جوش اور فیض کی فلمی شاعری حصہ دوم
جوش ملیح آبادی نے بڑے اصرار کے بعد فلم ’’آگ کا دریا‘‘ کے لیے گیت لکھے تھے
LONDON:
ان دنوں جوش صاحب کا لکھا ہوا یہ گیت پاکستان کے ہر ریڈیو اسٹیشن سے دن میں کئی کئی بار نشر ہوتا تھا۔ یہ فلم اپنے دور کی کامیاب ترین فلم تھی اور 1968ء میں اس گیت پر جوش صاحب کو نگار پبلک فلم ایوارڈ سے نوازا گیا تھا ''آگ کا دریا'' میں اس گیت کے علاوہ بھی کئی گیت ہٹ ہوئے تھے جن میں میڈم نور جہاں کا گایا ہوا ایک گیت جس کے بول تھے:
من جا من جا بالم من جا
نہ ٹھکرا میرا پیار ہو
ان دو گیتوں کے علاوہ اس فلم میں ایک قومی نغمہ بھی لکھا گیا تھا۔ جس کے الفاظ دل میں اترتے چلے جاتے ہیں۔ یہ بھی ''آگ کا دریا'' کا ایک لازوال اور یادگار گیت تھا جسے مسعود رانا نے گایا تھا جس کے بول تھے:
اے وطن ہم ہیں تری شمع کے پروانوں میں
زندگی ہوش میں ہے جوش ہے ایمانوں میں
دل عشاق کی مانند یہ تپتے میداں
یہ لچکتے ہوئے جنگل یہ تھرکتے ہوئے ارماں
یہ پہاڑوں کی گھٹاؤں میں جوانی کی اٹھان
یہ مچلتے ہوئے دریاؤں میں انگڑائی کی شان
کتنے روشن ہیں دیے ترے شبستانوں میں
تیرے مزدور کی آنکھوں کے شرارے لے کر
تیرے دہقاں کے ماتھے کے ستارے لے کر
چاندنی بوئیں گے جھلسے ہوئے میدانوں میں
ہم تجھے آگ کا دریا نہیں بننے دیں گے
ظلم و نفرت کا تماشا نہیں بننے دیں گے
تجھ کو پالیں گے محبت کے گلستانوں میں
جوش ملیح آبادی نے بڑے اصرار کے بعد فلم ''آگ کا دریا'' کے لیے گیت لکھے تھے اور پھر وہ دوبارہ سے ادبی دنیا میں لوٹ گئے تھے۔ لیکن کچھ عرصے کی فلمی دنیا سے وابستگی میں ایک اور معرکۃ الآرا فلم جوش صاحب کے کریڈٹ پر ہے جس کا نام تھا ''قسم اس وقت کی''۔ اس فلم میں موسیقار سہیل رعنا نے جوش ملیح آبادی کی مشہور نظم ''قسم اس وقت کی'' کو فلم کا ٹائٹل سانگ بنایا تھا۔ جس کے بول تھے:''قسم اس وقت کی جب زندگی کروٹ بدلتی ہے'' جسے مجیب عالم نے گایا تھا۔ یہ ایک ڈاکومنٹری ٹائپ کی فلم تھی، جسے عوام میں پذیرائی حاصل نہ ہوسکی تھی اور یہ صرف آرمی کے ادارے کی مخصوص فلم ہو کر رہ گئی تھی۔ جوش ملیح آبادی نے پھر کسی فلم کے لیے اپنی کوئی نظم یا کوئی گیت نہیں دیا ۔ بہت کم فلموں کے لیے لکھا مگر جو کچھ بھی لکھا بہت خوب لکھا اور فلمی دنیا کے لیے جسے ایک اعزاز قرار دیا گیا۔
اب میں ایک اور نامور اور ترقی پسند شاعر فیض احمد فیض کی فلمی شاعری کی طرف آتا ہوں۔ فلمی دنیا کے لیے یہ بات بڑی باعث فخر ہے کہ فیض جیسے عظیم شاعر کی بھی فلمی دنیا سے وابستگی کچھ عرصے تک رہی ہے۔ فیض نے کبھی خود فلمی دنیا سے اپنی دلچسپی کا اظہار نہیں کیا، جب کہ فلمی دنیا نے فیض کے اشعار، فیض صاحب کی نظمیں اور فیض کی غزلوں کو فیض کی اجازت کے ساتھ فلمی دنیا کا حصہ بنایا تھا۔ فیض احمد فیض اردو شاعری میں بہت شہرت کے ساتھ ساتھ ہمیشہ ہی سے بڑے احترام کے حامل رہے ہیں۔
فیض احمد فیض 12 فروری 1911ء میں سیالکوٹ کے ایک چھوٹے سے قصبے میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم سیالکوٹ کے اسکول اور پھر لاہور میں بقیہ تعلیم حاصل کی۔ انگلش، عربی میں ایم اے کرنے کے بعد ابتدا میں امرتسر کے ایک کالج میں بحیثیت انگریزی کے استاد، درس و تدریس کے شعبے کو اپنایا پھر کچھ عرصہ فوج کے ادارے میں بھی ملازمت کی اور کرنل کے عہدے تک پہنچے مگر جیسے جیسے شاعری کی طرف رجحان بڑھتا گیا۔
ملازمت سے دل ہٹتا چلا گیا اور پھر فیض احمد فیض اردو ادب کی ترقی پسند تحریک کا حصہ بننے کے ساتھ ساتھ کمیونسٹ تحریک کے ہراول دستہ میں بھی شامل ہوگئے اور کمیونزم کی طرف رجحان بڑھتا آیا۔ جب ماسکو سے ان کے رابطوں کا علم ہوا تو پھر پاکستان میں فیض احمد فیض کو قید و بند کی صعوبتوں سے بھی دوچار ہونا پڑا۔ ہندوستان کی تقسیم کے بعد فیض کی شاعری کو شہرت ملتی چلی گئی تھی اور فیض پاکستان بننے کے بعد صف اول کے شاعر گردانے جاتے تھے اور شعر و ادب کی دنیا میں ہر طرف فیض احمد فیض کا ہی چرچا ہونے لگا تھا۔
فیض احمد فیض لاہور کے انگریزی اخبار ''پاکستان ٹائمز'' اور اردو روزنامہ ''امروز'' کے ایڈیٹر بھی رہے۔ فلمی دنیا سے فیض کی بحیثیت فلمی شاعر وابستگی تقسیم ہند سے پہلے ہی ہوچکی تھی۔ میڈم نورجہاں کا بحیثیت گلوکارہ وہ ابتدائی دور تھا اور سب سے پہلے نورجہاں نے ریڈیو کے لیے فیض احمد فیض کی ایک نظم ریکارڈ کرائی تھی جس کے بول تھے:
آج کی رات ساز دل پر درد نہ چھیڑ
دکھ سے بھرپور دن تمام ہوئے
اور کل کی خبر کسے معلوم
دوش و فردا کی مٹ چکی سب حدود
ہو نہ ہو اب سحر کسے معلوم
آج کی رات ساز دل پر درد نہ چھیڑ
ریڈیو کے لیے اس نظم کی دھن موسیقار جی۔اے چشتی نے بنائی تھی ۔ پھر یہی نظم فلمساز و ہدایت کار شوکت حسین رضوی نے اپنی فلم ''جگنو'' میں استعمال کی اور مکھڑا وہی رکھا۔
آج کی رات ساز دل پر درد نہ چھیڑ
اور اس کے انترے گیت کی صورت میں شاعر اصغر سرحدی سے لکھوائے گئے تھے، ایک انترہ درج ذیل ہے:
قول الفت کا جو ہنستے ہوئے تاروں نے سنا
بند کلیوں نے سنا مست بہاروں نے سنا
سب سے چھپ کر جسے دو پریم کے ماروں نے سنا
خواب کی بات سمجھ اس کو حقیقت نہ بنا
آج کی رات ساز دل پر درد نہ چھیڑ
اور فلم ''جگنو'' میں اس گیت کی موسیقی فیروز نظامی نے مرتب کی تھی اور اس گیت کو نور جہاں اور دلیپ کمار پر فلمایا گیا تھا۔ ''جگنو'' کے بعد دوسری فلم فلمساز و اداکار اشوک کمار کی فلم ''محل'' تھی جس کے مصنف و ہدایت کار کمال امروہی تھے اس فلم میں فیض کی ایک غزل کے دو مصرعے استعمال کیے گئے تھے۔
دونوں جہاں تیری محبت میں ہار کے
وہ جا رہا ہے کوئی شب غم گزار کے
ان دو مصرعوں کو دوہے کی صورت گلوکار محمد رفیع نے گایا تھا۔ اور اس طرح فیض کی شاعری کو فلموں میں استعمال کیا گیا تھا۔ مگر باقاعدہ کسی فلم کے لیے فیض احمد فیض کی خدمات فلمساز و ہدایت کار اے۔جے کاردار نے اپنی فلم ''جاگو ہوا سویرا'' میں حاصل کی تھیں جس کے مکالمے بھی فیض صاحب نے لکھے تھے۔
فیض نے پہلی بار باقاعدہ طور پر فلم ''جاگو ہوا سویرا'' کے لیے مکالمے، اسکرین پلے، اور ٹائٹل سانگ لکھا تھا، یہ فلم مشرقی پاکستان میں ڈھاکہ کے قریب میگھنا دریا کے پاس ایک مچھیروں کی بستی بسا کر فلم کی عکس بندی کی گئی تھی، اور 25 مئی 1959 کو ریلیز ہوئی تھی یہ فلم فیچر فلم نہیں تھی ایک ڈاکومنٹری قسم کی فلم تھی۔ اب میں فیض صاحب کی اس فیچر فلم کی طرف آتا ہوں جس کے فلمساز مشہور کیمرہ مین مسعود پرویز تھے۔ وہ فلم تھی ''سکھ کا سپنا'' اس فلم میں فیض صاحب نے باقاعدہ فلمی سچویشن کی مناسبت سے ایک خوبصورت لکھا تھا جس کے بول تھے:
شام ہوئی تو گھر آجا
دل ترسے رہا نہ جائے
کہا نہ جائے ' ہائے
ڈوبے یاد کے چاند ستارے
ٹوٹ گئے سب آج سہارے
کون اب آئے آس بندھائے' رہا نہ جائے
ناحق راہ دکھائی دل نے
ناحق آس لگائی دل نے
ناحق سیج سجائی دل نے
ناحق دیپ جلائے ' تم نہ آئے
اس گیت اور فلم کی موسیقی ثمر برن نے دی تھی۔ یہ فلم 1962 میں نمائش پذیر ہوئی تھی مگر اس فلم کو عوامی پذیرائی حاصل نہ ہوسکی تھی۔ فیض صاحب کو ایک اور فلم ''دور ہے سکھ کا گاؤں'' کے لیے گیت لکھنے کا موقعہ ملا تھا۔ مگر وہ فلم شروع ہونے کے بعد ہی تعطل کا شکار ہوگئی تھی۔
(جاری ہے)