سیاسی ورکر اپنا شعور بلند کریں
عام طور پر سیاسی معاملات پرلکھنا آسان کام ہوتا ہے بہ نسبت دیگرموضوعات کے
عام طور پر سیاسی معاملات پرلکھنا آسان کام ہوتا ہے بہ نسبت دیگرموضوعات کے، اورچونکہ سیاسی جماعتوں کا کردار ہمارے یہاں کوئی قابل ذکر نہیں ہے، لہذا کسی بھی واقعے کو اٹھا کر بڑے آرام سے تنقید کیا جاسکتی ہے کیونکہ ہر جماعت اپنی مخالف جماعت کے اچھے کاموں میں بھی ڈھونڈ ڈھونڈ کر وہ خامیاں نکال لیتی ہے جس سے کالم لکھنا کوئی مسئلہ ہی نہیں رہتا۔
قابل غور بات یہ ہے کہ عوام میں سے ایک ایسی تعداد ان سیاسی جماعتوں کو مل جاتی ہے کہ جن کی شرکت سے میڈیا میں یہ شور مچانے کا موقع مل جاتا ہے کہ عوام کی بڑی تعداد نے جلسے جلوسوں میں شرکت کرکے یہ ثابت کر دیا کہ بس یہی جماعت ملک کی واحد نمایندہ جماعت ہے جس کو عوام چاہتے ہیں۔ کراچی شہر میں بھی ان دنوں کچھ ایسا ہی سما ہے اورگرمی کے موسم میں بھی ہر دوسری جماعت کراچی کے شہریوں کے حقوق کے نام پر جلسے جلوس کررہی ہے۔ ایک جماعت کے سربراہ کراچی میں آکرکہتے ہیں کہ کراچی کا پیسہ فلاں ماڈل گرلز کے ذریعے باہر جارہا ہے، کراچی والوں کو پانی نہیں مل رہا ہے وغیرہ وغیرہ ۔ اصل بات یہ ہے ملک اور خاص کرکراچی کے عوام کے حقیقی مسائل کیا ہیں اور ان کا حل کیا ہے؟ اوراس سلسلے میں ان تمام جماعتوں کے نمایندوں نے عملی طور پر اسمبلی اور اسمبلی سے باہرکیا کچھ کیا ہے؟
کراچی کا ایک اہم مسئلہ ٹرانسپورٹ کا ہے،ایک طویل عرصے بعد وفاقی حکومت کی جانب سے اورنج بس کا منصوبہ شروع ہوا ہے، لیکن یہ صرف نارتھ کراچی والے ٹریک کوکورکرے گا، باقی کراچی اس سے محروم رہے گا اور باقی کراچی کے لیے وہی پرانا ٹرانسپورٹ کا نظام ہوگا۔اس منصوبے سے ٹریفک کا دباؤ مزید بڑھ گیا ہے اور مستقبل میں اس دباؤ میں مزید اضافہ ہوتا رہے گا۔گویا اس منصوبے سے عوام کو فائدہ تو ضرور ہوگا مگر عوام کی اکثریت روایتی مسئلے سے دوچار ہے جس میں وہ منی بسوں کی چھتوں تک پر بیٹھ کر سفرکرنے پر مجبور ہے۔ ٹریفک کے نئے ٹریک بنانے سے غریب عوام کا سڑک عبور کرنے کا مسئلہ اور بڑھ گیا ہے کیونکہ بزرگ، خواتین اور بیمار افراد اونچے اونچے پیڈسٹرین پل یا بالائی گزرگاہیں استعمال نہیں کرسکتے انھیں لازماً کسی رکشے یا ٹیکسی کی ضرورت پیش آتی ہے کہ اس میں بیٹھ کر کسی یو ٹرن سے سڑک کے دوسری جانب جا سکیں۔
دوسرا اہم مسئلہ صحت کی سہولیات کا ہے۔ خدانخواستہ کسی کا ایکسیڈنٹ ہوجائے تو اس کا فوری علاج صرف امیر انسان ہی کرا سکتا ہے وہ بھی اس صورت میں کہ اس کے پاس فوری طور پر ایمرجنسی میں ادا کرنے کے لیے ایک بڑی رقم موجود ہو کیونکہ کاوئنٹر پر رقم جمع کرانے کے بعد ہی علاج شروع کیا جاتا ہے۔کسی بھی بڑے آپریشن کی صورت میں امیر ہو یا غریب لاکھوں روپے کا خرچہ آتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ عوام کی بھاری اکثریت جس کے پاس اس کی جمع پونجی بمشکل چند ہزار روپے ہی ہوتی ہے اور جس کوکوئی ایک لاکھ روپیہ ادھار دینے کو بھی تیار نہ ہو وہ بھلا اپنا علاج کیسے کرائے؟ جب کہ ہمارا نعرہ صحت اور تعلیم کی مفت سہولیات کی فراہمی کا ہوتا ہے۔ اہم سوال یہ ہے کہ عوام کو صحت کی عام سہولیات تو درکنارکیا حادثاتی صورت میں بھی کوئی ایسی سہولت فراہم نہیں کی جاسکتی کہ ایک غریب آدمی پہلے آپریشن توکرا لے پھر کچھ رقم کا بندوبست کرتا پھرے؟
ایک اور اہم ترین مسئلہ اس شہرکا یہ ہے کہ مفاد پرست مافیاؤں نے زمین اورمکا نات کے کرائے کی قیمتوں میں نہ صرف بہت زیادہ اضافہ کردیا ہے بلکہ یہ سلسلہ جاری ہے۔ یہاں ایسے بھی نمایندے ہیں جو عوام کے ووٹ لے کر ایوانوں میں پہنچے ہیں اورخود بھی بلڈرز بن گئے ہیں مگر عوام کی ذاتی رہائش کے لیے انھوں نے کوئی منصوبہ پیش نہیں کیا،کراچی شہر میں زمین کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کوکنٹرول کرنے کے لیے کچھ کیا۔
اس شہر میں ایک ایماندار سرکاری افسر ساٹھ گزکا چھوٹا سا گھر یا پلاٹ بھی نہیں خرید سکتا اور مذاق یہ ہے کہ ہر کوئی عوامی رہنما بن کر اس شہر کے لوگوں کے مسائل حل کرنے کے نعرے لیے آ جا تا ہے۔ کیا ان نعرے دینے والوں نے کبھی پبلک ٹرانسپورٹ میں سفرکیا؟ کبھی سرکاری اسپتال میں بغیر پروٹوکول کے جاکر اپنا علاج کرانے کی کوشش کی؟ کیا یہ ساٹھ، اسی یا ایک سو بیس گزکے گھر میں رہتے ہیں اور وہاں کے مسائل جانتے ہیں کہ جب بجلی چلی جائے تو سانس بھی لینا کس قدر دشوار ہوجاتا ہے؟ کراچی سے حیدرآباد تک چلے جائیں، زمینیوں کا جنگل ہے مگر عوام کے نصیب میں نہیں، یہ جنگل بھی بڑے بڑے سرمایہ داروں کوکوڑیوں کے مول دیا جا رہا ہے کہ وہ اس جنگل کی زمین کو بھی ان ہی شہریوں کو سونے کے بھاؤ فروخت کردیں اور یہی کچھ ہو رہا ہے کہ اس طرح اب شہرکے اندر زمینوں کی قیمتوں میں اس لیے مزید اضافہ ہوگا کہ جنگل کی زمین پر بھی پروجیکٹ بنا دیے گئے ہیں۔
اتنا اہم ایشو کسی جماعت کے نعرے یا ایجنڈے میں شامل کیوں نہیں؟ وہ اس پر ایوانوں میں آوازکیوں نہیں اٹھاتے؟ منصوبے عوام کے لیے پیش کیوں نہیں کرتے؟( واضح رہے کہ راقم کے ہی پچھلے کالم میں اس طرف توجہ دلانے پر ایم این اے کشور زہرہ نے نہ صرف نوٹس لیا بلکہ وعدہ کیا کہ اس پر قومی اسمبلی میں بل پیش کریں گی، پھر انھوں نے اپنے وعدے کے مطابق بل پیش کرکے راقم کو اس کی ایک نقل بھی میل کی ہے جس پر آیندہ کالم میں تفصیلی بات ہوگی۔)
بہرکیف بحیثیت مجموعی عوام کے اہم مسائل پر ہماری جماعتیں ٹھوس انداز میں توجہ نہیں دیتیں اور جس کی ایک بڑی وجہ جو سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ ایک تو یہ لوگ اپنی الگ وی آئی پی زندگی گزار رہے ہیں جس میں پبلک ٹرانسپورٹ، موٹر سائیکل پر یا رکشے، ٹیکسی میں سفرکا کوئی تصور ہی نہیں، نہ ہی چھوٹے مکانات میں زندگی گزارنے کا تصور ہے اور نہ ہی کسی سرکاری اسپتال اورتعلیمی ادارے میں عوام کے ساتھ علم حاصل کرنے یا علاج کرانے کا قطعی کوئی تصور ہے۔
بات یہ ہے کہ یہ عوامی نمایندے اپنی پالیسی اس وقت تک نہیں بدلیں گے، جب تک عوام کی کچھ تعداد ان کے پچھے دھوپ اورگرمی میں جاکر نعرے لگاتی رہے گی اور انھیں سیاست کرنے اور میڈیا پرآنے کا موقع فراہم کرتی رہے گی۔ آج کا پیغام صرف ان لوگوں کے لیے ہے جو سخت گرمی میں بھی اپنی جماعتوں کے جلسے جلوسوں میں گھنٹوں نعرے لگاتے ہیں اور اپنے ان رہنماؤں کو سیاست کرنے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔
ایسے محنتی اورایماندار ورکروں کو چاہیے کہ وہ اپنی جماعت سے مطالبہ کریں کہ وہ عملاً عوام کے مسائل کے حل کے لیے پروگرام پیش کریں اورصرف اس پروگرام پر عمل کرنے کے لیے احتجاج کریں اور اس سے قبل پارٹی ورکروں کے مسائل حل کریں یعنی اپنے ورکروںکو پہلے اپنے پاس سے تعلیم اورعلاج کی مفت سہولت فراہم کرنے کا بندوبست کرائیں اور جو بیروزگار ورکر ہیں انھیں کاروبارکے لیے قرضے خود دیں یا کسی سے دلائیں، اسی طرح کرائے کے مکانات میں رہنے والے ورکروں کو قسطوں پر مکان یا فلیٹ وغیرہ دلوائیں،اگرکوئی جماعت اپنے ورکروں کے لیے یہ نہیں کرسکتی تو وہ بھلا اس ملک کے کروڑوں عوام کے یہی مسائل کیسے حل کرے گی؟