جوش اور فیض کی فلمی شاعری حصہ اوّل

جوش صاحب کا گھریلو نام شبیر احمد خان تھا اور جوش انھوں نے خود اپنا تخلص رکھا تھا۔


یونس ہمدم April 29, 2017
[email protected]

شعر و ادب کی دنیا میں جب کبھی شباب، شراب اور انقلاب کا ایک ساتھ تذکرہ ہوتا ہے تو ایک ہی دبنگ نام ابھر کر آتا ہے وہ ہے جوش ملیح آبادی کا۔ وہ شاعر شباب اور شاعر انقلاب مشہور تھے۔ جوش ملیح آبادی ہندوستان کے مردم خیز اودھ کے علاقے ملیح آباد میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا آبا و اجداد کا ویسے تو پیشہ سپاہ گری تھا مگر شعر و ادب سے بھی تعلق رہا تھا۔ ان کے دادا فقیر محمد خان اپنے دور کے نامور شاعر استاد داغ کے شاگردوں میں شامل تھے ان کے والد نواب محمد احمد خان کو بھی شعر و ادب سے بڑا شغف تھا۔

جوش صاحب کا گھریلو نام شبیر احمد خان تھا اور جوش انھوں نے خود اپنا تخلص رکھا تھا۔ شاعری کا شوق خاندانی تھا اور جوش نے کم عمری ہی سے شعر کہنے شروع کردیتے تھے۔ جب یہ اٹھارہ انیس سال کے تھے تو ان کا پہلا مجموعہ کلام ''روحِ ادب'' کے نام سے منظر عام پر آگیا تھا۔ اور سارے ہندوستان میں ان کے شعری مجموعے کی دھوم مچ گئی تھی۔ حسن و عشق، شراب اور شباب ان کی شاعری اور زندگی کا حصہ تھے۔ ان کی بیشتر نظموں میں فصاحت اور بلاغت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ الفاظ کو یہ اس طرح استعمال کرتے تھے کہ جیسے الفاظ ان کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑے ہوتے ہیں۔

ان کی شاعری میں انقلاب کا آہنگ نمایاں تھا اور جب مشاعروں کی محفلوں میں شریک ہوتے تھے تو جوش و جلال سارے اسٹیج کو اپنی لپیٹ میں لے لیا کرتا تھا۔ اور یہ انداز آخر تک جوش صاحب کی شخصیت کا خاصا رہا تھا۔ دہلی، لکھنو اور حیدرآباد دکن تک ان کی شاعری کے چرچے عام تھے۔ دہلی میں انھوں نے اپنا ایک ذاتی رسالہ ''کلیم'' کے نام سے نکالا اور پھر دہلی ہی کے قیام کے دوران دہلی سرکار کی طرف سے شایع کیے جانے والے رسالے ''آج کل'' کی ادارت کے بھی کافی عرصے تک فرائض ادا کرتے رہے۔

ادبی محفلوں میں ان کی شخصیت کا رنگ سب سے جدا اور منفرد رہا کرتا تھا۔ دبستان ادب سے لے کر سیاست کے ایوانوں تک جوش ملیح آبادی کے قدردان موجود تھے ۔ جوش ملیح آبادی کی ہندوستان کے نامور سیاستداں پنڈت جواہر لال نہرو سے بڑی دوستی رہی تھی اور دونوں ایک طویل عرصے تک ایک دوسرے کے ساتھ شیر و شکر رہے۔ پنڈت نہرو اردو زبان بولتے تھے اور اردو شاعری سے بڑا شغف رکھتے تھے اور جوش کی شاعری کے شیدائی تھے۔

میں اس کالم میں جوش صاحب کی ادبی شخصیت پر تذکرہ نہیں کروں گا کہ جوش جیسی شخصیت پر بے شمار کتابیں اور ہزاروں مضامین لکھے جاچکے ہیں۔ میں جوش صاحب کی صرف فلمی شاعری اور فلمی گیتوں کو لے کر آگے بڑھوں گا۔

ابھی ہندوستان کا بٹوارہ نہیں ہوا تھا، ہندوستان میں بمبئی، کلکتہ اور پونا میں فلم انڈسٹری قائم تھی اور جوش کی شاعری بمبئی سے پونا تک اپنے قدردان پیدا کرچکی تھی پونا میں ان دنوں شالیمار پکچرز کے نام سے ایک مشہور فلمساز ادارہ تھا جس کے روح رواں ڈبلیو زیڈ احمد تھے، جو جوش کی شاعری کے دیوانے تھے انھوں نے ہی اصرار کرکے جوش صاحب کو فلمی دنیا کی طرف راغب کیا اور بطور خاص پونا بلوایا اور اپنی فلم ''من کی جیت'' کے گیت لکھنے کی فرمائش کی، جسے جوش صاحب نے رد نہیں کیا اور وہ فلمی چمک دمک میں اپنا حصہ ڈالنے کے لیے پونا پہنچ گئے تھے۔ فلم ''من کی جیت'' کے موسیقار ایس۔کے پال کے ساتھ انھوں نے فلم کے لیے کئی خوبصورت گیت لکھے۔ سب سے پہلے جو فلمی گیت لکھا اس کے بول تھے:

نگری مری کب یوں ہی برباد رہے گی
دنیا ہی دنیا ہے تو کیا یاد رہے گی

اس گیت کو ان دنوں بڑی شہرت حاصل ہوئی۔ اسی فلم کا ایک اور گیت بھی بڑا مشہور ہوا تھا۔ جس کے بول تھے۔ میرے جوبن وا کا دیکھو ابھار۔ فلم میں یہ گیت بہت پسند کیا گیا تھا مگر چند دنوں بعد ہی اس گیت کو فحش گیت قرار دے کر ریڈیو اسٹیشنوں سے نشر کرنے سے روک دیا گیا تھا۔ اس پابندی نے مذکورہ گیت کو مزید شہرت بخشی تھی اور فلم ''من کی جیت'' کو بھی بڑی کامیابی ملی تھی۔ حالانکہ اس گیت کے انترے بڑے خوبصورت تھے مگر مکھڑے کی وجہ سے گیت پر پابندی لگائی گئی تھی۔ پھر جوش ملیح آباد پونا سے ممبئی آگئے۔ممبئی میں اس دور کے موسیقار دھنوں پر شاعروں سے گیت لکھواتے تھے اور یہ بات جوش صاحب کے لیے قابل قبول نہ تھی۔

انھوں نے اپنی مرضی کے مطابق ممبئی کی دو فلموں ''ایک رات'' اور ''غلامی'' کے لیے گیت لکھے مگر وہ دونوں فلمیں بری طرح فلاپ ہوگئی تھیں اور جوش صاحب بھی ممبئی کی فلمی دنیا سے کچھ متنفر سے ہوگئے تھے اور پھر وہ واپس دہلی آگئے اور صرف شعر و ادب سے ہی وابستہ رہے اسی دوران ہندوستان تقسیم ہوگیا۔ پاکستان عالم وجود میں آگیا جوش صاحب کو ہندوستان کا متعصب چہرہ جب کھل کر نظر آنے لگا تو وہ پنڈت نہرو کے روکنے کے باوجود ہندوستان میں مزید رہنے پر تیار نہ ہوئے اور پاکستان آگئے اور کراچی میں آکر سکونت اختیار کرلی اور اپنے شب و روز شعر و ادب سے وابستہ کر لیے۔

اسی زمانے میں جوش صاحب نے اپنی زندگی کے دلچسپ واقعات پر ایک دھماکہ خیز کتاب بھی لکھی تھی ''یادوں کی بارات'' کے نام سے جسے جتنی پذیرائی حاصل ہوئی اتنی اس کتاب پر تنقید بھی کی گئی۔ مگر جوش صاحب نے جو لکھ دیا وہ لکھ دیا تھا۔ وہ اپنی تحریر کے ایک ایک لفظ کو پسند کرتے تھے اور اس کتاب کو بھی نثری دنیا میں ایک گراں قدر اضافہ قرار دیا گیا تھا۔ اب میں آتا ہوں فلم ''آگ کا دریا'' کی طرف جس کے فلمساز و ہدایت کار ہمایوں مرزا تھے۔

ہمایوں مرزا کی جوش صاحب سے بڑی بے تکلفی تھی۔ ایک دن انھوں نے باتوں ہی باتوں میں جوش صاحب سے کہا کہ وہ جلد ہی ایک فلم شروع کر رہے ہیں۔ ان کی خواہش ہے کہ اس فلم کے گیت جوش صاحب کی ذہنی کاوشوں کا نچوڑ ہوں۔ جوش صاحب بمبئی کی فلمی دنیا کا تلخ تجربہ رکھتے تھے انھوں نے پہلی ملاقات میں تو صاف انکار کردیا تھا، مگر ہمایوں مرزا بھی ایک ضدی آدمی تھے اور جوش صاحب بھی مست مولا قسم کے انسان تھے۔ ضد کا مادہ دونوں میں برابر کا تھا۔

ہمایوں مرزا نے متواتر کئی ملاقاتوں کے بعد جوش صاحب کو اس بات پر راضی کرلیا کہ وہ اپنی مرضی سے پہلے گیت لکھیں گے اور پھر ان کے گیتوں کو بغیر کسی کانٹ چھانٹ کے موسیقار دھنوں کا لباس پہنائے گا لیکن گیت فلم کے لیے آپ ہی لکھیں گے اور آپ کا میری فلم پر یہ ایک احسان ہوگا۔

جوش مرزا صاحب کی محبت کے آگے کچھ نہ کہہ سکے اور ایک طویل عرصے کے بعد فلم ''آگ کا دریا'' کے لیے گیت لکھنے پر راضی ہوگئے۔ فلم کے موسیقار غلام نبی عبداللطیف تھے، کئی دنوں تک وہ جوش صاحب کی خدمت میں حاضر ہوتے رہے۔ مرزا صاحب نے فلم کی سچویشن جوش صاحب کے گوش گزار کردی تھی۔ چند دنوں کی محنت کے بعد موسیقار غلام نبی عبداللطیف کو جوش صاحب نے ایک گیت لکھ کردیا۔ جس کے بول تھے:

ہوا سے موتی برس رہے ہیں
فضا ترانے سنا رہی ہے

جگر جگر ہے تمام صحرا
کلی کلی جگمگا رہی ہے

جہاں کی ہر شام ہے ایک دیوی
جہاں کی ہر صبح ایک رانی

جہاں بدلتا ہے رنگ دھانی
ادھر مڑی ہے مری جوانی

ہر ایک ساغر کھنک رہا ہے
ہر ایک شے گنگنا رہی ہے

مرے مچلتے ہوئے لہو میں
خوشی کا دریا اُبل رہا ہے

کلی مرے دل کی کھل رہی ہے
بتاؤ پھولوں یہ بات کیا ہے

کہ کون میری طرف بڑھا ہے
یہ کس کی آواز آرہی ہے

ہوا سے موتی برس رہے ہیں
فضا ترانے سنا رہی ہے

یہ گیت فلم کا ہائی لائٹ تھا۔ جتنی دلکش شاعری تھی اتنی ہی دل نشیں دھن بھی بنائی گئی تھی اور اس گیت کو اداکارہ شمیم آرا پر عکس بند کیا گیا تھا۔ جس نے اپنی اداکاری کے فن سے اس گیت کے حسن میں مزید چار چاند لگا دیے تھے۔ مذکورہ گیت شاعری، موسیقی اور میڈم نور جہاں کی مدھر آواز کا نادر نمونہ تھا اور ملکہ ترنم نور جہاں کی آواز نے بھی اس گیت کو امر بنادیا تھا۔ یہاں موسیقار غلام نبی عبداللطیف کی جوڑی کی بھی جتنی تعریف کی جائے کم ہے ایسے گیت اور ایسی دھنیں فلمی دنیا کو کبھی کبھی ہی نصیب ہوئی ہیں۔

(جاری ہے)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں