حیثیت حاصل ہو گئی ہے۔ بڑھتی ہوئی مصروفیات کے باعث اب قریب کے رشتہ داروں کو بھی ایک ''بوجھ'' تصور کیا جاتا ہے اور ان سے ملنے جلنے کے لیے وقت بھی ذرا کم ہی میسر آتا ہے۔
تیز رفتار مشینی زندگی نے جہاں لطیف انسانی جذبات کا خون کیا ہے، وہیں خونی رشتوں کو بھی ضرورتوں اور غرض کا محتاج بنا دیا ہے چوں کہ اب ہمارے وقت کا اکثر حصہ مختلف ضروریات کی تکمیل کے لیے صرف ہوتا ہے لہٰذا ہم رشتہ داروں اور قرابت داروں سے بھی اپنے تعلقات کو اس ہی نظر سے دیکھتے ہیں اور اگر کسی سے ملتے ہیں تو فقط اپنے مقاصد اور مفادات کے حصول کی توقعات لے کر، بہ صورت دیگر کنارہ کشی اختیار کر لی جاتی ہے۔
انسانی رشتوں کے اس پھیکے پن میں خواتین کا کردار خاصا کلیدی اور بنیادی نوعیت کا ہے، اگرچہ نفسانفسی اور خود غرضانہ سوچ کی صنفی امتیاز کے بغیر معاشرے میں پھیل چکی ہے مگر اس کے علاوہ کچھ معاملات ایسے ہیں جن میں خواتین کے باہمی اختلافات اور ٹکرائو کسی رشتے میں دراڑ کا باعث بنتے ہیں یا بعض اوقات کسی چھوٹی سی بات کو انا کا مسئلہ بنا کر تعلقات کو خراب کر لیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے دلوں میں فاصلے بڑھتے ہیں یا خدانخواستہ ترک تعلق کر لیا جاتا ہے، جب کہ خواتین رشتے داروں کے مابین باہمی رنجشیں ختم کرانے یا ان کی تلخی کم کرنے کی پوری صلاحیت رکھتی ہیں۔ مرد حضرات فکر معاش کے جھمیلوں کے باعث ان معاملات میں کم ہی پڑتے ہیں اور خاتون خانہ یا گھر کی دیگر خواتین کی باتوں کو ہی درست جانتے اور پھر ان پر عمل کرتے ہیں۔
مختلف رشتوں اور قرابت داروں کے حوالے سے خواتین کا معاملہ ہمیشہ سے ہی کچھ ایسا ہے کہ ان کی دل چسپیاں مسائل اور موضوع سخن اکثر باہمی ٹکرائو اور خلش کی وجہ بنتے ہیں۔ گئے وقتوں میں مشترکہ خاندانی نظام اور بزرگ خواتین کی موجودگی اور ان کے مصالحانہ کردار کے باعث معاملات جلد ہی سلجھ جایا کرتے تھے لیکن آج روایتی خاندانی نظام اور بڑوں کے اس صلح جو کردار کے فقدان نے تعلقات میں فاصلے پیدا کر دیے ہیں۔ ہمارا محور صرف اپنی ذات اور اپنے گھر والے ہوگئے ہیں۔ قریبی رشتہ دار اور بہن بھائی جو کہ کبھی ہمارا خاندان تصور کیے جاتے تھے، آج ہم نے انہیں ایک ''مسئلے'' کی حیثیت دے دی ہے۔
نفسانفسی اور خود غرضی کی سوچ نے ہمارے خلوص کو دیمک زدہ کر دیا ہے۔ ہمارے تعلقات میں جھجک، مصلحت اور بناوٹ آگئی ہے۔ ہم اپنی زندگی میں کم سے کم لوگوں کو شامل دیکھنا چاہتے ہیں۔ ہم نے اپنی خوشیوں کو بانٹنا چھوڑ دیا ہے۔ خوشی تو خوشی اب غمی اور دکھ کے موقع پر بھی ہم فقط دنیا داری اور دکھاوے کو ہی مقدم رکھتے ہیں۔ تحائف کے تبادلے میں بھی یہ مدنظر رہتا ہے کہ اس نے ہمیں کس قیمت کا تحفہ دیا، لہٰذا ہم بھی اس ہی درجے کا تحفہ دے کر فقط احسان اتار دیتے ہیں۔ اب تحائف کے ذریعے اپنائیت کے اظہار کی باتیں خواب و خیال لگنے لگی ہیں۔
باہمی رشتوں کے اس پھیکے پن کی وجہ یہ ہے کہ آج کے میکانکی دور میں ہم بھی ایک مشین بن چکے ہیں۔ وقت کی تیز رفتاری نے ہمیں اپنی ذات میں ہی قید کر دیا ہے اور ہم انتہا کی حد تک تنہائی پسند ہو چکے ہیں۔ ہمیں یہ قرابت داریاں ایک بے مقصد ناتے بلکہ زندگی کے مسائل میں اضافہ محسوس ہوتی ہیں۔ آج ہم اپنی ضروریات زندگی تو درکنار اپنے احساسات اور جذبات میں بھی کسی کو شریک کرنا گوارا نہیں کرتے۔ ہماری خودغرضانہ سوچ کے باعث ہمیں اپنے رشتہ دار مطلب پرست دکھائی دیتے ہیں۔ ہمیں لگتا ہے کہ یہ صرف اپنے کسی مطلب کے لیے ہم سے مل رہے ہیں یا اگر ہم اپنے فلاں رشتہ دار سے ملیں گے تو کہیں وہ ہم سے کچھ مانگ نہ لے اور ہمیں اس کا کوئی کام نہ کرنا پڑ جائے۔ پھر عدم برداشت نے باہمی تعلقات کو اور بھی زیادہ خراب کیا ہے، چھوٹی چھوٹی باتوں پر برا منالیا جاتا ہے اور اس ہی پر اکتفا نہیں بلکہ پھرحسد، بغض اور کینہ پیدا کر کے ہمیشہ کے لیے دلوں میں کدورتیں پال لی جاتی ہیں۔
تعلقات کا یہ بگاڑ زیادہ تر خواتین کے ہی باہمی رویوں کا نتیجہ ہوتا ہے، پھر وہی اس کو انا کا مسئلہ بنا دیتی ہیں جس سے صورت حال مزید خراب ہوتی ہے۔ اس کی وجہ امورخانہ داری اور گھریلو معاملات کی ذمہ داریاں بھی ہیں۔ صاحب خانہ تمام دن کی معاشی تگ و دو کے بعد جب گھر لوٹتے ہیں تو انہیں بتایا جاتا ہے کہ فلاں فلاں رشتہ دار نے ایسا ایسا کیا ہے لہٰذا اب ہم نے ان کے ہاں شادی میں نہیں جانا یا پھر تعطیلات میں بھی اکثر خاتون خانہ ہی کہیں ملنے جلنے کا پروگرام ترتیب دیتی ہیں، لیکن جب دلوں میں رنجشیں اور کدورتیں ہوں تو پھر فرصت کے یہ لمحات بھی بجائے کسی سے ملنے جلنے کے اکیلے بِتائے جاتے ہیں۔
رشتوں کی اس بناوٹ نے ہماری زندگی کے مسائل کو کم کرنے کے بجائے مزید بڑھا دیا ہے۔ زندگی کے مسائل سے گلو خلاصی کے لیے اپنوں سے دوری کے اس غیر فطری طریقے نے ہماری نفسیاتی و عمرانی جبلت پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے، کیوں کہ قرابت داروں کی موجودگی اور ان سے اچھے روابط ہماری زندگی کے سفر کو سہل بنانے میں خاصے معاون ثابت ہوتے ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ آج ہم ذہنی انتشار، پریشانی اور اضطراب میں مبتلا ہیں۔ ہم نے ملن ساری اور باہمی ایثار و قربانی کی روش ترک کر کے اپنے لیے مزید بے چینی اور عدم اطمینانی کا سامان کیا ہے۔
اپنی زندگی کو آسان اور خوش گوار بنانے کے لیے ہمیں اپنے رشتہ داروں کے اس ہی قربت اور اپنائیت کے دور کی طرف لوٹنا ہوگا اور باہمی ایثار و قربانی اور خلوص اپنائیت کے جذبے کے تحت بے لوث تعلقات کو فروغ دینا ہوگا۔ برداشت اور رواداری کا مظاہرہ کرنے کے ساتھ دوسروں کو درگزر اور معاف کرنے کی روش اپنانا ہوگی اس کے ساتھ باہمی تلخیوں اور رنجشوں کو دلوں کا بغض اورکینہ بنانے کے بجائے فوراً سے پیش تر کہہ سن کر ختم کرنے کی عادت کو اپنانا ہوگا۔ اگر خواتین رشتہ داروں سے اپنے تعلقات کی راہیں اس نہج پر استوار کرلیں تو ہماری زندگیوں سے پریشانیوں اور مصائب کا خاتمہ ہو سکتا ہے اور زندگی کا حسن اور خوب صورتی دوبالا ہو سکتی ہے۔