ٹین پرسنٹ تا سینیٹ پرسنٹ
چین سے گوادر کے سلسلے میں جو معاہدے ہوئے ہیں، ان کے مطابق فائدے میں چین کا حصہ 91 فیصد ہوگا
تازہ ترین یہ ہے کہ چین سے گوادر کے سلسلے میں جو معاہدے ہوئے ہیں، ان کے مطابق فائدے میں چین کا حصہ 91 فیصد ہوگا ۔ سینیٹ کے چیئرمین نے اس کی تفصیلات مانگی ہیں یہ بھی خبر کا ایک جملہ ہے تو پھر۔ تابخاک کاشغر صحیح ہے کہ ہم کاشغرکی خاک بن جائیں گے اور معاہدہ بھی طویل المدت ہے۔ جب چین اپنا فائدہ دیکھ رہا ہے تو ہم بھی کم ازکم ایک کالم تو اس پر لکھ سکتے ہیں،اس سے زیادہ تو شاید ہو نہیں،کیونکہ بھینسوں کی لڑائی میں نقصان مینڈکوں کا ہوتا ہے اور ہم بھینسے نہیں ہیں۔
حیرت اس بات پر ہے کہ ایک بار ملک میں ٹین پرسنٹ کا شور تھا تو اندازہ ہوا کہ ملک کا ٹین پرسنٹ کتنا ہوتا ہے اور متعلقہ فرد کی ہر قسم کی ترقی دیکھ کر یعنی (سیاسی، اقتداری اور مالی) دیکھ کر اندازہ ہوا کہ ٹین پرسنٹ بہت ہوتا ہے۔ہم اب سمجھے کہ آخر اس ملک میں اتنی ''منصوباتی'' ترقی کیوں اورکیسے ہو رہی ہے، منصوباتی ترقی کی اصطلاح ہماری ہے اور جملہ حقوق محفوظ ہیں،اس کی تشریح بھی ہماری ذمے داری ہے وہ یہ ہے کہ منصوبہ بناؤ،کام شام کو گولی مارو۔ مال بناؤ۔ سندھ میں اس پر سو فیصد عملدرآمد ہوا ہے ہوتا رہا ہے اور اس کے موجد کون ہیں سب جانتے ہیں۔
پنجاب میں کہ جو ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے اور 60 فیصد ہے، ملک کا جس کے اقتدار سے تو جان چھڑانا مشکل ہے ہاں مل بانٹ کر کھا پی سکتے ہیں جو گزشتہ اور پیوستہ اور موجودہ کر رہے ہیں اور پنجاب کے عوام بھی اتنے حکمرانوں کے ساتھ ہیں کہ فائدے کا کچھ حصہ ان کو ضرور مل رہا ہے۔ موٹر وے سے آغاز ہوا اور انجام خدا جانے۔ بہرحال یہ تو سیاسی بصیرت کا سوال ہے۔ عوام کو وہاں ہی زیادہ ملے گا جہاں سیاسی بصیرت زیادہ ہوگی۔
سندھ میں مزارات کی سیاست پر ہر ایک شخص نے پوری سندھ کی آبادی کو لگادیا ہے اور لاڑکانہ کے مزارات سیاست کا حصہ ہیں جن میں سے کبھی بھٹوکو نکال لیا جاتا ہے اورکبھی بے نظیر کو اور سمجھا جاتا ہے کہ اس سے ووٹ بینک قائم ہورہا ہے۔ نہیں ہو رہا ''نوٹ بینک'' کی وجہ سے ووٹ بینک ختم ہو رہا ہے۔ پنجاب میں تو تقریباً خاتمہ ہے۔
پنجاب کے عوام نے بھٹو فیکٹرکو مسترد کر دیا ہے اور اس کی وجہ اس پارٹی کا گزشتہ پانچ سالہ دور حکومت ہے جس میں عوام کو کچھ نہیں ملا خواص کو بہت کچھ ملا اور پنجاب کو کچھ نہ ملے تو وہ سندھ کی طرح ہاتھ پر ہاتھ رکھے نہیں بیٹھے رہتے وہ آیندہ کی تیاری کرتے ہیں۔
محنتی لوگ ہیں چاہے کاشت کاری ہو یا سیاست۔ پنجاب کے لوگوں نے ہر جگہ اپنا سکہ جمایا ہے۔ سندھ کی بنجر زمینوں کو پنجابی آباد کاروں نے سرسبز کیا ہے، ان سے زمینیں سندھ کے لوگ نہیں چھین سکتے وہ ہندو نہیں ہیں جن کی جائیدادیں زمینیں ہڑپ کرکے لوگ سندھ میں بہت بڑے بن گئے ہیں۔ تحریک پاکستان اور قیام پاکستان کے نتیجے میں، لہٰذا سندھ میں چک آباد اور محفوظ ہیں۔مسئلے اتنے ہیں کہ ایک بات لکھنے بیٹھو تو دس باتیں ذہن میں آتی ہیں، ہم نے ٹین پرسنٹ سے آغاز کیا تھا تو اگر پاکستان کا حصہ گوادر میں 9 فیصد ہے تو کیا نہائیں گے کیا نچوڑیں گے؟ مگر جیساکہ ہم نے عرض کیا تھا کہ ایک بار ٹین پرسنٹ کا فائدہ دیکھا ہوا ہے تو شاید یہ 9 فیصد پاکستان کے فائدے میں ہو۔
مگر پاکستان میں جس نے 10 فیصد کی بنیاد رکھی اس نے ہی اس بربادی کی اینٹ رکھی جس کا پاکستان آج شکار ہے اور بچہ بچہ لاکھوں کا مقروض ہے۔ ٹین پرسنٹ نے بدعنوانی کی ایسی راہیں کھول دیں کہ ایکسپرٹس نے اسے بتدریج منافع کی ''ڈار'' بنادیا اپنے لیے قوم کے لیے نہیں۔ ہر وہ ملک جو پاکستان سے اپنے لیے فائدہ چاہتا ہے ''کچھ دے کر سب کچھ لے کر'' وہ موجودہ حکومت کی حمایت کرتا ہے۔
وجہ یہ ہے کہ سب کو یہ خطرہ ہے کہ شاید آیندہ یا دوسری کسی پارٹی کی حکومت ہوئی تو دو خطرات لاحق ہوں گے یا تو وہ حکومت عوام کا فائدہ سوچے گی یا وہ اپنا زیادہ کمیشن مانگے گی، لہٰذا دونوں صورتوں میں کسی دوسرے ملک کو فائدے کا امکان نہیں ہے۔ تو وہ جو ہم منصوباتی ترقی کی بات کررہے تھے وہ چاروں صوبوں میں جاری ہے اور حکومت فیتے کاٹتی پھر رہی ہے۔
پورے ملک میں بلکہ صرف پنجاب میں موٹر وے، موٹروے کی طرح بنائی گئی، سندھ میں سپرہائی وے کو ''لیپ پوت'' کر موٹروے کا نام دے دیا اور سفرکا ٹیکس وہی لگادیا جو آٹھ لین کی موٹروے کا ہوتا ہے۔ سندھ کے وزیر ناصر علی شاہ نے کہا تھا کہ ٹول ٹیکس اکھاڑ کر پھینک دیں گے، ابھی تک عمل نہیں ہوا؟ اس کے لیے مکمل دیانتداری کی ضرورت ہوتی ہے۔
تو موجودہ حکومت دراصل سینیٹ پرسنٹ کی حکومت ہے انفرادی فائدوں کے اعتبار سے اور اب پانامہ کے فیصلے کے بعد اگر وہ اپنے منطقی انجام تک نہ پہنچا۔ جے آئی ٹی کے ذریعے (جس کا امکان کم ہے) بقول ایک لیگی کارکن کے ''رات گئی بات گئی'' تو لندن کے علاوہ بھی جائیدادیں بنیں گی اور''کلین چٹ'' بھی لے لیں گے وہ، ان کو بہت گر آتے ہیں۔ زرداری صاحب کو مختلف طریقوں سے استعمال کرلیا اپنے مفاد میں اور پھر بس ختم۔
زرداری صاحب کتنا بھی کہیں اپنے آپ کو بڑا سیاستدان سمجھیں، شریف پارٹی نے ان کے تختے نکال دیے ہیں، یہ ایک حقیقت ہے اور کیونکہ پیپلز پارٹی کے معاملات کو عام ووٹر زرداری کی مداخلت کی وجہ سے شک کی نگاہ سے دیکھتا ہے چاہے وہ نعرہ ''جئے بھٹو'' لگا رہا ہو، دل سے جانتا ہے کہ وہ نعرہ ''جئے زرداری'' لگا رہا ہے تو زور نہیں ہے نعرے میں اور ہونا بھی نہیں چاہیے۔
بھٹو اب نہیں رہا۔ زرداری کو بھٹو نہیں بنایا جاسکتا۔ یہ ایک بچکانہ سوچ اور چال تھی کہ بلاول کے نام کے ساتھ بھٹو لگادیا جائے، بہرحال سندھ کے لوگ بہت معصوم اور سیدھے ہیں ان کے جذبات سے سیاستدان کھیلتے رہے ہیں، کھیلتے رہیں گے اور یہ بیچارے ''زندہ باد'' کہتے رہیں گے اور ان میں قوم پرست بھی چوری چھپے داخل ہوکر ''بھٹو راگ'' الاپتے رہیں گے کہ یہ سندھ کے عوام کی کمزوری ہے لیکن اس ساری بات کا لب لباب یہ ہے کہ شکار کے لیے جال گھات کوئی لگاتا ہے اور شکار کوئی کر جاتا ہے، سیاست بھی ایک ایسا ہی کھیل ہے۔ اس کی ٹائمنگ اصل بات ہے، زرداری صاحب کو لوگ بہت بڑا سیاستدان کہتے ہیں تعجب ہوتا ہے۔
خود غرض سیاستدان اگر آپ کہنا چاہتے ہیں تو ٹھیک ہے مگر اب دوسروں نے ثابت کردیا کہ وہ ان سے بڑے ہیں اس معاملے میں تو جتنے جال یا گھات زرداری نے لگائے ان کا فائدہ تو کوئی اور لے گیا اور آپ اب افسوس کرتے ہیں کہ عمران خان کے ساتھ کھڑے ہو جاتے تو میاں صاحب گر چکے ہوتے۔ آپ کبھی نہیں کھڑے ہوتے عمران کے ساتھ کیونکہ اس طرح عمران خان کا قد بڑھ جاتا اور آپ وہ کس طرح برداشت کرسکتے تھے۔
بہرحال اب تو بلی دودھ پی گئی، آیندہ دیکھا جائے گا، پانامہ کہاں پہنچتا ہے اور ہنگامہ کیا ہوتا ہے۔ یہ طے ہے کہ موجودہ حکمران طبقہ نے 10 فیصد کو 100 فیصد میں تبدیل کرنے کا کارنامہ انجام دے دیا اور وہ بھی گوادر تک میں۔