ہیرو اونوڈا دوسری جنگ عظیم کا جاپانی جنگجو

جس نے ہتھیار ڈالنے سے انکار کیا اور 30سال تک فلپائن کے جنگل میں گوریلا جنگ لڑی


Mirza Zafar Baig April 30, 2017
جس نے ہتھیار ڈالنے سے انکار کیا اور 30سال تک فلپائن کے جنگل میں گوریلا جنگ لڑی ۔ فوٹو :فائل

Hiroo Onoda وہ آخری جاپانی شاہی فوجی تھا جو دوسری جنگ عظیم کے ختم ہونے کے بعد سب سے آخر میں اپنی پناہ گاہ سے باہر نکلا تھا۔ اس نے 1974میں فلپائن کے Lubang نامی جزیرے پر ہتھیار ڈالے تھے۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ اتنا طویل عرصہ گزرنے کے بعد بھیہیرو اونوڈا کی شاہی فوجی وردی، ٹوپی اور تلوار بالکل صحیح سلامت تھی۔ اس نے پوری دنیا میں اپنے فوجی کمانڈر کا حکم ماننے کی ایسی مثال قائم کی جو آج تک کبھی دوبارہ دکھائی نہیں دی۔

ہیرو اونوڈا نے پوری دنیا میں اس حوالے سے بڑی شہرت پائی کہ وہ دوسری جنگ عظیم میں جاپانی کی شاہی فوج میں ملازم تھا۔ وہ ایک ایسا نڈر اور بہادر نوجوان تھا جسے شروع سے ہی یہ سکھایا گیا تھا کہ چاہے کچھ ہوجائے، نہ کبھی اپنے بادشاہ کی بدنامی کا سبب بننا اور نہ کبھی اپنے ملک و قوم کو دنیا میں رسوا کرنا۔ یہ نوجوان ہر طرح کی فوجی اور اخلاقی تربیت سے آراستہ ہوکر مرد میدان بنا اور اس نے اپنے وطن کے لیے بڑی عزت کمائی۔ دوسری جنگ عظیم میں جاپان نے جرمنی کا ساتھ دیا، لیکن شکست اس کا مقدر بنی۔

جب جاپان کو اس جنگ میں ہار کا سامنا کرنا پڑا تو اس کی افواج نے ہتھیار ڈال دیے، مگر یہ جواں مردہیرو اونوڈا اپنی جگہ ڈٹ گیا اور اس نے ہتھیار ڈالنے سے انکار کردیا۔ جب یہ جنگ ختم ہوئی تو اس وقت ہیرو اونوڈا فلپائن کے ایک جزیرے پر موجود تھا اور وہاں اپنے کمانڈر کے حکم کی تعمیل کررہا تھا۔ جنگ ختم ہوچکی تھی، ساری دنیا میں اس کا اعلان ہوچکا تھا، مگر ہیرو اونوڈا کو نہ تو اس کا علم تھا اور نہ ہی وہ اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے لیے تیار ہورہا تھا۔

اس نوجوان کے عزم اور ہمت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جنگ ختم ہونے کے بعد بھی وہ لگ بھگ 30 سال تک فلپائن کے ایک جنگل میں چھپا رہا اور وہیں سے اس نے اپنی گوریلا جنگ جاری رکھی۔ اس کے پاس جو بھی ہتھیار تھے اور جو سامان موجود تھا، اسی کی مدد سے اس نے چھاپا مار جنگ جاری رکھی۔ اس کے ساتھ اس کے ساتھ جو کچھ ہوا، وہ تو ایک طویل کہانی ہے، مگر بعد میں معلوم ہوا کہ ہیرو اونوڈا، 16جنوری2014کو 91سال کی عمر میں ٹوکیو (جاپان) میں انتقال کرگیا اور اس طرح ایک ایسے جنگجو کی کہانی اپنے اختتام کو پہنچی جس نے پوری زندگی اپنے افسر کے حکم کی تعمیل میں گزار دی تھی۔

اس دوران 1974 ء تک ہیرو اونوڈا فلپائن کے ایک گھنے اور دشوار گزار جنگل میں ساری دنیا سے چھپ کر رہتا رہا، کیوں کہ وہ اس بات پر یقین کرنے کو تیار نہیں تھا کہ جنگ ختم ہوچکی ہے۔ اسے مختلف طریقوں سے یہ بتانے کی کوشش کی گئی کہ اس کے ملک کو شکست ہوچکی ہے اور جاپان نے ہتھیار بھی ڈال دیے ہیں، مگر وہ نہ مانا، وہ اپنی جگہ ڈٹا رہا اور اس نے چھاپا مار جنگ جو کی طرح زندگی گزاردی۔ لیکن آخرکار وہ وقت بھی آیا جب اس نے ہتھیار ڈال دیے اور اس طرح اس نے تاریخ میں ہتھیار ڈالنے والے آخری جاپانی فوجی کی حیثیت سے اپنا نام درج کرالیا۔ وہ ہتھیار کیوں نہیں ڈال رہا تھا، اس کے پیچھے بھی ایک دل چسپ کہانی ہے جو قارئین کے لیے یقینی طور پر دل چسپی کا باعث ہوگی۔

جب 1945ء میں دوسری جنگ عظیم کا آغاز ہوا تو اس کے اس وقت کے جاپانی کمانڈر نے اسے فلپائن کے جنگل میں بھیجنے کے بعد یہ حکم دیا تھا:''تم یہیں رکو اور یہاں آنے والے امریکی فوجیوں کی تمام سرگرمیوں پر نظر رکھو۔ لیکن تمہیں صرف نظر رکھنی ہے، ان پر نہ تو حملہ کرنا ہے اور نہ ہی کسی اور کارروائی میں حصہ لینا ہے، تم صرف ان کا جائزہ لیتے رہو۔''

چناں چہ ہیرو اونوڈا نے اپنے کمانڈر کا حکم ماننے کا عہد کیا اور اس پر اتنی ثابت قدمی کے ساتھ قائم رہا کہ بہادری اور وفاداری کی ایک نئی داستان رقم کردی۔ اس نے اپنے کمانڈر کا حکم ماننے میں اتنی سرگرمی دکھائی کہ اپنی زندگی میں نہ تو اپنی جگہ چھوڑی اور نہ ہی کسی دوسرے کا حکم ماننے کو تیار ہوا، وہ ان 30برسوں کے دوران مسلسل یہی کہتا رہا کہ میں اپنے کمانڈر کی حکم عدولی نہیں کرسکتا۔ مجھے میرے کمانڈر نے یہ جگہ نہ چھوڑنے کا حکم دیا ہے، میں یہاں سے کہیں نہیں جاؤں گا۔ ہاں، اگر میرا کمانڈر خود مجھے یہاں سے ہٹنے کا حکم دے گا تو میں اس کی بات فوراً مان لوں گا، میں صرف اپنے کمانڈر کا حکم ماننے کا پابند ہوں، کسی اور کا نہیں، یہی میری تربیت ہے اور یہی میرا فرض ہے۔

چناں چہ پھر ساری دنیا نے دیکھا کہ اس کے سابق کمانڈر کو جاپان سے اس کے پاس فلپائن کے جنگل میں اس جگہ آنا پڑا جہاں وہ تین عشروں سے چھپا ہوا تھا، بلکہ گوریلا جنگ بھی جاری رکھے ہوئے تھا۔ جب اس کا کمانڈر اس کے سامنے پہنچا اور اس نے خود ہیرو اونوڈا کو ہتھیار ڈالنے کے لیے کہا تو اس نے اپنے کمانڈر کے حکم کی فوری تعمیل کی اور 1974ء میں Lubang کے جزیرے پر قائم فلپائن کی فضائیہ کے اڈے پر فلپائن کے اس وقت کے صدر فرڈی ننڈ مارکوس کے سامنے اپنی فوجی تلوار پیش کرکے ہتھیار ڈالنے کی رسم پوری کردی۔

جب ہیرو اونوڈا نے ہتھیار ڈالے، اس وقت اس نے اپنی 52ویں سال گرہ منائی تھی۔ گویا اس نے اپنی زندگی کی نصف صدی اس جنگل میں گزار دی تھی اور اپنی جگہ سے نہیں ہٹا تھا۔ اس کے بعد مزید کارروائی کے بعد اونوڈا منیلا فلپائن پہنچا اور اس نے پہلی بار ساری دنیا کے سامنے آکر ایک جذباتی پریس کانفرنس سے بھی خطاب کیا۔

اس نے اخباری نامہ نگاروں کے سوالوں کے جواب دیتے ہوئے کہا تھا:''میں اپنے کمانڈر کے علاوہ اور کسی کا حکم نہیں مان سکتا تھا اور مجھے اپنی گوریلا جنگ ہر قیمت پر جاری رکھنی تھی۔ یہی میری تعلیم تھی اور یہی میری تربیت، میں اپنی تربیت سے کیسے منہ موڑ سکتا تھا؟ لیکن جب میرے کمانڈر نے خود میرے پاس آکر مجھ سے ہتھیار ڈالنے کو کہا تو میں نے اس کا حکم مان لیا، کیوں کہ مجھے یہی سکھایا گیا تھا کہ میں اپنے کمانڈر کا حکم مانوں، وہ جو کہیں اس پر عمل کروں۔''

ہیرو اونوڈا کے اس عزم و ہمت اور اس کی مضبوط قوت ارادی نے اسے جاپانی قوم کا ایک ناقابل فراموش ہیرو بنادیا۔ بعد میں اس کی سچی کہانی اور حالات و واقعات پر مشتمل ایک بے مثال کتاب بھی شائع کی گئی اور اس کی زندگی پر ایک تاریخی اور ناقابل بیان فلم بھی بنائی گئی جس نے ناظرین کے دلوں میں خصوصی جگہ بنالی اور بہت پذیرائی حاصل کی تھی۔

ہیرو اونوڈا کو اور اس کے دور کے سبھی بچوں اور نوجوانوں کو اس کے اپنے وطن جاپان میں یہ پڑھایا اور سکھایا جاتا تھا کہ ہر قیمت پر اپنے وطن جاپان اور اپنے جاپانی شہنشاہ کا وفادار رہنا ہے اور کوئی ایسا کام نہیں کرنا جس سے جاپان کی سرزمین یا اس کے شہنشاہ کے وقار کو کوئی نقصان پہنچے۔ جاپان کی شاہی فوج میں ایک اور بات کی تعلیم بھی دی جاتی تھی، وہ یہ کہ کسی بھی صورت میں ہتھیار نہیں ڈالنے، چاہے کچھ بھی ہوجائے، اگر کبھی بہت مشکل صورت حال کا سامنا کرنا پڑے تو زندگی بچانے کے بجائے موت کو گلے لگالیا جائے اور زندگی کے بجائے موت کو ترجیح دی جائے۔

ہیرو اونوڈا اپنے فوجی عہدے کے اعتبار سے ایک لیفٹیننٹ تھا۔ اسے دسمبر 1944میں اپنے اہم فوجی مشن پر فلپائن کے دارالحکومت منیلا کے جنوب مغرب میں واقع جزیرے Lubangبھیجا گیا تھا۔ جہاں اس کے ذمے کچھ اہم عسکری کام لگائے گئے تھے۔ چناں چہ جب اس جزیرے پر امریکی فوج پہنچی تو اس جگہ کی صورت حال ایک دم بدل گئی اور پھر یہ ہوا کہ ہیرو اونوڈا کے زیادہ تر ساتھیوں نے تین ماہ سے بھی قلیل مدت میں ہتھیار ڈال کر خود کو امریکی فوج کے حوالے کردیا تھا، لیکن یہ وہ موقع تھا جب ہیرو اونوڈا اڑ گیا اور اس نے اپنے ساتھیوں کے سمجھانے کے باوجود ہتھیار ڈالنے سے انکار کردیا۔

اس کا کہنا تھا کہ میں ایسی زندگی کے بجائے مرنا پسند کروں گا۔ چناں چہ اس نے اپنے تین فوجی ساتھیوں کے ہمراہ گوریلا جنگ لڑنے کی ٹھانی اور مسلسل جنگل میں چھپے رہتے ہوئے اپنے وطن اور قوم کا نام بلند کرنے کے لیے کوشاں ہوگیا، اس نے جرأت مندانہ چھاپا مار جنگ کے ذریعے عزم و ہمت کا جو مظاہرہ کیا تھا، اس کی دوسری مثال دنیا کی تاریخ میں نہیں مل سکتی۔

ہیرو اونوڈا نے بعد میں اخباری نامہ نگاروں کو یہ بھی بتایا:''یہ وہ مشکل وقت تھا جب ہر جاپانی فوجی اپنے وطن کے لیے مرنے کو تیار تھا، مگر ایک انٹیلی جینس آفیسر کی حیثیت سے میرے لیے حکم تھا کہ میں اپنی جان نہ دوں، بلکہ خود کو بچاتے ہوئے اپنی گوریلا جنگ جاری رکھوں۔ کوشش کروں کہ میں مارا نہ جاؤں۔ اگر میں ایسا نہ کرتا تو میرے لیے یہ بہت شرم اور افسوس کی بات ہوتی۔ میں نے خود کو ہر طرح کے حالات کے لیے تیار کرلیا تھا۔ اس راستے میں جو مشکل بھی آتی، میں برداشت کرنے کو تیار تھا۔''

چناں چہ جب وہ متعدد لوگوں کے سمجھانے بجھانے پر بھی ہتھیار ڈالنے کو تیار نہیں ہوا تو پھر یہ فیصلہ کیا گیا کہ اسے تلاش کرکے محفوظ مقام پر منتقل کرنے کی کوشش کی جائے، اس سلسلے میں بارہا کوششیں کی گئیں، مگر وہ ہاتھ نہ آیا۔ پھر یہ ترکیب بھی آزمائی گئی کہ اس دوران اس کے خاندان کے ارکان نے لاؤڈ اسپیکرز پر اس سے ہتھیار ڈالنے کی اپیلیں کیں، اس کے لیے ہوائی جہاز کے ذریعے جنگل میں پمفلٹ اور ہینڈ بل بھی گرائے گئے جن میں اس سے ہتھیار ڈالنے کی درخواست کی گئی تھی، مگر اونوڈا نہ مانا اور اس نے کسی بھی قیمت پر ہتھیار نہ ڈالے۔ اپنی گوریلا جنگ کے دوران ہیرو اونوڈا کو اپنا پیٹ بھرنے کے لیے بڑی جدوجہد کرنی پڑی۔

ظاہر ہے وہ بھوکا تو نہیں رہ سکتا تھا، اسے کچھ نہ کچھ تو کھانا تھا، چناں چہ اس کا انتظام کرنے کے لیے اونوڈا نے متعدد بار قریبی گاؤں کے گھروں سے چاول اور کیلے چوری کرکے اپنے پیٹ کی آگ بجھائی۔ پھر تو خوراک کی چوری کا یہ سلسلہ چل نکلا۔ ممکن ہے کہ گاؤں کے لوگ اسے جان بوجھ کر خوراک چوری کرنا کا موقع دیتے ہوں۔ کئی بار ایسا بھی ہوا کہ اونوڈا نے گاؤں والوں کی گایوں، بھینسوں وغیرہ کو گولی مار کر ان کا گوشت خشک کرکے مستقبل میں استعمال کے لیے رکھ لیا تھا۔

جنگ کے اختتام تک اس کے تین فوجی ساتھی اس کے ساتھ رہے۔ ان میں سے ایک 1950میں اپنی پناہ گاہ سے باہر نکل آیا اور دشمن فوج کے ہتھے چڑھ گیا باقی دو مرگئے، ان میں اسے ایک 1972میں مقامی فوجیوں کے ساتھ جھڑپ میں مارا گیا اور دوسرا اپنی موت مرگیا۔ اب اونوڈا بالکل اکیلا تھا، اب اسے یہ گوریلا جنگ بالکل تن تنہا لڑنی تھی۔

اس کہانی کا ٹرننگ پوائنٹ 20فروری1974ء کو اس وقت سامنے آیا جب ہیرو اونوڈا کی ملاقات ایک نوجوان سیاح Norio Suzukiسے ہوئی۔ وہ سابق فوجیوں کی تلاش میں وہاں آیا تھا۔ اس نے جنگل میں ایک صاف جگہ اپنا کیمپ لگایا اور خاموشی سے اونوڈا کا انتظار کرنے لگا۔ اس کے بعد ہیرو اونوڈا نے خود ہی اس سے ملاقات کی، اس حوالے سے زیادہ تفصیل تو نہیں مل سکی، لیکن اتنا ضرور معلوم ہوا ہے کہ اونوڈا نے اس نوجوان سے مل کر کچھ دیر باتیں کیں، ممکن ہے اپنے حالات سے اسے آگاہ کیا ہوا جس کے بعد وہ نوجوان سیاح جاپان پہنچا اور اس نے وہاں کی حکومت سے رابطہ کرکے اسے اونوڈا کے بارے میں ساری صورت حال سے آگاہ کردیا جس میں بنیادی بات یہ تھی کہ نہ تو اونوڈا کو یقین ہے کہ جنگ ختم ہوچکی ہے اور نہ ہی وہ اپنے کمانڈر کے علاوہ کسی اور کا حکم ماننے کے لیے تیار ہے۔

اب جاپانی حکومت کے پاس اس کے سوا اور کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا کہ وہ ماضی میں ہیرو اونوڈاکے کمانڈنگ افسر میجر یوشی می ٹانی گوچی سے رابطہ کرکے اور اس سے اس ضمن میں مشورہ کرے۔ چناں چہ میجر یوشی می ٹانی گوچی کو طلب کیا گیا اور اس سے کہا گیا کہ خود فلپائن جائے اور اپنے ماتحت اونوڈا سے ہتھیار ڈالنے کو کہے۔ جاپانی حکومت کو یقین تھا کہ اونوڈا اپنے افسر کی بات ضرور مانے گا۔ یہ وہ وقت تھا جب فلپائن کی حکومت نے ہیرو اونوڈا کو اس کی ماضی کی غلطیوں پر معاف بھی کردیا حالاں کہ اس نے اپنی اس مہم جوئی کے دوران اس علاقے کے کم و بیش 30افراد ہلاک کیے تھے۔

پہلے ہیرو اونوڈا واپس جاپان گیا، پھر وہاں سے 1975ء میں برازیل چلا گیا اور ایک کسان بن کر زندگی گزارنے لگا۔ آخرکار وہ 1984ء میں اپنے وطن جاپان واپس چلا گیا، جہاں اس نے بچوں کے لیے نیچر کیمپس قائم کیے۔ وہ جنگل میں گزارے گئے اپنی زندگی کے 30 برسوں کو ضائع شدہ تسلیم نہیں کرتا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ اگر میں نے وہ تجربہ حاصل نہ کیا ہوتا تو یہ زندگی اختیار نہ کرپاتا۔ وہ کہتا تھا،''میں چاہتا تھا کہ لوگ پیٹ بھرکر کھائیں اور میں ان کی حفاظت کروں، جنگل میں تیس سال گزارنے کے بعد مجھے ہر وقت چوکس اور مستعد رہنا آگیا تھا۔''

ماضی کا یہ انوکھا جنگجو ہیرو اونوڈا اپنی زندگی کے 91 ہنگامہ خیز سال گزارنے کے بعد 16جنوری2014کو ٹوکیو (جاپان) میں دنیا سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگیا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں