مخالفت کیوں
عالمی سامراج نے اپنے گماشتوں کے ذریعے ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے خلاف سازشیں کیں۔
بعض مذہبی سیاسی جماعتوں کی جانب سے بلوچستان حکومت کی برطرفی کے مسئلے پر حیرانی ہوئی۔ ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے بلوچستان میں ان ہائوس تبدیلی کی تجویز دی جو آئینی اور جمہوری بھی تھی، ملک میں تبدیلی کا راستہ صرف الیکشن ہے جو آئینی اور جمہوری راستہ ہے، جب وقت بھی کم رہ گیا ہو تو ایسے حالات میں اس طرح کے اقدامات سے غیر جمہوری قوتوں کو تقویت ملے گی۔ یعنی ان کا سارا زورآئینی اور جمہوری طریقوں کو اختیار کرنے پر ہے۔
وہ کیوں ایسے پراسرار بیانات دے رہی تھیں، یہ سب اب سامنے آچکا ہے کیونکہ اب انھوں نے اپنے ہی بیان کردہ آئینی اور جمہوری راستوں کے برعکس مظاہروں اور ہڑتال کا اعلان کردیا ہے۔ وہ یہ بھول گئیں کہ بلوچستان کی نا اہل حکومت کو پاکستان کی سب سے بڑی آئینی اتھارٹی صدر مملکت نے آئین کے آرٹیکل دو سو چونتیس کے تحت برطرف کرکے گورنر راج نافذ کیا ہے۔ اس آرٹیکل میں واضح لکھا ہے کہ صوبے کی آئینی مشینری کی ناکامی کی صورت میں اس شق کے تحت یہ آئینی قدم اٹھایا جاسکتا ہے، جب کہ سپریم کورٹ پہلے ہی قرار دے چکی تھی کہ صوبائی حکومت کو حکمرانی کا اب کوئی آئینی و قانونی جواز حاصل نہیں ۔
لہٰذا یہ واضح ہوگیا کہ بلوچستان حکومت کی برطرفی اور گورنر راج کا نفاذ آئین پاکستان کے تحت سو فیصد آئینی ہے۔ رہ گئی بات کہ یہ فیصلہ جمہوری بھی ہے تو وہ فراموش کر گئیں کہ پورا پاکستان کوئٹہ میں دھرنا دینے والوں کے ساتھ ہم آواز تھا۔ پورے پاکستان میں دھرنا بھلے مجلس وحدت مسلمین کے قائد علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کی اپیل پر دیا گیا لیکن ان دھرنوں میں پاکستان کی ساری قابل ذکر جماعتوں کے قائدین نے شرکت کرکے اظہار یکجہتی بھی کیا اور مطالبات کی حمایت بھی کی۔ لہٰذا وہ پاکستان کے عوام و خواص کے اس بے مثال جمہوری اتحاد کو تسلیم کریں۔
بلوچستان کے وزیر اعلیٰ کا تعلق حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی سے تھا۔ ان کو برطرف کرنے والے صدر مملکت بھی پیپلز پارٹی کے عملی سربراہ ہیں۔ ان کے فیصلوں پر عمل کرنے کا اعلان کرنے والے وزیر اعظم پاکستان کا تعلق بھی پیپلز پارٹی سے ہے۔ لہٰذا مخالفت کرنے والی سیاسی جماعتوں کو زیب نہیں دیتا کہ وہ پاکستانی حکمرانوں کے آئینی اور جمہوری فیصلے کے خلاف احتجاج کرے۔ انھیں اپنی غیر جمہوری اور غیر آئینی روش ترک کرنا ہوگی۔
انیس سو ساٹھ کے عشرے میں ملک پر خود کو مسلط کرنے والے غیر جمہوری حکمران جنرل ایوب خان جیسے تیسے صدر مملکت بن بیٹھے تھے اور جس آئین کے تحت ملک چلایا جا رہا تھا اسی آئین کے تحت صدر مملکت عہدے پر رہتے ہوئے دوبارہ صدر مملکت بننے کے لیے الیکشن میں حصہ نہیں لے سکتے تھے۔ البتہ دو تہائی اکثریت کی حمایت سے آئین میں ترمیم کرکے وہ اس آئینی پابندی کو ترمیم کے ذریعے ختم کر سکتے تھے ۔ انھیں ایوان میں دو تہائی اکثریت حاصل کرنے کے لیے جن دو ووٹوں کی ضرورت تھی ان میں ایک ووٹ اس وقت کے ایک مذہبی سیاسی رہنما کا تھا۔ جنرل ایوب خان کا مقابلہ محترمہ فاطمہ جناح سے تھا اور ملک بھر میں اتفاق رائے یہ تھا کہ اگر ایوب خان عہدے سی علیحدہ ہوکر صدارتی الیکشن میں حصہ لیں گے تو ہار جائیں گے۔
ایک معروف تجزیہ نگارجو حافظ قرآن بھی ہیں، نے لکھا ہے کہ ان صاحب کے اس ووٹ کو لوگوں نے اچھا نہیں سمجھا اور ان کی سیاسی مذہبی جماعت کی جو ساکھ اچھی بن چکی تھی اس کو بھی دھچکا لگا۔ ان صاحب پر اعتراضات ہونے لگے تو انھوں نے اپنے دفاع میں کہا کہ چونکہ حزب اختلاف نے صدارت کے لیے مس فاطمہ جناح کو نامزد کیا تھا اور امکان تھا کہ اگر صدارت چھوڑ کر جنرل ایوب صدارت کا الیکشن لڑتے تو مس فاطمہ جناح پاکستان کی صدر بن جاتی اور اسلامی نقطہ نگاہ سے عورت کا سربراہ مملکت بن جانا غلط ہے۔ یہ ہی اسلامی نقطہ نگاہ سے بہتر تھا اس لیے میں نے ضروری سمجھا کہ پاکستان کا سربراہ مرد کو ہی رہنا چاہیے۔ بعد میں اسی مرد کے خلاف تحریک بھی چلائی۔
انیس سو ستر کے انتخابات میں جمعیت علمائے اسلام نے مرکزمیں سات اور سرحد اسمبلی (خیبر پختونخواہ ) میں چار اور بلوچستان اسمبلی کی تین نشستوں پرکامیابی حاصل کی۔ اس وقت عوامی نیشنل پارٹی کا نام نیشنل عوامی پارٹی تھا اور بلوچستان کے موجودہ قوم پرستوں کی اہم شخصیات بھی باچا خان ،ولی خان کی پارٹی میں شامل تھے۔ اس وقت صوبائی اسمبلی کے کل اراکین کی تعداد چالیس تھی اور چار اراکین رکھنے والے مفتی محمود وزیر اعلیٰ بن گئے۔
یہ بھی پوری دنیا پر واضح ہے کہ عالمی سامراج نے اپنے گماشتوں کے ذریعے ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے خلاف سازشیں کیں۔ مفتی محمود اور ان کی جمعیت نے پاکستان قومی اتحادکے پلیٹ فارم سے حکومت کے خلاف تحریک میں حصہ لیا ۔ بھٹو حکومت کو جنرل ضیاء نے غیر آئینی طور پر برطرف کردیا۔ جمعیت کے رہنما مولانا غلام غوث ہزاروی نے پیپلز پارٹی کی حمایت کی تھی۔ جب مارشل لا ڈکٹیٹر جنرل ضیا ء کو خفیہ انکوائری کے ذریعے پتا چل گیا کہ نوے دن میں انتخابات کرانے کی صورت میں پیپلز پارٹی ہی کامیاب ہوگی تو اس نے الیکشن موخر کردیے۔ مارشل لاء حکومت نے پاکستان قومی اتحاد کی جماعتوں کو حکومت میں شمولیت کی دعوت دی اور جمعیت کے تین وزیر جنرل ضیاء کی حکومت میں شامل ہوگئے اوردس ماہ حکومت میں شامل رہے۔
مفتی محمود کی انیس سو اسی میں وفات کے بعد جمعیت کی قیادت کے معاملے پر جھگڑا ہوگیا اور جناب فضل الرحمان کو قیادت سونپ دی گئی۔ جمعیت کے دوگروپ بن گئے اور اکوڑہ خٹک گروپ نے بعد میں سمیع الحق کو اپنے گروپ کا قائد بنا ڈالا۔ جنرل ضیاء کے غیر جماعتی الیکشن میں بھی جمعیت نے حصہ لیا ۔ انیس سو چورانوے میں جمعیت بے نظیر بھٹو کی پیپلز پارٹی کی اتحادی بن گئی۔ یوں اس جماعت نے ایک عورت کی حکومت کو تسلیم کیا ۔ صدر آصف زرداری سے تعلق کی بنا پر جمعیت حکمران اتحاد کا حصہ بنی۔ حضرت فضل الرحمان ڈاکٹر طاہر القادری کے لانگ مارچ کو غیر منطقی قرار دے چکے ہیں تو اب خود کیوں اس ڈگر پر چل رہے ہیں۔
فقط دو ماہ کی مدت کے لیے بلوچستان پر حکمرانی کی خواہش رکھنے والے حضرات بلوچستان کی برطرف حکومت کے وزیر داخلہ کے بیانات کو کیوں بھول گئے ۔ سابق صوبائی وزیر داخلہ نے کہا تھا کہ بلوچستان کابینہ کے بعض وزراء خود دہشت گردی میں ملوث ہیں۔ اسلم رئیسانی بے حس وزیر اعلیٰ تھے کہ زائرین کی بسوں پر دہشت گرد حملے کے نتیجے میں ہونے والی شہادتوں پر کہا کہ میں کیا کروں ،کہو تو ورثاء کو دو ٹرک ٹشو پیپر بھیج دوں تاکہ وہ اپنے آنسو پونچھ لیں۔ صدر زرداری نے کسی ہزارہ کو تو گورنر نہیں بنادیا جس پر بعض حضرات کی جانب سے اتنا واویلا مچایا جارہا ہے۔ گورنر بلوچستان ذوالفقار مگسی بھی تو بلوچ ہیں۔بلوچستان حکومت کی برطرفی پر پورا ملک مطمئن ہے کیونکہ یہ پاکستان کی آئینی جمہوریت کے عین مطابق ہے۔