افغانستان میں طالبان کے نئے حملوں کا آغاز
افغانستان میں امریکا اپنی ناکامیوں کا الزام پاکستان پر عاید کرتے ہوئے اس سے ڈو مور کا تقاضہ کرتا رہتا ہے
GILGIT:
میڈیا کی اطلاعات کے مطابق افغان طالبان نے افغانستان میں موسم بہار کے حملوں کا آغاز کر دیا ہے، افغان طالبان اپنے وہ علاقے واپس لینے کی کوشش کریں گے جن پر سرکاری فوج نے قبضہ کر لیا ہے۔ اس جنگی مہم کا نام ''آپریشن منصوری'' رکھا گیا ہے جو ملا اختر منصور کے نام پر ہے جو گزشتہ برس امریکا کے ڈرون حملے میں مارا گیا تھا۔
آپریشن منصوری میں غیرملکی فوجوں پر روایتی ہتھیاروں سے حملے کیے جائیں گے نیز گوریلا حملے بھی کیے جائیں گے۔ طالبان کی طرف سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ دشمن پر حملہ کیا جائے گا، ان کو خوفزدہ کیا جائے گا، ہلاک کیا جائے گا یا زندہ گرفتار کر لیا جائے گا حتیٰ کہ وہ اپنی پوزیشن چھوڑنے پر آمادہ ہو جائیں گے۔ ہر سال موسم بہار میں شروع ہونے والا حملہ نئی جنگ کے آغاز کی علامت ہوتی ہے۔
ایک طرف امریکا ان جنگجو لوگوں سے اس قدر خوفزدہ ہے کہ اس نے حال ہی میں ان کے ٹھکانے پر اپنے سب سے بڑے بم سے حملہ کیا جسے امریکا نے تمام بموں کی ماں (ایم او اے بی) کا نام دیا ہے۔ اپنے حجم اور وزن کے اعتبار سے ایسا ہی ہے مگر اس حملے سے طالبان کی کتنی تباہی ہوئی ہے اس کا اندازہ اس بات سے ہو سکتا ہے کہ برفباری ختم ہوتے ہی انھوں نے نئے حملے کا آغاز کر دیا ہے گویا یہ بم طالبان کے خفیہ ٹھکانوں کو ختم کرنے میں ناکام رہا ہے۔
اس حوالے سے بی بی سی پر تصویریں اور خبریں شائع ہوئی ہیں جن میں دکھایا گیا ہے کہ بم گرائے جانے کی جگہ پر سرسبز و شاداب درخت اور پودے بدستور موجود ہیں نیز ایک قریبی میدان میں چھوٹے لڑکے کھیل کود میں مشغول ہیں۔ افغانستان میں موسم سرما کی برفباری کے دوران بالعموم طالبان کی سرگرمیاں ماند پڑ جاتی ہیں مگر اس موسم سرما میں بھی طالبان بدستور سرکاری فوجوں سے لڑتے رہے بالخصوص گزشتہ دنوں انھوں نے شمالی شہر مزار شریف کے قریب سرکاری فوجوں کے ایک بہت بڑے اڈے پر کامیاب حملہ کیا جس میں ہلاک و زخمی ہونے والوں کی تعداد سیکڑوں سے متجاوز بتائی گئی ہے۔ ہلاک کیے جانے والوں میں فوج میں نئے بھرتی ہونے والے رنگروٹس کی زیادہ تعداد شامل تھی۔
کہا جاتا ہے کہ 2001ء میں طالبان کی حکومت گرانے کے بعد سے غیرملکی اور افغان فوجوں کے خلاف یہ سب سے ہولناک حملہ تھا۔ گزشتہ سال کے دوران بھی طالبان کے حملوں کے نتیجے میں ہلاک ہونے والے افغان اور غیرملکی فوجوں کی تعداد 800 سے متجاوز بتائی گئی ہے۔ ان میں امریکی فوجی بھی شامل ہیں۔
افغانستان میں امریکا اپنی ناکامیوں کا الزام پاکستان پر عاید کرتے ہوئے اس سے ڈو مور کا تقاضہ کرتا رہتا ہے لیکن جو کام امریکا کی افغانستان میں ہزاروں کی تعداد میں موجود فوج اپنے تمام جدید ترین ساز و سامان اور مہلک ترین ہتھیاروں کے باوجود کامیاب نہیں ہو رہی پاکستان سے یہ توقع کس بنا پر کی جا رہی ہے کہ وہ سرحد پار سے اس صورت حال کو سنبھال لے گا۔