یکم مئی 1886 تا 2017
دنیا میں یہ پہلا موقع تھا جب محنت کرنے والوں نے اپنے اتحاد کے ذریعے علم بغاوت بلند کرکے مکمل ہڑتال کردی تھی۔
آج سے ٹھیک 131 سال قبل شکاگو کے محنت کشوں نے 8 گھنٹے اوقات کار کے لیے جس جدوجہد کا مطالبہ کیا تھا اور حکمرانوں کو للکارتے ہوئے کہا تھا کہ حاکموں، غریب انسانوں کی آواز بلند ہونے دو۔ نہیں تو پھر ہماری تلوار بلند ہوں گی؟
ہمارے بھی اوقات کار مقرر کرو۔ ہماری تنخواہوں اور مراعات میں اضافہ کرو، ہمیں بھی زندہ رہنے کا حق دو ہم بھی انسان ہیں۔ اور پھر امریکا کے صنعتی شہر شکاگو میں محنت کشوں نے اپنے پرامن سفید پرچم کے ساتھ شکاگو کی HAY مارکیٹ کے قریب جمع ہونا شروع ہوگئے۔ ان کا نعرہ تھا دنیا بھر کے محنت کشو، ایک ہو جاؤ۔ آج یکم مئی 2017 ہے۔
دنیا بھر کے محنت کشوں کا عالمی دن یا پھر عالمی تہوار ہے۔ اس دن کو دنیا بھر کے محنت کش عوام 1886 شکاگو کے ان شہدا کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے دنیا بھر میں جلسے جلوس، ریلیاں اور سیمینارز منعقد کرکے مناتے ہیں، جنھوں نے اپنی جان کی بازی لگا کر 8 گھنٹے اوقات کار مقرر کروائے تھے۔
مظلوموں، محنت کشوں، محکوموں اور غلاموں کی یوں تو بڑی طویل صبر آزما صدیوں پر محیط جدوجہد کی داستان ہے جب سے دنیا تشکیل پائی ہے یہ کشمکش جاری ہے اور جب پہلی مرتبہ زمین پر چند طاقتور لوگوں نے لکیریں کھینچ کر اپنے حق ملکیت کا دعویٰ کرنا شروع کردیا تھا اور کمزور لوگوں پر ظلم کرکے طاقت کے زور پر انھیں اپنا غلام بنالیا تھا تب ہی سے دنیا میں طبقاتی فرق پیدا ہوگیا تھا اس وقت طاقتور لوگ جبر کرکے غلاموں، مظلوموں، محکوموں اور محنت کشوں سے جبری مشقت لیتے تھے اوقات کار کا تعین بھی نہ تھا لیکن 18 اٹھارہویں اور 19 ویں صدی میں تقریباً مزدور طبقہ بھی منظم ہونا شروع ہوگیا تھا۔
یہ وہ دور تھا جب صنعتی ترقی ہو رہی تھی بھاپ سے چلنے والے انجن اور کارخانے مشینی دور میں داخل ہو رہے تھے بڑے کم معاوضے پر مزدوروں سے بیگار لی جاتی تھی۔ محنت کشوں کے کوئی اوقات کار نہ تھے نہ ہی کوئی قانون تھا رات گئے تک کام کرنا پڑتا تھا حادثے اور موت کی صورت میں کوئی معاوضہ نہ تھا۔
یورپ میں نئی نئی صنعتیں لگ رہی تھیں، سائنس بھی ترقی کر رہی تھی، کارخانوں کا جال بچھایا جا رہا تھا، مزدور طبقہ ابھر رہا تھا اور انجمن سازی کی طرف بڑھ رہا تھا۔ سب سے پہلے برطانیہ میں مزدوروں نے جدوجہد شروع کی یونین بنائی۔ فیڈریشن بنائی، اس سے قبل بھی مزدور جدوجہد کرتے رہے مگر شکاگو ان سب میں پیش پیش رہا۔
امریکا جس کے ایک شہر میں اس تحریک نے جنم لیا، آج وہی امریکا سامراج بن کر دنیا میں دندنا رہا ہے اور محنت کشوں کا دشمن نمبر ایک بن کر دنیا میں دہشت گردی، لوٹ مار، اسلحے کی منڈی، نیو ورلڈ آرڈر، آئی ایم ایف، ورلڈ بینک WTO کے تحت اپنے احکامات کے ذریعے چھوٹے غریب پسماندہ اور ترقی پذیر ممالک پر حکمرانی کے خواب دیکھ رہا ہے۔ اسے نہیں معلوم کہ آج سرمایہ دارانہ نظام انسانوں کی بھلائی کے لیے کوئی بھی قابل ذکر کارنامہ انجام نہیں دے رہا ہے۔
آج سرمایہ دارانہ، جاگیردارانہ نظام اپنے عروج پر پہنچ کر زوال پذیر ہے۔ آج دنیا کے غریب ملکوں کے عوام کو بھوک، غربت، جہالت، بیماری، بے روزگاری اور مہنگائی سے نجات دلانے کے لیے ملکی حکمرانوں سمیت عالمی سامراج کے پاس عوام کے لیے خوشحالی لانے کے لیے انھیں غربت کی دلدل سے نکالنے کا کوئی واضح پروگرام نہیں ہے۔
آج عالمی سرمایہ داری نظام اپنی آخری اور بھیانک شکل میں عوام کو بدحالی کی طرف دھکیل رہا ہے لیکن اسی سامراجی ملک میں آج سے ٹھیک 131 سال قبل ایسے جوشیلے انقلابی نوجوان مزدور اور سیاسی رہنما پیدا ہوئے تھے جنھوں نے شکاگو میں پہلی اور مکمل ہڑتال کرکے اپنی قیمتی اور پیاری جانوں کا نذرانہ دے کر دنیا کی مزدور تحریک کو ایک نیا رخ دیا تھا اور اپنا خون دے کر محنت کش طبقے کا سر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے فخر سے بلند کردیا تھا، وہ بلا رنگ و نسل و مذہب ایک تھے اپنے حقوق اور مطالبات کی بات کر رہے تھے پورا صنعتی شہر شکاگو جام ہوگیا تھا ملوں اور کارخانوں کی چمنیوں سے دھواں نکلنا بند ہوگیا تھا۔
دنیا میں یہ پہلا موقع تھا جب محنت کرنے والوں نے اپنے اتحاد کے ذریعے علم بغاوت بلند کرکے مکمل ہڑتال کردی تھی اور پھر یکم مئی 1886 کو صبح کے اخبار میں کسی گمنام صحافی نے اپنا فرض ادا کرتے ہوئے اخبار کے صفحہ اول پر مزدوروں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا، جو اب تاریخ کا حصہ بن چکا ہے ''مزدورو! تمہاری لڑائی شروع ہوچکی ہے، فیصلہ تو آنے والا وقت کرے گا۔ آگے بڑھو اپنے مطالبات منوانے کے لیے اپنے اوقات کار کے لیے جدوجہد جاری رکھو۔ حاکموں کو جھکنا پڑے گا، جیت اور فتح تمہاری ہوگی، ہمت نہ ہارنا، متحد رہنا اسی میں تمہاری بقا اور اسی میں تمہاری فتح ہے۔''
صحافی کی اس تحریر نے محنت کشوں میں مزید جذبہ اور ابھار پیدا کردیا اور انھوں نے زوردار نعرے کے ساتھ 8 گھنٹے اوقات کار کا مطالبہ کردیا اور یوں پہلی مرتبہ 24 گھنٹوں کے دورانیہ کو کچھ اس طرح تقسیم کیا گیا کہ ہم 8 گھنٹے کام کریں گے۔ 8 گھنٹے آرام کریں گے۔ 8 گھنٹے اپنے اہل خانہ اور بیوی بچوں میں گزاریں گے۔
حکمرانوں، مل مالکوں، سرمایہ داروں کو محنت کشوں کا یہ نعرہ اور اتحاد پسند نہ آیا اور انھوں نے مزدوروں کے خلاف ایکشن لیتے ہوئے ان پر گولیوں کی بوچھاڑ کردی، نہتے، کمزور اور پرامن محنت کشوں کو لہو لہان کردیا گیا، شکاگو کی سڑکوں پر مزدوروں کا خون بہنے لگا، محنت کشوں کا امن کا پرچم خون سے سرخ ہوگیا، ایک محنت کش کی قمیض لہو سے تر ہوگئی پھر انھوں نے لہو میں ڈوبے ہوئے سرخ پرچم کو ہی اپنا پرچم بنالیا اور فیصلہ کیا کہ ہم اس وقت تک کام پر واپس نہیں جائیں گے جب تک ہمارے مطالبات تسلیم نہیں کر لیے جاتے، سرخ پرچم ہی اب ہمارا پرچم ہوگا۔
آخر کار حکمرانوں نے محنت کشوں کے مطالبات تسلیم کیے اور یوں پہلی مرتبہ 8 گھنٹے اوقات کار کو تسلیم کیا گیا، بعد میں حکمرانوں نے مزدوروں کے 7 سرکردہ رہنماؤں کو گرفتار کرکے ان پر جھوٹا مقدمہ بنایا کہ انھوں نے جلسے میں بم چلایا تھا، 4 رہنماؤں کو سزائے موت دے کر پھانسی کے پھندے پر چڑھا دیا گیا اور باقی تین رہنماؤں کو رہا کردیا گیا۔
یہ عظیم مزدور رہنما دنیا سے تو چلے گئے مگر اپنا نام اور اپنا کام اور اپنی تحریک چھوڑ کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے امر ہوگئے۔ دنیا بھر میں بعدازاں محنت کش اپنی جدوجہد کے ذریعے کئی تبدیلیاں لائے اور مراعات حاصل کیں اور روس میں انقلاب برپا کیا۔ یورپ میں تو اب بھی 5 اور 6 گھنٹے اوقات کار ہیں جب کہ ہمارے ملک میں اوقات کار 8 گھنٹے کے بجائے 12 اور 16 گھنٹے ہیں۔
پاکستان میں حکمرانوں، سرمایہ داروں اور فرقہ پرستوں نے مزدوروں کو تقسیم در تقسیم کردیا ہے، آج پاکستان میں مزدور سیاسی جماعتوں کے علاوہ مذہب، فرقہ، زبان، قومیت اور علاقے کے نام پر تقسیم ہوچکے ہیں ٹریڈ یونین تحریک کمزور پڑ گئی ہے بلکہ اب تو دم توڑ رہی ہے۔ کوئی بھی غربت، جہالت، بے روزگاری، مہنگائی، تعلیم اور صحت کے بارے میں عوام کو چھوٹے چھوٹے گھر بناکر دینے کو تیار نہیں ہے، نہ ہی جاگیرداری کا خاتمہ کیا جا رہا ہے۔ پاکستان کے محنت کش کبھی نہ کبھی متحد ہوکر حکمرانوں کا تختہ الٹ کر خونی انقلاب برپا کردیں گے۔ چند اشیائے ضرورت کو ترستے ہوئے لوگ، آخری جنگ کا اعلان تو کرسکتے ہیں۔