’یکم مئی کی چھٹی‘

کچن میں گھنٹوں تک کھڑی ضعیف ماسی رحمت کے پیر کانپنے لگے تھے مگر کام پورا کرنا تھا کیونکہ شام کو بیگم صاحبہ کی دعوت تھی


خوشنود زہرا May 01, 2017
کھانوں کی خوشبو سے مہکتا گھر، ہنستے بستے چہرے بہت شاندار ماحول تھا۔ جبکہ دن بھر کام کرکے تھکن سے چور ملازمین اپنی بھوک چھپائے دور خاموش کھڑے تھے۔ فوٹو: فائل

نسرین جلدی جلدی ہاتھ چلاؤ، دیکھو کتنے برتن ابھی پڑے ہیں اور جھاڑو پوچا بھی کرنا ہے، سارا گھر گندا پڑا ہے، شام میں دعوت ہے اور مجھے بہت کام کرنا ہے، پھر شام کے برتن بھی ہوں گے، مسز علیم کے گھر کام کرکے شام میں ایک بار چکر اور لگالینا، مسز خان زور و شور سے بولتی اور تازہ فروٹ جوس پی کر حلق کو تر بھی کرتی جارہی تھیں۔

پر میڈیم جی! میرا شام میں دوبارہ آنا مشکل ہے، جاتے جاتے دیر ہوجائے گی اور پھر واپس جاتے ہوئے بس کا ملنا بھی مشکل ہوتا ہے، ویسے بھی میرا گھر والا کہتا ہے کہ جتنا کام کرنا ہے صبح میں کرلیا کرو، شام کو اضافی کام نہیں، پھر گھر کے کام بھی دیکھنے ہوتے ہیں۔

اس جواب نے مسز خان کے لئے گویا تلوں میں لگی سر میں بُجھی والا کام کیا، نسرین، اپنے میاں کو سمجھا دینا کہ یہ اضافی کام نہیں، اِسی کے پیسے دیتی ہوں، اب بھی تو کام کم ہے، مسسز خان نے ناشتے کے نام پر جمع شدہ گندے برتنوں کا ڈھیر نظر انداز کرتے ہوئے کہا۔ اگر تم اِس کے بدلے رات کو آکر کام کر جاؤ گی تو کیا احسان ہے؟ ڈرائیور سے گھر بھجوادوں گی، سمجھانا اپنے شوہر کو کہ مجھ سے خلق خدا سے محبت کرنے والے ہمدرد کم ہی ہوتے ہیں۔ اُس دن جو تم نہیں آئیں کیا میں نے تمہاری تنخواہ کاٹی؟ بتاؤ؟ نہیں نہ؟ لیکن وہ تمہیں یاد تھوڑی ہوگا۔

جی اُس دن میڈیم جی میں بیمار تھی، ہمت نہیں تھی اُٹھنے کی، نسرین نے سر جھکا کر کہا۔

تو بی بی یہی کہہ رہی ہوں میں، احسان مانو کہ میں بیماری میں اتنا خیال کرلیتی ہوں، یہ جو تم دعوت میں آکر تھوڑا میرا کام کر جاؤ گی تو گِھس نہیں جاؤ گی۔ جاؤ ڈسٹنگ اچھی طرح کرنا شام میں مہمانوں نے ڈرائنگ روم میں بیٹھنا ہے۔

رشید سے کہو گاڑی نکالے جلدی، مجھے مارکیٹ تک جانا ہے۔ انہوں نے لان میں کام کرتے مالی کو حکم دیا، جی بیگم صاحبہ! مالی نے کُھرپی سائیڈ پر رکھتے ہوئے کوارٹر کی جانب قدم بڑھائے۔ میں دو دن کی چھٹی پر جارہا ہوں حیدر آباد، صاحب نے پچھلے اتوار والے دن بھی بلایا تھا کہا تھا کہ دو دن ساتھ چھٹی کرلینا، ڈرائیور رشید نے مالی کو جواب دیا۔

جاؤ جاکر خود ہی بتادو میں تو بیگم صاحبہ کا غصہ نہیں سہہ سکتا مالی نے کانوں کو ہاتھ لگایا۔

کیا کیا، مسز خان تو رشید کی بات سنتے ہی بھڑک اُٹھیں، کیسے دے سکتے صاحب تمہیں چھٹی؟ کوئی چھٹی نہیں جاؤ جاکر گاڑی نکالو مجھے ابھی جانا ہے خریداری کیلئے،

مگر بیگم صاحبہ وہ شادی، رشید منمنیایا۔

بھاڑ میں گئی شادی پہلے نوکری بچاؤ گے یا شادی میں جاؤ گے؟ جاؤ گاڑی نکالو فٹافٹ مسز خان نے رعونت سے جواب دیا۔

جی بیگم صاحبہ، رشید نے بجھے لہجے میں جواب دیا، اور پھر 2 گھنٹے تک شاپنگ سینٹر اور سپر اسٹور میں لگا کر لدی پھندی بیگم صاحبہ کو دیکھ کر ہی رشید کو غصہ آرہا تھا مگر اپنی بے بسی اور مجبوری پر۔

سامان گھر کے اندر تک پہنچا کر رشید کوارٹر کی جانب روانہ ہوا تو بس کی روانگی کا ٹائم تو نکل چکا تھا سو کڑھ کر چادر تان کر لیٹ گیا، اُسے رہ رہ کر بڑی بیگم صاحبہ کے چھوٹے پن غصہ آرہا تھا۔

اُدھر بیگم صاحبہ کچن میں شیف اور ماسی رحمت کے سر پر سوار تھیں۔ کباب، چکن ہانڈی، بیف نہاری، زعفرانی پلاؤ اور کھیر جبکہ شیف سنگا پورین رائس، اسٹیم فش، چیز پاسٹا، فروٹ ڈیزرٹ، مایو گارلک سلاد تھما کر وہ خود صوفے پر ڈھے گئیں۔ بھئی تھک گئی میں تو کچھ دیر آرام کروں گی ورنہ شام کو تھکن ہوگی، کمرے میں جا کر انہوں نے نے اے سی آن کیا اور لمبی تان کر سو گئیں۔

کچن میں گھنٹوں تک کھڑی ضعیف ماسی رحمت کے پیر اب کانپنے لگے تھے لیکن کام پورا کرنا تھا کیونکہ شام کو بیگم صاحبہ کی دعوت تھی اور اگر کچھ کمی بیشی رہ گئی تو انجام اچھا نہیں ہوگا۔

شام ڈھلتے ہی مسز خان بوتیک سے خریدا گیا ہزاروں مالیت کا قیمتی سوٹ پہنے، خوشبوؤں میں بسی، سجی سنوری مہمانوں کے استقبال کو حاضر تھیں۔ مہمانوں کی آمد بھی اب شروع ہوگئی تھی، گپیں، ہنسی مذاق، قہقہے کوارٹر میں موجود ڈرائیور کو زہر لگ رہے تھے اور اُس کا مزاج چھٹی کینسل ہونے اور شادی میں شرکت نہ کرنے کی وجہ سے اب تک برہم تھا۔

نسرین کی نظریں بھی گھڑی کی جانب تھیں کہ کب دعوت نمٹے اور وہ فارغ ہوکر اپنے گھر جائے، بھری پُری ٹیبل کو دیکھ کر وہ سوچ رہی تھی کہ نہ جانے گھر والوں نے کیا کھایا ہوگا، پکانا تو آتا نہیں، بیچارے رحیم نے باہر سے لاکر ہی کچھ کھایا ہوگا اور اُس کی دو دن کی بچت اِس ہوٹل بازی میں پوری ہوگئی ہوگی۔

ماسی رحمت کو مسلسل کام کرنے کی وجہ سے بخار چڑھ چکا تھا اور وہ بھی انتظار میں تھی کہ کھانا کھایا جائے تو وہ سرونٹ کوارٹر میں جاکر آرام کرے، بالآخر اُن ہی قہقہوں رونق کے درمیان پُر لطف کھانے کا دور چلا، کھانوں کی خوشبو سے مہکتا گھر، ہنستے بستے چہرے بہت شاندار ماحول تھا۔ جبکہ دن بھر کام کرکے تھکن سے چور ملازمین اپنی بھوک چھپائے دور خاموش کھڑے تھے۔

دعوت کے بعد جو کھانا بچے وہ تم سب لے جانا، مسسز خان نے گویا حاتم طائی کی قبر پر لات ماری، اچانک ایک نوجوان لڑکی نے آکر مسز خان کو مخاطب کیا، اچھا آنٹی ہم چلتے ہیں 12 بج گئے اور پتہ نہیں چلا، بہت مزیدار کھانا تھا، بہت مزہ آیا، آپ نے تو آج کی چھٹی کا لطف دوبالا کردیا۔

مسز خان نے مسکراتے ہوئے لڑکی کا گال تھپتھپاتے ہوئے کہا، ہاں مجھے خیال رہتا ہے کہ سب مل کر بیٹھں، انجوائے کریں، مجھے ایک ہفتے پہلے سے یاد تھا کہ پہلی مئی کو چھٹی آرہی ہے ''لیبر ڈے'' کی، سب گھر پر ہوں اِس لئے آج ڈنر رکھا۔

جبکہ دوسری جانب بھاگ بھاگ کر کام نمٹاتے نسرین، ماسی رحمت، شیف اور اُداس پڑا ڈرائیور اِس بات سے بے خبر تھے کہ آج چھٹی کیوں تھی؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔


اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں