حق حاکمیت
قدیم تاریخ میں انسانوں نے طاقت کا جابرانہ وقاہرانہ استعمال کرکے اپنی حاکمیت اعلیٰ کو تسلیم کرایا تھا۔
جدید حاکمیت اعلیٰ: گروہوں میں بٹی عالم انسانیت کی تاریخ میں سب سے نمایاں اور یکساں طور پر جو پہلو انتہائی واضح طور نظر آتا ہے اس میں ہم انسان کو طاقت کے آگے جھکتے اور طاقت حاصل کرنے میں مگن دیکھ سکتے ہیں۔ قدیم تہاذیب میں انسان ہی سے متعلق عجیب الخلقت کرداروں کے آگے دیگر انسانوں کا سربسجود رہنا اور ان کی اطاعت گزاری وفرمانبرداری کے مظاہرے اور حوالے اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے ملتے ہیں۔
اسی سوچ نے قدیم استبداد کو جنم دیا اور انسانوں کے ہاتھوں انسانوں کو غلام بنائے جانے کی روایت پڑی۔ جب انسان ہی غلام بنا لیا گیا تو کرہ ارض کے دیگر موجودات پر بھی اسی استبداد کا حق حاکمیت تسلیم کیا گیا۔ بلاشبہ اس قسم کے حق حاکمیت ہی نے تمدنی نظام اور معاشرتی قوانین کو تخلیق کیا، جس کے تمام تر بنیادی نکات میں اس حاکم اعلیٰ کے استبداد ہی کو مضبوط کرنے کا سامان پیدا کیا گیا۔ معلوم تاریخ میں مصر کا فرعونی تمدنی نظام اور اس کے معاشرتی قوانین اس کا بہترین ثبوت ہیں کہ جن میں صرف اور صرف فراعین کو سجدہ کرنے، تعظیم بجا لانے اور ان سے متعلق کسی بھی بات پر کوئی اعتراض نہ کرنے ہی کو ''کافی'' تصور کیا جاتا تھا۔
تاریخ کا طالب علم موجودہ ارتقائی مرحلے پر اس قسم کی حاکمیت اعلیٰ کے تسلسل میں جدید استعماریت کو جگہ دیے جانے کی گنجائش نکال سکتا ہے، جو کسی ایک فرد تک محدود ہونے کے بجائے عالمگیریت کا درجہ رکھنی لگی ہے، جو گلی گلی کوچہ کوچہ کسی نہ کسی اظہار میں نظر آہی جاتی ہے۔
حاکمانہ کمزوری؛ قدیم تاریخ میں انسانوں نے طاقت کا جابرانہ وقاہرانہ استعمال کرکے اپنی حاکمیت اعلیٰ کو تسلیم کرایا تھا، جن میں مادی وطبعی طور غیر مادی و غیر طبعی مظاہروں کا بڑا ہی عمل دخل دکھائی دیتا ہے۔ ان ہی طاقتور مظاہروں کی بنیاد پر فردی طور انھوں نے اتنے بڑے تمدنی نظام کے سخت معاشرتی قوانین کا ایساعملی اطلاق ممکن بناکر دکھایا جس کا تسلسل صدیوں کے عرصے پر محیط دکھائی دیتا ہے۔
تاریخ کا طالب علم یہ واضح طور دیکھ سکتا ہے کہ عالم انسانیت میں حاکمیت اعلیٰ کا ایسا تسلسل صرف اور صرف فراعین مصر ہی کو حاصل رہا ہے۔ لیکن جب ان مادی وطبعی طور غیر مادی وغیر طبعی مظاہرے کرنے والے مقتدر اعلیٰ کی مسند پر ان صلاحیتوں سے محروم جانشین براجمان ہوئے تو ان کی ترجمانی کے فرائض سرانجام دینے پر مامور افراد (کاہن، برہمن، علماء) کا گزشتہ حاکم اعلیٰ کی مورتیوں کی پوجا کروانے اور ان کو نادیدہ مدد فراہم کرنے کی خاطر نذرانے وصول کرتے تھے۔
ان کے پاس سرمائے کے ساتھ ساتھ عام شہریوں سے پیدا ہوجانے والے قریبی تعلق کے باعث تاریخ میں پہلی بار کسی منظم ترین معاشرے میں حاکم اعلیٰ کی تاریخی حیثیت کمزور ہوتے ہوئے نظر آنے لگتی ہے، جس کا سب سے پہلا اور ناقابل تردید ثبوت طبث(مصر) کے معاشرے میں آمون (فرعون) کے معبد خانے کے کاہن اعظم آخ ماہو کی جانب سے ساکنان طبث (مصر) کے نزدیک مقام نیم خداوندی کا درجہ رکھنے والے آمون ہوتپ سوئم کو اس کے ساقی بیناروس اور خانساماں عاقوپیس کے ہاتھوں زہر سے ہلاک کرانے اور حاکمیت اعلیٰ کو معبد کی جانب منتقل کرنے کی سازش کے جنم لینے کا واقعہ ہے۔ جس میں معلوم اور قبل ازتاریخ کا سب سے مستحکم حاکم اعلیٰ اور اس کا نائب اول یعنی عزیز مصر محترم پوتی فار لامحدود اختیارات حاصل ہونے کے باوجود رائج قوانین کے تحت صحت جرم ثابت کرنے میں ناکام رہے تھے۔
یعنی یہ معلوم تاریخ (آج سے لگ بھگ چار ہزار سال قبل) کی پہلی سب سے بڑی مثال ہے کہ جس میں تاریخ کا مضبوط ترین حاکم اعلیٰ اپنے ہی ماتحتوں کے ہاتھوں شکست خوردہ ہوا، اور حاکمیت اعلیٰ کا قدیم ترین رائج تصور روبہ زوال ہونا شروع ہوا۔
حاکمیتی ارتقاء؛ کرۂ ارض پر حاکم اعلیٰ کے اس تین ہزار سال سے زیاد ہ دورانیے پر محیط پہلے بڑے اور ابتدائی ارتقائی مرحلے کے بعد کی 25 صدیوں میں قدیم چائنہ سے متعلق انسانوں نے فردی حاکمیت اعلیٰ سے ایک قدم آگے بڑھ کر ''کے شی خاندان'' اور قدیم بابل کی قوم کی شکل لیے بخت نصر دنیائے عالم کے دیوی دیوتاؤں کی مورتیوں کے بل بوتے اپنی حاکمیت اعلیٰ کو منوانے کی کوششوں میں زمین پر خون کی ندیاں بہاتے ہوئے ملتے ہیں۔ ان کو فراعین مصر کی قائم کردہ حاکمیت اعلیٰ تو نصیب نہ ہوسکی ہاں البتہ انھوں نے اہرام مصر کی طرح دیوار چین اور معلق باغات کی عظیم الجثہ عمارتیں ضرور تعمیر کروائیں۔ لیکن تاریخ کے اس موڑ تک دیوی دیوتاؤں اور خدائی نظریات پر مبنی فرعونی حاکمیت اعلیٰ کا دور اختتام پذیر ہوچکا تھا اور فرعون من فناح اپنی حاکمیت اعلیٰ کے تمام تر لوازمات سمیت غرق آب ہوچکا تھا۔
قدیم ہندوستان میں علاقائی طور پر بربریت دکھانے والوں کی حاکمیت اعلیٰ کو تسلیم کیے ہوئے تھے۔ قدیم فارس اور یونان دیوتائی جارحانہ وسعت کے دم قدم سے کچھ عرصے تک ایک دوسرے پر اپنی اپنی حاکمیت اعلیٰ قائم کرنے میں کامیاب ہوئے لیکن وہ کوئی عظیم الجثہ عمارت دینے میں ناکام رہے۔ دیگر دنیا ابھی مضبوط تمدنی معاشروں سے دور ہونے کے باعث حاکمیت اعلیٰ کے تصور یا تخیل سے مبرا دیکھنے کو ملتی ہے۔
دوسری جانب معلوم تاریخ کی ابتدا ہی میں قدیم بابل کے مجسمہ ساز گھرانے سے تعلق رکھنے والے جناب ابراہیمؑ نبی نے حاکمیت اعلیٰ کا ایک ایسا تخیل فراہم کیا جو نہ کوئی خراج مانگتا ہے اور نہ ہی اپنی مورتیاں پوجوانے اور نذرانے چڑھانے کی شرائط عائد کرتا ہے، جو اپنی نظریاتی حاکمیت اعلیٰ منوانے کے لیے انسانوں کو لامحدود اختیارات فراہم نہیں کرتا کہ جن کی بنیاد پر وہ مافوق المادہ اور مافوق الطبیعات مظاہروں سے انسانوں کواپنا مطیع واطاعت گزار بنانے کی جانب راغب دکھائی دیتا ہے۔ بلکہ وہ تو انسانوں کے باہمی تعلق میں توازن واعتدال ہی کو قوانین مادہ کی تسخیر قرار دیتا ہے اور ہر ایک انسان کو یکساں صلاحیتوں کا حامل قرار دیتا ہے۔
جناب ابراہیمؑ نبی نے آنے والی نسلوں کو اس حاکمیت اعلیٰ سے متعارف کروانے کی سوچ کے تحت قدیم ارض کنعان پر جدید تہذیب بیت المقدس کی بنیاد رکھی۔ جو انسانوں کے باہمی تعلق میں توازن پیدا کرنے کا مرکز قرار پایا، جس کا زندہ ثبوت آج انسانوں کی اکثریت کا اس مرکز سے جڑے رہنا ہے۔ اور اس مرکز کی اہمیت و افضلیت کو سمجھانے کے لیے وارث ابراہیم (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) نے اس حاکم اعلیٰ کے گھر کی چھت پر ایک زر خرید غلام کو کھڑا کرکے ''قابل عمل مساوات کی دعوت دیتے حاکم اعلیٰ کی جانب آؤ'' کا اعلان کروایا۔