آفر دس ارب کی

عمران خان کی بے شمار خوبیوں کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ کانوں کے کچے ہیں اور اِس کی سینکڑوں مثالیں موجود ہیں۔


میری خان صاحب سے گزارش ہے کہ وہ اِس طرح کے بیانات سے گریز کریں کیونکہ ہر بات میڈیا پر آکر کہنے کے لئے نہیں ہوتی۔ فوٹو: فائل

میں آج یہ اقرار کرنا چاہتا ہوں کہ عمران خان میرے ہیرو ہیں، مجھے اُن کی امانت داری، دیانت داری اور حُب الوطنی پر کوئی شک نہیں، بلکہ میں تو یہ بھی کہنا چاہوں گا کہ اگر ایدھی کے بعد پاکستانیوں نے کسی پر اعتبار کیا ہے تو وہ عمران خان ہی ہے اور شاید صدیوں تک ہماری قوم کسی ایک شخص پر اتنا بھروسہ نہیں کرسکے جتنا عمران خان پر کرچکی ہے۔ اِس کی سب سے بڑی وجہ امانت میں خیانت نہ کرنا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ خان صاحب نے حکومتِ وقت کی ناک میں جو دم کر رکھا ہے وہ مظلوم عوام کے زخموں پر مرہم رکھنے کے مترادف ہے۔

نواز شریف عہدے سے مستعفی ہوں یا نہ ہوں لیکن جو جس دھڑلے سے عمران خان نے دن رات نواز شریف کے خلاف بات کی ہے اِس کے اثرات اگلے کئی سالوں تک (ن) لیگ پر رہیں گے اور پوری دنیا میں کھربوں روپوں کی جائیدادیں ہونے کے باوجود وہ اِس مشکل صورتحال سے چھٹکارا حاصل نہیں کرسکیں گے۔ جو بدلہ عوام حاکمِ وقت سے نہیں لے سکی وہ انتقام عمران خان نے نواز شریف سے لے لیا ہے لیکن اِن تمام حقائق کے ساتھ ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ عمران خان کانوں کے کچے ہیں اور اِس کی سینکڑوں مثالیں موجود ہیں لیکن سب سے حالیہ مثال پانامہ کیس سے ہٹانے کے لئے نواز شریف کی طرف سے10 ارب روپے کی آفر کرنے کا دعویٰ ہے۔

خان صاحب کا کہنا یہ ہے کہ آفر میرے اور حمزہ شہباز شریف کے مشترکہ دوست نے پیش کی ہے۔ اُس دوست کا تعلق لاہور سے ہے، یہ آفر دبئی میں حمزہ شہباز شریف اور میرے مشترکہ دوست کے دوست کو کی گئی اور جب خان صاحب سے اُس دوست کا نام پوچھا گیا تو انہوں نے یہ کہہ کر نام بتانے سے معذرت کرلی کہ نواز شریف اُس کے دوست کے کاروبار کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ اب آپ اِن بیانات کو سامنے رکھیں اور سوچیں کہ اگر نواز شریف نے واقعی یہ آفر کی ہے اور مشترکہ دوست کو سو فیصد یقین ہے کہ یہ آفر کی گئی ہے تو اُسے ڈرنے کی کیا ضرورت ہے؟

سیاسی پارٹیوں میں ایسے مشترکہ دوست تو زیادہ قابلِ اعتبار ہوتے ہیں اور اُن کے پاس سیاسی قائدین کی ایسی کمزوریاں ہوتی ہیں کہ سیاسی قائدین اُن کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی نہیں دیکھ سکتے، اور وہ اِس مشترکہ دوست کو نقصان پہنچانے کی ہمت بھی نہیں کرسکتے۔ نقصان تو صرف اُسی صورت میں پہنچایا جاسکتا ہے کہ اگر وہ مشترکہ دوست جھوٹ بول رہا ہو اور اُس کے پاس اِس آفر کا کوئی ثبوت نہ ہو۔

یقیناً ہوا کچھ یوں ہوگا کہ وہ مشترکہ خوشامدی دوست خان صاحب کے پاس حاضر ہوا ہوگا اور خان صاحب کو خوش کرنے کے لئے یہ کہا ہوگا کہ آپ کی تحریک بہت کامیاب ہوگئی، حکومت آپ سے ڈر گئی ہے اور آپ کو خریدنے کے لئے دس ارب روپوں کی آفر بھجوائی ہے۔

خان صاحب نے ماضی کی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے بغیر سوچے سمجھے اِس بات کا یقین کرلیا ہوگا اور اب جب اُن سے اِس دعوے کا ثبوت مانگا جارہا ہے تو یہ حسبِ عادت اسے سیاسی بیان کہہ کر اپنی جان چھڑالیں گے، کیونکہ جتنا آپ اور میں نواز شریف کو جانتے ہیں وہ عمران خان کو اِس ماحول میں دس ارب روپے آفر نہیں کرسکتے کیونکہ نواز شریف جانتے ہیں کہ عمران خان کو خریدنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔

میری خان صاحب سے گزارش ہے کہ وہ اِس طرح کے بیانات سے گریز کریں کیونکہ ہر بات میڈیا پر آکر کہنے کے لئے نہیں ہوتی۔ آپ میڈیا پر آکر کوئی بات کرنے سے پہلے تحقیق کرلیا کریں کیونکہ آپ کے مخالفین آپ کی ایسی باتوں کے انتظار میں رہتے ہیں اور اب (ن) لیگ، پی پی پی اور دیگر اپوزیشن جماعتوں سمیت میڈیا آپ کے پیچھے پڑجائیں گے اور آپ کے پاس اپنے اِس بیان کو سچا ثابت کرنے کے لئے کوئی ثبوت نہیں ہوگا اور وہ مشترکہ دوست بھی وقت آنے پر مُکر جائے گا کیونکہ وہ بھی جھوٹ بول رہا ہے۔

خان صاحب یہ بیانات آپ کی تحریک کو نقصان پہنچائیں گے اور مخالفین کو بھی پروپیگنڈا کرنے کا موقع مل جائے گا۔ خان صاحب یہ سب باتیں میں آپ سے اِس لئے کہہ رہا ہوں کہ میں آپ کا ووٹر ہوں اور آپ کل بھی میرے ہیرو تھے آج بھی میرے ہیرو ہیں اور کل بھی میرے ہیرو رہیں گے۔

[poll id="1368"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اور ویڈیو لنکس۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔