شام پر امریکی حملہ
شام کے شمال مغربی شہر خان شیخون میں کیمیائی ہتھیار حکومت شام نے استعمال کیے
پولینڈ کی جارحیت کا بہانہ بنا کر جرمنی نے پہلی عالمی جنگ شروع کی، پھر جرمنی پر پہلی عالمی جنگ کے معاہدات پر عمل کرنے کی خلاف ورزی کی بنیاد پر حملہ ہوا۔ اسی طرح ٹرمپ نے یونی پولر کے زعم میں شام پر یکطرفہ حملہ کردیا۔
جواز یہ بتایا گیا کہ شام کے شمال مغربی شہر خان شیخون میں کیمیائی ہتھیار حکومت شام نے استعمال کیے۔ ہاں اس کا ایک بہت ہی مختصر ثبوت موجود ہے کہ خان شیخون میں کیمیائی ہتھیار استعمال ہوئے، مگر یہ نہیں معلوم کہ کس نے کیے؟ حقیقت یہ ہے کہ ادلیب کے پاس خان شیخون کا شہر القاعدہ کی شاخ ''حیات تحریک الشام'' کے زیر تسلط ہے اور یہ علاقہ انتہاپسندوں کے مضبوط کنٹرول میں ہے۔ ہر چند کہ اس علاقے پر اسد حکومت حملہ کرنے کی مکمل بساط رکھتی ہے، مگر یہاں کیمیائی ہتھیار استعمال کا جواز نہیں۔
شام کی اسد حکومت نے امریکا کی جانب سے کیمیائی حملے کا دعویٰ سو فیصد جھوٹ قرار دیا ہے۔ اس خانہ جنگی میں روس کی دست گیری ہے۔ دراصل چند دنوں میں شام کی خانہ جنگی پر امن مذاکرات ہونے تھے۔ ٹرمپ انتظامیہ کے نمائندے کا یہ موقف تھا کہ شام میں امن کی بحالی اور اسلامی گروہ سے مذاکرات کی کامیابی صرف اسد حکومت کی قوت ہی کرسکتی ہے، جب کہ امریکا کا دوسرا حکمران طبقہ شام کے حالات سے، خاص کر روس اور شام کی قربت سے پریشان تھا۔
اس دھڑے کی حمایت سعودی عرب کرتا ہے، اس لیے کہ روس اور ایران اس خطے میں ان کے لیے براہ راست دھمکی کے مترادف ہیں۔ یہ دھڑا شام میں نسبتاً کمزور ہے، جب سے دسمبر 2016 سے الیپو پر ازسرنو قبضہ ہوا ہے اور حما شہر کی جانب حکومت کی پیش قدمی ہوئی ہے۔ امریکی سی آئی اے گروپ کو شکست سے دوچار ہونا پڑرہا ہے۔
دسمبر کی شکست کے بعد ملک گیر بنیادوں پر یہ گروپس مذاکرات پر آمادہ ہوگئے تھے۔ جب یہ صورتحال بنی ہے تو پھر اسد حکومت کی جانب سے کیمیائی ہتھیار کا استعمال نہ سمجھ میں آنے والی بات ہے۔ علاوہ ازیں کسی ثبوت کے بغیر امریکا کی جانب سے شام پر حملہ صاف سمجھ میں آتا ہے۔ مگر امریکی سامراج پروپیگنڈا کے ذریعے عوام اور دنیا کو گمراہ کرنے کی کوشش میں ہے۔
ٹھیک اسی طرح کا امن سمجھوتہ افغانستان پر کرنے کے مقصد سے روس میں بارہ ملکوں افغانستان، ازبکستان، تاجکستان، کرغستان، ترکی، آذربائیجان، پاکستان، ہندوستان اور ایران کا ہورہا تھا کہ امریکا نے ننگرہار میں سب سے بڑا غیر جوہری بم جی بی یو 43 گرایا، انتہائی وزنی بم کو ایم سی 130 جہاز کے ذریعے گرایا گیا، اس بم میں 21 ہزار 600 پاؤنڈ دھماکا خیز مواد موجود تھا۔ امریکی سیکیورٹی ذرایع کے مطابق اس بم کو عراق جنگ کے دوران بنایا گیا تھا۔
کیمیائی حملہ ایک انسانیت سوز عمل ہے تو پھر اس خطے میں لاکھوں بچوں، عورتوں، ضعیفوں اور معصوم لوگوں کو تلواروں، بندوقوں، بموں، راکٹوں اور اقتصادی پابندیوں سے قتل کرنا کیا جائز ہے؟ روس اور شام کی جانب سے الیپو پر حملے کی سامراجی مذمت تو کر رہے ہیں، لیکن موصل میں امریکی حملے پر سب خاموش ہیں۔ یمن میں ایک کروڑ تیس لاکھ مرد و زن اور بچوں کو بھوکا رکھ کر موت کے منہ میں لاکھڑا کردیا ہے۔
برطانوی اور امریکی کمپنیوں سے خریدے گئے اسلحوں سے یمن کے اسپتالوں اور اسکولوں پر بلاناغہ بمباری کی جارہی ہے۔ امریکا اور برطانیہ سے سعودی عرب کلسٹر بم خرید رہا ہے۔ عراق میں مہلک ہتھیاروں کے ذخیرے کے شبہ میں امریکا نے عراق پر حملہ کیا، لاکھوں انسان مارے گئے اور پھر تسلیم کیا گیا کہ غلط اطلاع ملی تھی۔ نوبل انعام یافتہ سائنس دان کی جانب سے یہ اعلان ہوا کہ امریکا بلاجواز عراق میں لاکھوں انسانوں کا قتل کیا۔
عراق پر امریکی اقتصادی پابندیوں کی وجہ سے 17 لاکھ انسان متاثر ہوئے۔ 1990 تک 30 لاکھ عراقی قتل کیے گئے۔ عراق کے دونوں جنگوں میں کیا یورینیم استعمال نہیں ہوئے؟ 2004 سے سفید فاسفورس بم فلوجہ میں استعمال ہوئے۔ آج بھی جس کی وجہ سے معذور بچے پیدا ہو رہے ہیں۔ 1996 میں جب امریکی اقتصادی پابندی سے پانچ لاکھ لوگ مارے گئے، جس پر میڈ لائن البرائٹ نے جواب میں کہا کہ ''ایسے کاموں میں چھوٹی قیمت تو چکانی پڑتی ہے''۔
شامی خانہ جنگی میں امریکا کے اتحادی ترکی، اردن اور سعودی عرب نے انقلابی تحریک کو اغوا کیا اور بلاواسطہ یا بالواسطہ طور پر القاعدہ اور ان کے اتحادیوں کی مدد کی۔ ڈونلڈ ٹرمپ کو یہ نہیں معلوم کہ کس نے کیمیائی بم کا استعمال کیا، مگر یہ معلوم ہے کہ ہم القاعدہ کی حمایت کررہے ہیں، جب کہ حملے کے چند دنوں قبل ٹرمپ نے کہا تھا کہ ''ہمیں شام کے مسئلے کا حل روس اور شام سے مل کر ہی طے کرنا ہے''۔ اب اچانک 180 ڈگری کی قلابازی کھانا سمجھ میں نہیں آتی ہے۔
امریکا کے چھوٹے سے مفاد کے لیے روس اور ایران اتحاد تباہ کرکے شام کے عو ام کو امن سمجھوتے سے دور رکھ کر وہاں کے عوام کو بھوکا مارنے کے سوا اور کچھ نہیں۔ اس طرح کی سامراجی مداخلت لیبیا میں بھی کی گئی، اس سے اب دنیا کے عوام کو سمجھ جانا چاہیے کہ امریکا اور روس کا یہ جھگڑا کوئی عوامی مفادات کے لیے نہیں بلکہ انتہائی مذموم مقاصد کے حصول کے لیے روس، اسد حکمران ٹولہ اور ایرانی ملاؤں سے اپنے سامراجی اور محدود مفادات کے لیے یکجا ہوئے ہیں۔ ان کے مفادات کی تکمیل پر یہ خود بکھر جائیں گے۔
یہ سب مشرق وسطیٰ میں انقلابی تحریک سے خائف ہیں۔ یہ بحران، عالمی سامراجی بحران کا پیش خیمہ ہے۔ ان تمام تر سازشوں، رکاوٹوں اور مداخلتوں کے باوجود گزشتہ برس مہنگائی اور بے روزگاری کے خلاف تیونس میں لاکھوں کی ریلی نکلی، گزشتہ ماہ 2017 میں یمن میں سعودی اتحادی کی جانب سے یمن پر بمباری کے نتیجے میں معصوم انسانوں کے قتل پر لاکھوں عوام کا سمندر سڑکوں پہ امڈ آیا۔ دو ماہ قبل کابل میں بے روزگاری، لاعلاجی اور مہنگائی کے خلاف ہزاروں لوگوں نے مظاہرے کیے۔
2016 میں عراق میں بھی عوام نے اپنے مسائل پر زبردست احتجاجی مظاہرے کیے۔ درحقیقت ان عوام کے حقیقی انقلابی ابھار کو پس پشت ڈالنے کے لیے مشرق وسطیٰ میں عالمی سامراجی قوتوں اور ان کے مقامی آلۂ کار ہوا دے رہے ہیں۔ ہر چند کہ ٹرمپ کے شام پر حملے کے خلاف امریکا کے بیس شہروں میں لاکھوں لوگوں نے جنگ مخالف ریلی نکالی، لندن، برطانیہ میں بھی جنگ مخالف جلوس نکلے، جس میں برطانیہ کی حزب اختلاف کی لیبر پارٹی کے سوشلسٹ رہنما جیمری کاربون نے بھی شرکت کی۔
کچھ لوگوں کو کچھ عرصے کے لیے نان ایشوز پر بے وقوف تو بنایا جاسکتا ہے لیکن ہمیشہ کے لیے نہیں۔ عوام، دنیا بھر میں ایک غیر طبقاتی کمیونسٹ، پنچایتی یا امداد باہمی کے سماج کے قیام کے لیے لڑ رہے ہیں۔ اس لیے کہ سب مل کر پیداوار کریں گے اور مل کر کھائیں گے۔ پھر ایک آسمان تلے ایک ہی خاندان ہوگا، کوئی طبقہ ہوگا اور نہ کوئی ریاست۔