مصباح الحق سیریز جیتنے والے پہلے کپتان بن پائیں گے

بارباڈوس نے اعتماد پر کاری ضرب لگا دی۔


Mian Asghar Saleemi May 07, 2017
مصباح الحق آخری بار ٹیسٹ کرکٹ میں پاکستان کے لیے ٹاس کریں گے۔ فوٹو : فائل

جمیکا ٹیسٹ میں قومی ٹیم کی کامیابی کے بعد پی سی بی اور کرکٹ حلقوں میں جشن کا سا سماں تھا، ہر کوئی کپتان مصباح الحق سمیت ٹیم کے دوسرے کھلاڑیوں کی شان میں قصیدے پڑھنے میں پیش پیش تھا لیکن میرے ایک دوست سابق ٹیسٹ کرکٹر کا خیال تھا کہ شاید گرین کیپس فتح کا تسلسل دوسرے ٹیسٹ میں جاری نہ رکھ سکیں۔

شائقین کی طرح میں نے بھی مصباح الحق الیون کے حق میں طرح طرح کی تاویلیں پیش کیں، ویسٹ انڈیز کے خلاف حالیہ ٹوئنٹی20 اور ایک روزہ سیریز میں فتوحات کے حوالے دیئے لیکن وہ کرکٹر کسی بھی طرح میری بات تسلیم کرنے کو تیار نہ تھے،ان کا کہنا تھا کہ میں اپنی زندگی کا بڑا حصہ کھیل کے عالمی میدانوں میں گزارنے کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ پاکستان دنیا کی وہ واحد کرکٹ ٹیم ہے جو بڑی سے بڑی ٹیم کو ہرا بھی سکتی ہے اور کمزور سے کمزور سائیڈ سے ہار بھی سکتی ہے۔

دوسرے ٹیسٹ کا رزلٹ خلاف توقع آیا تو اور شائقین کی طرح میں بھی یہ سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ اظہر علی، احمد شہزاد، مصباح الحق، یونس خان، بابر اعظم اور اسد شفیق کی موجودگی میں قومی ٹیم دوسری اننگز میں صرف 36 رنز پر7 اور تمام وکٹیں محض81 رنز پر کیسے گنوا بیٹھی؟

سمجھنے اور محسوس کرنے کی بات تو یہ بھی ہے کہ موجودہ ویسٹ انڈیز وہ ٹیم تو نہیں ہے کہ جسے ماضی میں ہولڈنگ، کلارک، گارنر، کرافٹ، میلکم مارشل، کورٹی والش اورکرٹلی امبروز جیسے فاسٹ بولرزاور ویون رچرڈز، گورڈن گرینج،کالی چرن، رائے فریڈرکس اور کلائیو لائیڈ جیسے ممتازبیٹسمینوں کی خدمات حاصل ہوتی تھیں، اور تو اور موجودہ میزبان ٹیم کو تو مارلون سموئلز اور ڈیرن براؤو سمیت کئی سینئرز کا ساتھ تک بھی حاصل نہ تھا لیکن ان پلیئرز کی عدم موجودگی کے باوجود قومی ٹیم کا ٹیسٹ میچ ہار جانا کسی عجوبے سے کم نہیں ہے۔

ویسٹ انڈیز کے ماضی کے دوروں کے دوران پاکستان کرکٹ ٹیم کو ہمیشہ ہی تلخ وشیریں واقعات کا سامنا رہا ہے، اسی سرزمین پر ایشین بریڈ مین ظہیر عباس سوئمنگ کے دوران ڈوبتے ڈوبتے بچے تھے، سلیم الطاف سیڑھیوں سے گرنے کی وجہ سے اپنا ٹخنہ تڑوا بیٹھے تھے، جاوید میانداد، اقبال قاسم سمیت قومی ٹیم کے متعدد پلیئرز مینڈک کے گوشت کو چکن سمجھ کر کھا بیٹھے تھے اور کالی آندھی کے دیس میں ہی وسیم اکرم سمیت4 قومی کرکٹرز کو منشیات استعمال کرنے کے سکینڈل کا بھی سامنا کرنا پڑا تھا لیکن بارباڈوس میں پاکستانی کرکٹ ٹیم کی ڈرامائی شکست نے ایک اور تلخ یاد کا اضافہ کر دیا ہے۔

ویسٹ انڈیز کے خلاف پہلا ٹیسٹ جیت کر مصباح الحق نے اسے ٹیم کی جانب سے تحفہ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ یہ جیت بھی مجھے اپنی زندگی کی حسین یاد کی طرح لطف دیتی رہے گی، مگر شاید مصباح الحق کا مچلنا قبل از وقت تھا کیونکہ ان کے علم میں نہیں تھا کہ دوسرے ٹیسٹ میں کیا ہونے جارہا ہے، پھر شائقین نے وہ مناظر بھی دیکھے کہ جمیکا ٹیسٹ میں فتح وکامرانی کی تاریخ رقم کرنے والے بارباڈوس میں ڈھیر ہو چکے تھے، سب نے یہ بھی دیکھا کہ دوسرے ٹیسٹ میں شطرنج جیسی ایسی ایسی چالیں نظر آئیں کہ شاید اتنے پلٹے کسی اور ٹیسٹ میں دیکھنے کو ملے ہوں جتنے بارباڈوس ٹیسٹ میں دیکھنے کو ملے، بنا گھاس کی پچ پر محسوس ہو رہا تھا کہ فاسٹ بولرز یہاں کچھ نہیں کر پائیں گے۔

بیٹسمینوں کی موجیں ہوںگی اور سپنرز کے ہاتھوں میں بھی مخصوص وکٹیں ہی آئیں گی اور ویسٹ انڈیز کی پہلی اننگز کا سکور دیکھ کر اندازہ ہونے لگا کہ شاید یہ میچ ڈرا کی جانب جائے گا، مگر یونس خان اورمصباح الحق سمیت ان کے جانشینوں نے وہی کیا جو وہ ماضی میں کرتے آئے تھے، ویسٹ انڈیز کی آخری اننگز میں یاسر شاہ نے میزبان سائیڈ کے بیٹسمینوں کی ایسی حجامت بنائی کہ پاکستان کو جیتنے کے لیے محض 188 رنز کا ہدف ملا۔

پویلین میں بیٹھے مصباح الحق کو کیا اندازہ تھا کہ کرکٹ میں اس وقت کی کمزور ترین ٹیم کے فاسٹ بولرز ان کے شاہینوں کے لیے کس قدر تباہ کن ثابت ہوں گے اور ان کا چن چن کر ایسا شکار کریں گے کہ تاریخ یاد رکھے گی، پہلی اننگز میں نوبالز کا انبار لگانے والے شینن گبریئل محض ایک نو بال کے ساتھ ٹیم کے اہم کھلاڑیوں کو پویلین کی راہ دکھا دے گا اور شکست قومی ٹیم کا مقدر ٹھہرے گی۔

جیتی ہوئی ٹیسٹ کی بازی ہاتھ سے نکل جانے کے بعد کئی اہم اعدادوشمار اور ریکارڈزتبدیل ہوئے، 81رنزپر ڈھیرہوکر پاکستان نے برج ٹاؤن میں کسی بھی ٹیسٹ میچ کی ایک اننگزمیں کم ترین مجموعی سکورپربھارتی ریکارڈ برابر کیا، پاکستان ٹیم برج ٹاؤن میں کھیلے گئے سات ٹیسٹ میچوں میں کبھی فاتح نہیں بنی جبکہ بھارتی ٹیم یہاں9 ٹیسٹ کھیل کر بھی کوئی فتح حاصل نہیں کر سکی۔

پاکستان ٹیم حالیہ ٹیسٹ میں یہاں188رنزکا ہدف عبورکرنے میں ناکام رہی تو یہ برج ٹاؤن میں محض دوسرا موقع تھا جب کوئی ٹیم 190یا کم رنز کا ہدف عبورکرنے میں ناکام رہی ، ٹیسٹ کے آخری روز پاکستان ٹیم 188رنزکے ہدف کا تعاقب کرتے ہوئے 36کے مجموعی سکورپرسات وکٹیں گنوابیٹھی جو دونوں ممالک کے درمیان کسی بھی ٹیسٹ میچ میں 7وکٹیں گرنے پر کم ترین رنز کا مشترکہ طورپر بدترین ریکارڈ ہے۔اس سے قبل ویسٹ انڈیز کو 1986ء میں فیصل آبادکے مقام پر 36/7کی صورتحال سے دوچار ہونا پڑاتھا۔

پاکستان ٹیم کی اس ناقص کارکردگی پر ایک لطیفہ یاد آ رہا ہے،کرکٹ کا ایک کھلاڑی علاج کی غرض سے ڈاکٹر کے پاس گیا اور کہا کہ میں ایک عجیب مرض میں مبتلا ہوں، مجھ سے رنز بنتے ہیں اور نہ ہی بولنگ ہوتی ہے، فیلڈنگ کرتے وقت بھی میرا دم گھٹنے لگتا ہے، کیچ کے وقت گیند نظر نہیں آتی، بتائیے ڈاکٹر صاحب میں کیا کروں، ڈاکٹر نے کہا کہ تمہارے مرض کا ایک ہی علاج ہے کہ کرکٹ کھیلنا چھوڑ دو، ناممکن۔۔۔۔۔ کھلاڑی بولا، مجھے قومی ٹیم میں شامل کر لیا گیا ہے، یہی حال پاکستان کرکٹ ٹیم کا بھی ہے۔

افسوس صد افسوس پی سی بی کی سابق اور موجودہ سلیکشن کمیٹیوں کی مہربانیوں سے متعدد ایسے کھلاڑی قومی سکواڈ کا حصہ بننے میں کامیاب ہوتے رہے ہیں جن کی صورتحال ڈاکٹرکے پاس علاج کے لئے جانے والے کھلاڑی سے مختلف نہیں ہوتی،ایک کھلاڑی اگر کسی ایک میچ میں عمدہ کارکردگی دکھانے میں کامیاب ہو بھی جاتا ہے تو اگلے تین، چار میچوںمیں اس کی پرفارمنس آسمان سے زمین پرآ جاتی ہے، کیوں؟ اور اس کیوں کا جواب شاید پی سی بی کے ارباب اختیار میں سے کسی کے پاس بھی نہیں۔

10 مئی کو ڈومینیکا میں وہ میدان لگنے جارہا ہے جب کرکٹ کی خوبصورتی اور پیچ و خم کو سمجھنے والے بجھے دل کے ساتھ ٹی وی آن کریں گے ، بجھے دل کے ساتھ اس لیے کہ یہ مصباح الحق اور یونس خان کا بین الاقوامی کرکٹ میں آخری میچ ہوگا۔

مصباح الحق آخری بار ٹیسٹ کرکٹ میں پاکستان کے لیے ٹاس کریں گے، کرکٹ سمجھنے والوں کو اس کیفیت کا خوب اندازہ ہے جو اس وقت مصباح الحق کی ہوگی، شاید مجھے بھی وہ الفاظ نہیں مل رہے کہ آپ کے لیے وہ سماں باندھ سکوں جب مصباح الحق ٹاس کررہے ہونگے۔وہ کیا منظر ہوگا جب یہ دو عہد ساز کھلاڑی اپنی ٹیم سے میچ سے قبل رات کو میٹنگ میں اپنی ساتھیوں سے یہ کہیں گے کہ ہم کو زیادہ خوشی ہوگی اگر آپ اپنی کارکردگی سے یہ یادگار ٹیسٹ میچ جیت کر دیں۔

چیئرمین پی سی بی شہریار خان نے مصباح الحق کو عمران خان سے بھی بڑا کپتان قرار دے کر نئی بحث تو چھیڑ ہی دی ہے،عمران خان نے تو اپنے کیریئر کا اختتام ورلڈ کپ 1992ء کے جیتنے کے ساتھ کیا تھا، اب دیکھنا یہ ہے کہ مصباح الحق کس انداز میں انٹرنیشنل کرکٹ کو گڈ بائی کہتے ہیں، آیا کہ وہ ویسٹ انڈیز کے خلاف اسی کی سرزمین پر ٹیسٹ جیتنے والے پہلے کپتان ہونے کا اعزاز حاصل کرنے میں کامیاب رہتے ہیں یا انہیں ایک اور ناکامی کے سائے میں انٹرنیشنل کرکٹ کو خیر باد کہنا پڑے گا۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں