خود کو فنا کر دیا
آج نہیں تو کل یہی مزدور متحد ہوکر پاکستان میں نہ صرف اپنے مطالبات منوائیں گے بلکہ اقتدار پر بھی قبضہ کرلیں گے۔
کسی ریاست کی مدد کے بغیر، کسی پارٹی اور لیڈر کے بغیر مزدور طبقہ اپنے حقوق کے لیے لڑ سکتا ہے، اپنے مطالبات منوا سکتا اور اپنی حکومت بھی قائم کرسکتا ہے۔ یہ بات مزدور طبقے نے باربار ثابت کرکے دکھایا ہے۔ انقلاب فرانس، پیرس کمیون اور پھر شکاگو کی مزدور تحریک ان کے بین ثبوت ہیں۔ ویسے تو سماج کی تاریخ ہی طبقاتی جدوجہد کی تاریخ ہے، یہ جدوجہد غلامی کے دور سے شروع ہوئی اور تاحال جاری ہے۔
انقلاب فرانس کے نتیجے میں فرانس میں صرف بادشاہت کا خاتمہ نہیں ہوا، بلکہ برسوں ریاست خلا میں معلق رہی۔ پیرس کمیون ہر چند کہ ستر روز قائم رہا لیکن اس ستر روز میں کوئی بھوکا مرا، کوئی ڈاکے پڑے، کوئی عصمت فروشی ہوئی، کسی نے بھیک مانگی، کوئی بے روزگار رہا اور نہ کسی نے فاقہ کیا۔ یعنی مزدور طبقے نے یہ کر دکھایا کہ ہم دنیا کو بہتر طور پر چلا سکتے ہیں۔ یہی حالت 1886 میں امریکی صنعتی شہر شکاگو میں رونما ہوئی۔
مزدوروں نے اپنے مطالبات پر مبنی نکات پر مزدور اتحاد قائم کیا، یعنی کئی مزدور فیڈریشنوں نے متحد ہوکر ہڑتال اور احتجاج کی کال دی۔ یکم مئی کو شکاگو کی سڑکوں پر مزدوروں کا سمندر سے ٹھاٹھیں مار رہا تھا۔ ان کے دیگر مطالبات میں خواتین مزدوروں کی اجرتیں مرد مزدوروں کے برابر کرنا، نو سال سے کم عمر کے بچوں سے کام نہ لینا، مزدوروں کے کام کے اوقات کار اور حالات کار کو بہتر بنانا وغیرہ شامل تھے۔ مگر ان مطالبات میں سرفہرست مطالبہ کام کے اوقات کار کا تھا، اور وہ تھا آٹھ گھنٹہ کام، آٹھ گھنٹہ سونا اور آٹھ گھنٹہ تفریح۔ انارکسٹ اخبار ''دی الارم'' میں سیموئل فلڈن نے سب سے پہلے یہ لکھا کہ مزدوروں سے دس گھنٹے سے سولہ گھنٹے کام کروانا غلامی کی باقیات کی نشانی ہے، اس لیے کام کے اوقات کار آٹھ گھنٹے کیے جائیں۔ بعد ازاں ٹریڈ اینڈ لیبر اسمبلی اور سوشلسٹ لیبر پارٹی نے اس عمل میں پہل کی۔
یکم مئی سے چار مئی تک جلسے اور جلوس نکلتے رہے، جب چار مئی کو جلسہ ختم ہو نے کو تھا تو مزدوروں کے اجتماع میں سے سرکاری ایجنٹ نے پولیس پر بم پھینکے، اس کے فوراً بعد پولیس نے مزدوروں پر گولیوں کی بوچھاڑ کردی، جس کے نتیجے میں موقع پر ہی متعدد مزدور کارکن جاں بحق ہوگئے اور آٹھ انارکسٹ مزدور رہنماؤں کو قتل کرنے کے جرم میں گرفتار کرلیا گیا۔
عدالت کا یہ موقف تھا کہ ہزاروں لوگوں کو ورغلانے والے یہ انارکسٹ تھے، وہ سماج اور ادارو ں کو تباہ کرنا چاہتے تھے، اس لیے انھیں گرفتار کیا گیا۔ ان میں سے ایک کو پندرہ سال کی قید، دو کو عمر قید، ایک لوئس لنگ جس نے قید میں ہی خودکشی کرلی اور چار البرٹ پارسنز، اگسٹ ایسپیسس، جارج اینجل اور ایڈولف فیشر کو گیارہ نومبر 1887 کو پھانسی دے دی گئی۔ سزا ہونے کے بعد بھی امریکا میں احتجاجی مظاہرے جاری رہے۔ یہ تاریخ میں حے مارکیٹ کے شہید کہلاتے ہیں، ان کے جنازے میں ڈیڑھ سے پانچ لاکھ افراد نے شرکت کی، اور سیکیورٹی کی نفری دس ہزار سے ڈھائی لاکھ بتائی جاتی ہے۔
1889 میں انٹرنیشنل سوشلسٹ کانگریس میں یکم مئی کو منائے جانے کی تجویز پیرس میں رکھی گئی۔ 1893 میں یوم مئی کے شہدا سے یکجہتی کے لیے عالمی طور پر یہ دن منایا گیا۔ سزا سے قبل آگسٹ اسپیسس نے کہا تھا کہ مزدوروں کو اپنے حقوق کے لیے براہ راست لڑنا ہوگا اور انارکسٹوں کا یہی اصول ہے۔
دنیا میں انارکسٹوں کا پہلا اخبار روزنامہ ''شکاگو راربیٹرزٹنگ'' امریکا سے جرمنی زبان میں شایع ہوتا تھا، یہ اخبار جرمنی کے مزدور جو ہجرت کرکے امریکا آئے ہوئے تھے، وہ نکالتے تھے، ایک اور ہفت روزہ (ورووٹ) اور اتوار کا شمارہ ''فیکٹ'' 1880 میں اس کی اشاعت 13000 تھی، جو 1886 میں دگنی یعنی 26980 ہوگئی۔ ایلبرٹ پارسنسز کا تعلق ''مستقبل کا آزاد سماج'' سے تھا اور یہ تنظیم ''انارکسٹ انٹرنیشنل ورکنگ پیپلز ایسوسی ایشن'' سے منسلک تھی، جسے عرف عام میں سیاہ انٹرنیشنل کہا جاتا ہے۔
معروف انارکسٹ رہنما باکونن کا کہنا تھا کہ ''صرف نظریہ کی تخلیق کرنا نہیں ہے بلکہ مستقبل کی حقیقت کو جاننا ہے''۔ ایک اور معروف انارکسٹ رہنما پیترکرو پوتکن کا قول ہے کہ ''انارکسزم عوام میں سے پیدا ہوئی اور اسے عوام کی امانت سمجھتے ہوئے پھر اس کی زندگی کو تخلیق کرنا ہے۔ کسی ریاست، حکمران یا جماعت نے آٹھ گھنٹے کے اوقات کار نہیں کروائے، مزدوروں کی عالمی یکجہتی سے ہمکنار کیا۔ پھانسی پانے والوں میں جرمن اور آئرش مزدور رہنما بھی شامل تھے۔ پھانسی پانے والوں کا کسی مذہب سے بھی تعلق نہیں تھا۔ انھوں نے اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ دے کر دنیا بھر کے عوام کو آٹھ گھنٹے کام کے اوقات کار کروانے کا تحفہ دے گئے۔
لیکن آج بھی پاکستان کے نوے فیصد مزدور دس اور بارہ گھنٹے کام کرنے پر مجبور ہیں۔ حکومت نے مزدوروں کی کم از کم تنخواہ بارہ ہزار روپے مقرر کی ہے، جب کہ نوے فیصد مزدوروں کو دس ہزار روپے ملتے ہیں، اور بعض مل فیکٹریوں میں تو سات آٹھ ہزار روپے ملتے ہیں۔ پاکستان میں بمشکل دو فیصد مزدور یونینائزڈ ہیں۔ اگر مزدور کہیں یونین بنانا چاہیں تو انھیں فوراً کام سے نکال باہر کردیا جاتا ہے۔
یونین کی آزادی، نام کی آزادی بن کر رہ گئی ہے۔ لیبر ڈائرکٹر، لیبر کا نہیں سرمایہ داروں کا ہوتا ہے۔ مالکان سے بھتہ خوری کرکے مزدوروں کے خلاف رپورٹ دی جاتی ہے۔ کسانوں کا تو پرسان حال ہی نہیں۔ آج بھی اس مہنگائی میں کسانوں کو روز کی دیہاڑی تین سو روپے دی جاتی ہے۔ مچھیروں کی بھی صورتحال ایسی ہی ہے۔ کشتیوں پہ سارا دن جان جوکھوں میں ڈال کر مچھیرے مچھلی پکڑتے ہیں اور کشتی کے مالکان سب کچھ اس سے لے لیتے ہیں، کوئی بھی مچھیرا اپنی مرضی سے مچھلی کو بازار میں نہیں بیچ سکتا۔ اسے مچھلیاں وڈیرے کو سپرد کرنی ہوتی ہیں اور اگر وہ ایسا نہ کرے تو تین سو روپے کی دیہاڑی یا منہ مانگے دام میں مچھلی کو وڈیرے کے حوالے کرنا ہوتا ہے۔
ان تمام مشکلات اور رکاوٹوں کے باوجود پاکستان کے محنت کش ہر جگہ ہر مقام پر اپنے حقوق کے لیے لڑ رہے ہیں۔ آج نہیں تو کل یہی مزدور متحد ہوکر پاکستان میں نہ صرف اپنے مطالبات منوائیں گے بلکہ اقتدار پر بھی قبضہ کرلیں گے۔ شکاگو کے شہیدوں کے خون کی قسم ہے کہ وہ دن ضرور آئے گا جب دنیا ایک ہوجائے گی، دنیا کے سارے وسائل سارے لوگوں کے ہوں گے۔ کوئی طبقہ ہوگا اور نہ کوئی ریاست۔ چہار طرف محبتوں اور خوشحالی کے پھول کھلیں گے۔