صبر کا امتحان
عدالت عالیہ اگر چاہتی تو خود وزیر اعظم کو کرسی چھوڑنے کا حکم دے سکتی تھی۔
پاناما لیکس سے صرف پاکستان ہی نہیں دنیا کے کئی ممالک متاثرہوئے ہیں مگر وہاں ایسا شور سننے میں نہیں آیا جیساکہ ہمارے ہاں ہو رہا ہے۔ اس ایشو نے تو ہمارے حکمرانوں سے لے کر اپوزیشن کے ایوانوں میں زلزلہ سا برپا کردیا ہے۔ ہر سیاستدان خواہ اس کا تعلق حکمراں جماعت سے ہو یا حزب اختلاف سے ہر وقت اسی ایشو پر بیان بازی کرتا دکھائی دیتا ہے۔
امید تھی کہ اس کیس کے سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد معاملہ نمٹ جائے گا اور اس کی اذیت سے قوم کو نجات مل جائے گی مگر ہوا یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے سے بعض سیاستدان مطمئن نہیں ہیں اس کی وجہ دراصل اس مقدمے کے دو جج صاحبان کے اختلافی نوٹس ہیں یہ وزیر اعظم اور ان کے بیٹوں کے خلاف ہیں۔
البتہ تین جج صاحبان نے وزیر اعظم پر ایسے اعتراضات نہیں کیے ہیں تاہم پانچوں جج صاحبان اس بات پر متفق ہیں کہ حکمراں اور حزب مخالف کی جانب سے جو ثبوت پیش کیے گئے ہیں ان میں تشنگی موجود ہے چنانچہ ایک جے آئی ٹی بناکر مزید تحقیقات کی جائے تاکہ اصل چیز سامنے آسکے اور پھر اس تحقیق کی روشنی میں سپریم کورٹ حتمی فیصلہ صادر کرسکے۔ دیکھنے میں آرہا ہے کہ حزب اختلاف کے اکثر رہنما سپریم کورٹ کے جے آئی ٹی بنانے کے فیصلے سے مطمئن نہیں ہیں۔
ٹی وی پر چل رہے ٹاک شوز نے اس کیس کو مزید پیچیدہ بنادیا ہے۔ ان ٹاک شوز میں حصہ لینے والے کچھ دانشور اسے تاریخی فیصلہ قرار دے رہے ہیں تو بعض اسے حکومت کے خلاف کھلی چارج شیٹ بتا رہے ہیں۔ بعض اسے حزب اختلاف کی فتح سے تعبیر کررہے ہیں۔ شاید ان ٹی وی ٹاکس شوز سے متاثر ہوکر ہی بعض سیاستداں وزیر اعظم کو فوراً مستعفی ہونے کا حکم دے رہے ہیں جب کہ یہ سراسر عدالتی فیصلے کو چیلنج کرنے کے مترادف ہے۔
عدالت عالیہ اگر چاہتی تو خود وزیر اعظم کو کرسی چھوڑنے کا حکم دے سکتی تھی۔ جب عدالت نے ایسا نہیں کیا تو پھر وزیر اعظم کو کرسی چھوڑنے کے لیے سات دن کا الٹی میٹم دینا اور وہ بھی لاہور ہائی کورٹ کے قانون دانوں کی جانب سے۔ یہ معاملہ عجیب سا منظر پیش کر رہا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ بعض سیاسی پارٹیوں نے پاناما کو اپنی سیاست کا اوڑھنا بچھونا بنا لیا ہے لگتا ہے ان کی ساری سیاست پانامہ پر آکر تھم گئی ہے۔
پانامہ کیس یقینا ایک اہم مقدمہ ہے کیونکہ یہ ملک کے وزیر اعظم اور ان کے اہل خانہ کے اچھے برے کردار کا فیصلہ کرنے کے لیے قائم کیا گیا ہے مگر یہ بات بھی قابل غور ہے کہ ملک میں ایسا کون سا سیاستداں ہے جو بدعنوانی سے پاک ہو۔ بعض کی بدعنوانی سے تو ملک کا بچہ بچہ واقف ہے۔
دراصل ایسے ہی سیاستداں ایمانداری پر لیکچر دیتے ہوئے شریف فیملی پر زیادہ کیچڑ اچھال رہے ہیں۔ آخر یہ لوگ کیوں نہیں سوچتے کہ میاں صاحب کے بعد ان کا بھی نمبر آسکتا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ ملک کے تمام بدعنوان سیاستدانوں کا محاسبہ ہونا چاہیے تاکہ ملک ہمیشہ کے لیے ان کی بدعنوانی سے پاک ہوجائے اور غریب عوام کے مسائل حل ہوسکیں۔
بلاشبہ میاں صاحب نے اپنے مقدمے میں تمام ممکنہ ثبوت فراہم کردیے ہیں مگر بعض مبصرین اور قانون دانوں کے مطابق ان سے کچھ غلطیاں بھی ہوگئی ہیں جو ان کے وکیلوں کی وجہ سے ہوئی ہیں قطری شہزادے کا خط پیش کرنے کی ضرورت نہیں تھی جو شاید جلد بازی میں ضرورت سمجھ کر پیش کردیا گیا۔
اس خط کی اہمیت میاں صاحب کے نزدیک ضرور ہوگی مگر حزب اختلاف اور خصوصاً عمران خان کی پارٹی نے اس کا اس قدر پروپیگنڈہ کیا کہ یہ ایک سوالیہ نشان بن کر رہ گیا چنانچہ یہ مقدمے میں وزیر اعظم کا مددگار ثابت ہونے کے بجائے مقدمے پر ایک بوجھ بن گیا چنانچہ فیصلے میں اس خط کو غیر ضروری اور غیر متعلقہ دستاویز کے طور پر دیکھا گیا۔ اسی طرح وزیر اعظم ان کے بیٹوں اور بیٹی کے درمیان بھاری رقوم اور جائیداد کے تحفے تحائف دینا بھی اچھا تاثر قائم نہ کرسکا بلکہ اسے ٹیکس بچانے اور کرپشن چھپانے کا طریقہ سمجھا گیا پھر لندن کے فلیٹوں کا معاملہ بھی الجھاؤ کا شکار رہا۔
بہرحال اب مسئلہ جے آئی ٹی تک جا پہنچا ہے۔ اس مرحلے سے وزیر اعظم اور ان کے خاندان کو گزرنے کو ان کی توہین قرار دیا جا رہا ہے۔ واضح ہو کہ سپریم کورٹ بینچ کے پانچوں ارکان نے وزیر اعظم کو ان کے عہدے پر برقرار رکھا ہے چنانچہ انھیں ان کے منصب سے دستبردار ہونے کی دھمکی دینا توہین عدالت کے زمرے میں آئے گا۔
حزب اختلاف کی تمام پارٹیاں خصوصاً تحریک انصاف اگر ذرا صبر سے کام لے تو یہ ان کے ہی حق میں بہتر ہوگا۔ ابھی آدھا فیصلہ تو ان کی مرضی کا آچکا ہے اب رہ گئی بات جے آئی ٹی کی تو اس مرحلے کو مکمل کرنے کے لیے خود عدالت نے دو مہینے کی مدت مقرر کردی ہے اور جو ادارے اس میں حصہ لیں گے سپریم کورٹ خود ان کی نگرانی کرے گی۔ چنانچہ جے آئی ٹی میں کسی بھی قسم کی گڑبڑ کا کوئی امکان نہیں ہے۔
واضح ہو کہ اگر اس مرحلے پر وزیر اعظم خود استعفیٰ دے دیتے ہیں تو وہ مظلوم بن کر آیندہ عام انتخابات میں فائدہ اٹھاسکتے ہیں۔ اس وقت پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کو خاصی عوامی مقبولیت حاصل لگتی ہے کیونکہ وہاں اب تک جتنے بھی ضمنی الیکشن ہوئے ہیں وہ ان میں کامیاب رہی ہے۔ ایسے میں اگر وہ وقت سے پہلے عام انتخابات کا اعلان کردیتی ہے تو پھر اس کی کامیابی کے کافی امکانات موجود ہیں۔
مبصرین کیمطابق میاں صاحب کی کامیابی البتہ ان کے خلاف فیصلہ آنے کے بعد ناکامی میں بھی بدل سکتی ہے۔ حزب اختلاف کی پارٹیوں کو فیصلے کے خلاف بیان دینا بھی کافی مہنگا پڑ گیا ہے کیونکہ چیف جسٹس کو خود دو جج صاحبان کے اختلافی نوٹس کے بارے میں وضاحت کرنا پڑی ہے اور خاص طور پر عمران خان کو صبر کی تلقین کی ہے۔
اب چیف جسٹس اور آرمی چیف کی یقین دہانیوں کے بعد کوئی وجہ نہیں ہے کہ اس اہم مقدمے کا فیصلہ حق و انصاف سے ہٹ کر آسکے اور اب وسوسے کو بھی دل سے قطعی نکال دینا چاہیے کہ وزیر اعظم کے ساتھ کسی بھی قسم کی کوئی رعایت برتی جاسکتی ہے البتہ اس وقت صبر کی ضرورت ہے اور صبر کا پھل کبھی کڑوا نہیں ہوتا۔