کپتان کا نیا امتحان
ہمارے بعض سیاست باز اور صحافت کار بعض اوقات حدود کو بھی عبور کر جاتے ہیں
سوسائٹی میں امن پیدا کرنے، سماج کے سدھار اور معاشرے کی ہم آہنگی کے لیے جن زریں اصولوں اورقوانین کی ضرورت ہوتی ہے' ان میں سے ایک بلاوجہ کی الزام تراشی سے گریز کرنا ہوتا ہے۔ مہذب معاشروں میں جھوٹے الزامات پر سخت کارروائی کی جاتی ہے۔کیا یہ افسوس اور دکھ کی بات نہیں ہے کہ پاکستان میں تہمت طرازی سے گریز کیا جاتا ہے نہ عملی اعتبار سے اِسے ایک قابلِ مذمت شکل دی گئی ہے؟ جو منہ میں آتا ہے، اُگل دیا جاتا ہے۔
ہمارے بعض سیاست باز اور صحافت کار بعض اوقات حدود کو بھی عبور کر جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر مسلم لیگ نون اور اس کی قیادت پر کپتان عمران خان کا یہ الزام کہ پانامہ کیس کے بارے میں خاموش رہنے کی شرط پر اُنہیں دس ارب روپے کی پیشکش کی گئی تھی۔یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ اب الزام لگایا ہے تو اُنہیں ثابت بھی کرنا چاہیے تاکہ قوم بھی مطمئن ہو سکے اور گندہ کھیل کھیلنے والوں سے ہمیشہ کے لیے نجات بھی حاصل کی جا سکے۔ ایسے الزامات پر تو تختے اُلٹ جاتے ہیں۔
جناب عمران خان کا یہ نیا امتحان ہے۔ اب وہ یہ کہہ کر جان نہیں چھڑا نہیں سکتے کہ اُن کے ایک دوست کو براستہ دبئی حمزہ شہباز کے دوست نے پیشکش کی تھی۔ کپتان صاحب اسلام آباد میں حکومت کے خلاف جلسہ بھی کر رہے ہیں۔ اچھا موقع ہے کہ وہ اس جلسے میں دس ارب کی پیشکش کرنے والے کا نام بتا کر جلسہ بھی لُوٹ لیں اور اگلے انتخابات کی جیت بھی یقینی بنا لیں۔ اُنہیں مگر فرار کا راستہ اختیار نہیں کرنا چاہیے کہ قوم نے اُن سے بلند توقعات وابستہ کر رکھی ہیں۔ اگر وہ متذکرہ تہمت کو ابہام کے پردے میں لپیٹ کر رکھنا چاہیں گے تو اپنا بہت بڑا سیاسی نقصان کریں گے۔
خدشہ ہے کہ اُن کا اعتبار جاتا رہے گا۔اُن کے الفاظ ہمارے سماج پر گہرے اثرات مرتب کرنے کا باعث بن رہے ہیں۔ چنانچہ اُنہیں یہ الزام ثابت کرنا چاہیے کہ دس ارب کی پیشکش کرنے والے کون لوگ ہیں؟ عجب تماشہ ہے کہ تحریکِ انصاف کی ایک اور مرکزی شخصیت جناب نعیم الحق نے بھی چندروز قبل ایک سنگین الزام عائد کیا تھا ۔ پتہ نہیں کیا بات ہے کہ جناب نعیم گزشتہ کچھ عرصہ سے مغضوب الغضب ہونے کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ انھوں نے ایک سابق سپہ سالارِ پاکستان پر، 2013ء کے انتخابات کے حوالے سے، ایک تِیر چلا دیا تھا۔ جب دباؤ پڑا تو پھر معذرت خواہانہ رویہ اختیار کر لیا۔
افواجِ پاکستان اور اس کے تمام متعلقہ اداروں کے خلاف الزام لگانے میں بھارت کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔ اب کیا ضروری تھا کہ پی ٹی آئی بھی اِس میں اپنا حصہ ڈالتی؟
بے بنیادالزام تراشی ہماری سیاست کا ہمیشہ ہی سے چلن رہا ہے۔ بھٹو صاحب کے مخالفین نے اُنہیں نیچا دکھانے اوراُن کی کردار کشی کے لیے ویسے تو اُن پر بے شمار الزامات لگائے۔الزامات عائد کرتے ہوئے بھٹو کے مخالفین ہر حد سے گزر گئے۔ بھٹو صاحب کے خاندان کے حوالے سے ان کی سیاست کے حوالے سے ' الزامات کی بارش کی گئی۔ پیپلز پارٹی کے پرانے کارکن اور بانی رکن جناب علی جعفر زیدی، جو آجکل لندن میں رہائش پذیر ہیں، نے اپنی انکشاف خیزکتاب ''باہر جنگل، اندر آگ'' میں لکھا ہے:''ذوالفقار علی بھٹو، سر شاہنواز بھٹو کے سب سے چھوٹے بیٹے تھے۔ سر شاہنواز بھٹو نے دو شادیاں کی تھیں۔ اُن کا پہلا بیٹا، سکندر، سات برس کی عمر میں نمونئے سے انتقال کر گیا تھا۔ اُس کی وفات سے دو ماہ قبل اُن کا دوسرا بیٹا، امداد علی، پیدا ہُوا جو 31 سال کی عمر میں 1953ء میں وفات پا گیا۔ سٹینلے والپرٹ، جس نے سر شاہنواز بھٹو کی غیر مطبوعہ سوانح عمری کو غور سے پڑھا، نے اپنی کتاب ''زلفی، بھٹو آف پاکستان'' میں اس کے حوالہ جات دیے ہیں۔ ُزلفی اُن کی دوسری بیوی کے بطن سے پیدا ہُوئے تھے۔ اُنہوں نے شادی سے پہلے اسلام قبول کر لیا تھااور اُن کا نیا اسلامی نام خورشید رکھا گیا۔ 1925ء میں اُن کی شادی کوئٹہ میں خان آف قلات کے محل میں ہُوئی۔ اُس وقت کی یادگار تصویر وہ ہے جس میں سرشاہنواز اپنی بیگم، خورشید، کے ساتھ خان آف قلات کے باڈی گارڈدستے کی تلواروں کے سائے سے گزرتے نظر آتے ہیں۔ مَیں (مصنف) نے یہ تصویر بھٹو صاحب کی ذاتی البم میں خود دیکھی تھی۔ شادی کے وقت خورشید بیگم کی عمر تقریباً اٹھارہ برس تھی۔ مستقبل میں یہ خاتون سر شاہنواز بھٹو کے تین بچوں (منّا، بینظیر اور سب سے چھوٹے بیٹے ذوالفقار علی بھٹو) کی ماں بننے والی تھیں۔''(صفحہ 113)
یہ ہے جناب بھٹو کی والدہ محترمہ کی اصل کہانی۔ اِس میں کوئی مبالغہ ہے نہ کوئی داستان طرازی۔ ایک سیدھا سادا واقعہ۔میرے سامنے پاکستان میں دائیں بازو کی صحافت کرنے والے کئی ایسے جرائد پڑے ہیںجنہوں نے تواتر سے بھٹو صاحب کی کردار کشی میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ شدید تعصبات سے مغلوب ہو کر بھٹو کو ہدف بناتے ہُوئے وہ ہر قسم کی اخلاقی اقدار، مشرقی روایات اور اسلامی احکامات دانستہ بھول گئے۔ صد افسوس۔یہاں وطنِ عزیز کے کئی معروف سیاستدانوں، سفارتکاروں اور کھلاڑیوں کے نام گنوائے جا سکتے ہیں جو الزامات کی زد میں آئے۔
بات یہ ہے کہ جن سیاستدانوں اور اخبار نویسوں نے بھٹو صاحب کو تہمت کی باڑ پر رکھا، اُنہوں نے کبھی نہ اپنے سیاسی پیروکاروں سے جھوٹ بولنے پر معافی مانگی اور نہ ہی اپنے پڑھنے والوں سے تہمت تراشی پر معذرت میں ایک جملہ ہی شایع کیا۔ دنیا میں تو یہ بوجوہ بچ گئے لیکن اب ان سب لوگوں کا معاملہ اللہ کی عدالت میں ہے جہاں یقینی طور پر بہتان لگانے کی سزا ملنے والی ہے۔بہرحال پاکستان کی سیاست کو اب میچور ہو جانا چاہیے اور الزام تراشی کی سیاست ترک کر کے اصولی طرز سیاست کی راہ اپنانی چاہیے۔