وقت کی ضرورت
ہمیں نئی لیکن خراب چیزوں سے معاملہ کرنا ہے، اعلیٰ لیکن پرانی چیزوں سے کوئی دلچسپی نہیں ہے،
طاہر القادری سے منسلک اس عوامی ''واقعے'' نے مختلف النوع طبقہ ہائے فکر کے حوالے سے جہاں ایک طرف عملی و فکری سطح پر متضاد رجحانات کو جنم دیا ہے تو وہاں اکیسویں صدی میں بائیں بازو کے دانشوروں کو بھی یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ مستقبل میں ایسے واقعات کی نوعیت اور ان کی اہمیت کن حوالوں سے طے کی جا سکتی ہے۔ اس ''واقعے'' میں مضمر بے چینی، انتشار، کشمکش واضح طور پر حکمران جماعتوں کے ظلم و تشدد، ان کی برپا کردہ استحصال و ناانصافی، انسانی حقوق کی پامالی کا نتیجہ ہے اور جسے یہ حکمران ہمہ وقت بورژوازی کے حق میں استعمال کرتے رہتے ہیں۔
بلاشبہ اس ''واقعے'' میں ایسا بہت کچھ ہے جسے عوام کی بہتری اور انقلابیت کی حمایت کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ بائیں بازو کے دانشوروں کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ حکمران طبقات کے ایسے کمزور لمحات، جن میں خود کو بے بس محسوس کرتے ہیں، حقیقت میں وہی پسے ہوئے، استحصال زدہ اور مظلوم لوگوں کی طاقت ہوا کرتے ہیں جن کا عوام دوست لوگوں کو ہمیشہ استقبال کرنا چاہیے۔ پاکستان میں ایک غالب اکثریت مارکسسٹ نمایندوں کی ہے، جو مارکس اور اینگلز کی تصانیف میں مضمر مافیہا (Content) کو حرفِ آخر کا درجہ دیتے ہیں۔
قطع نظر اس سے کہ اس پہلو سے متعلق انتونیو گرامشی اور جارج لوکاش جیسے مفکر خبردار کر چکے ہیں۔ ایسی سوچ کے ساتھ چمٹے رہنے کا مقصد انیسویں صدی سے آگے نہ بڑھنے کے مترادف ہے۔ جارج لوکاش نے اپنی کتاب ''تاریخ اور طبقاتی شعور'' میں اذعانی مارکسیت کو مسترد کر دیا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ مارکسیت کو ایک طریقہ کار کے طور پر سمجھنے کی ضرورت ہے۔ مطلب یہ کہ ایک ایسا طریقۂ کار جسے نئے زمانے میں جنم لینے والے واقعات کی تفہیم کے لیے بروئے کار لایا جا سکے۔ 1968میں جب طلبا انقلاب آیا تو لوئی التھیوسے جیسے مفکر اس سوچ میں مبتلا رہے کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ ایسے لوگ واقعات کو اپنی مرضی کا پابند کرنا چاہتے ہیں، جو کہ ممکن نہیں ہوتا۔ پاکستان کے بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے بھی اس ذہنی انتشار میں مبتلا ہیں کہ یہ کیا ہو رہا ہے، مارکس نے تو ایسا نہیں کہا تھا۔
بیسویں صدی کے انقلابی نقاد، ڈراما نگار برتولت بریخت نے لکھا تھا کہ ہمیں نئی لیکن خراب چیزوں سے معاملہ کرنا ہے، اعلیٰ لیکن پرانی چیزوں سے کوئی دلچسپی نہیں ہے، ایسی اشیا صرف تسکین کا سبب ہوتی ہیں ۔ اذعانی مارکسیت کے یہ نمایندے جہاں واقعات کی حرکت اور انسانی شعور پر اس کے اثرات کو نہیں سمجھ پاتے وہاں وہ مارکسیت کے ہی ایک اور اہم درس کو بھی نظر انداز کر رہے ہیں: وہ یہ کہ مارکسیت میں ''شخصیات'' کی حیثیت محض آخری تجزیے میں ہی طے کی جا سکتی ہے۔ لوئی بونا پارٹ کی اٹھارویں برومیئر کو مارکس شروع ہی یہاں سے کرتا ہے کہ بلاشبہ انسان اپنی تاریخ خود بناتے ہیں لیکن وہ تاریخ کو ایسا نہیں بنا سکتے جیسا کہ وہ چاہتے ہیں، بلکہ وہ ان ٹھوس حالات کے پابند ہوتے ہیں جن کے تحت ہی تاریخ کوئی واضح شکل اختیار کرتی ہے۔
یہ بات صرف مارکسیوں کو مارکس یا اپنے اوپر ہی لاگو کرنے کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ اسے طاہر القادری پر بھی لاگو کر کے دیکھنا ہو گا۔ عوام کا حقیقی مسئلہ یہ نہیں ہے کہ وہ شخصیات کے بدلے ہوئے چہرے دیکھیں، ان کا حقیقی مسئلہ سچی جمہوریت کی خواہش ہے، جمہوریت کے نام پر لوٹ مار، استحصال، ناانصافی، اقربا پروری اور اس لعنت سے نجات حاصل کرنا ہے جس کا ارتکاب گزشتہ پانچ برس سے پاکستان کی حکمران جماعتیں باہمی گٹھ جوڑ سے کر رہی ہیں۔ اگر مارکس نے درست قانون اخذ کر لیا تھا اور مارکس وادی اس پر یقین کرتے ہیں تو انھیں صرف خود پر ہی نہیں طاہر القادری پر بھی اسی قانون کا اطلاق کرنا ہو گا کہ فیصلہ کن مرحلہ اجتماعی عوامی شعور ہی کے ذریعے طے کیا جاتا ہے۔ میں اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ کوئی وجہ نہیں ہے کہ طاہرالقادری ان حالات سے باہر کسی اسلام کے نفاذ کو ممکن بنا سکیں، جنہوں نے عوام کو اس قسم کے پوسٹر اٹھانے پر مجبور کیا ہے۔ گزشتہ برس جب برطانیہ میں انقلابی صورتحال نے جنم لیا تو لوٹ مار کا آغاز ہو گیا۔
عہد حاضر کے ایک اہم فلسفی سلیوو زیزیک نے لکھا کہ برطانیہ میں لوگوں کے ہاتھوں میں نہ پوسٹر تھے اور نہ ہی ان کے ذہن میں کوئی ''معنی'' موجود تھا، وہ بے سمت تھے۔ لیکن عرب انقلاب کے بعد پاکستان میں موجود عوامی اجتماع میں دیکھا گیا ہے کہ عوام کو اپنے اہداف کا بخوبی علم ہے۔ انھوں نے جو بینر اور پوسٹر اٹھا رکھے تھے ان پر یہ لکھا ہوا تھا کہ حقیقی جمہوریت، انصاف کی بالادستی اور مساوات کی خواہش رکھتے ہیں۔ رہی بات پاکستان کے لبرل ازم کے بانیوں کی تو وہ ایک عرصے سے گمراہ کن خیالات کو پروان چڑھا رہے ہیں۔ یہ لوگ ہر طرح کی نظریاتی و فکری بنیادوں سے محروم ہیں۔ یہ لوگ شخصیت پرستی کے حصار میں اس حد تک مقید ہیں کہ انھیں اس بات سے کوئی غرض ہی نہیں ہے کہ عوام کا یہ ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر انصاف، انسانی حقوق، مساوات اور قانون کی حکمرانی کی بات کرتا ہے۔ انھیں حکمران طبقات کی بدعنوانی، ڈاکے، رشوت ستانیاں ، دہشت گردی اور ظلم و بربریت کے واقعات طاہر القادری کی داڑھی کو دیکھتے ہی واہمہ دکھائی دینے لگتے ہیں۔
ان کا مسئلہ صرف داڑھی ہے، بھوک ننگ، استحصال، ظلم و بربریت نہیں! ان کا موازنہ ان مارکسی مفکروں سے کیا جا سکتا ہے جن کا حد سے بڑھا ہوا الحاد اور مذہب دشمنی پاکستان جیسے معاشرے میں مذہبی لوگوں کے لیے تاریخی مادیت اور جدلیاتی مادیت جیسے اعلیٰ طریقۂ کار کو قابل نفرت بننے پر مجبور کر دیتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ واقعات کو ان کی حرکت میں دیکھا جائے اور عوام کے مطالبات کو ملحوظِ خاطر رکھا جائے۔
اکیسویں صدی میں ''واقعات'' کی اہمیت و افادیت کو بالکل ایک مختلف نظر سے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اس سطح اور نوعیت کے ''واقعات'' خواہ مخواہ ظہور پذیر نہیں ہوتے۔ اگر حالات نظام کی تبدیلی کے لیے تیار نہ ہوتے تو طاہر القادری کبھی بھی اس قسم کا اقدام اٹھانے کی جرأت نہ کرتے۔ اگر پاکستان میں حکمران جماعتوں کا ظلم و جبر حد سے تجاوز نہ کرتا تو یہ ''واقعہ'' جنم ہی نہ لیتا۔ حیرانی اس بات پر ہے کہ مادیت کا درس دینے والے کتنی جلدی عینیت کی گود میں جا کر بیٹھ جاتے ہیں۔ عقلیت سے دست بردار ہو کر غیر عقلیت کا شکار ہو جاتے ہیں۔
سماج میں اس نوع کے واقعات کسی کی ذاتی خواہش کا نتیجہ نہیں ہوتے، سماجی تضادات کا عکس ہوتے ہیں اور جب واقعات رونما ہوتے ہیں تو پھر یہ جاننا ہے بھی اہم ہوتا ہے کہ ایسے واقعات سے کیا برآمد ہوتا نظر آ رہا ہے اور کون سے پہلو حذف ہوتے دکھائی دیتے ہیں؟ توجہ کریں کہ کس طرح 9/11 کے واقعے کو بنیاد بنا کر امریکی عوامی شعور کو گمراہ کیا گیا اور بعد ازاں ظلم، تشدد اور دہشت گردی کا آغاز کر دیا گیا۔ اگر وہ واقعہ نہ ہوتا تو امریکا کے پاس جنگ کا جواز نہ ہوتا۔ آج بائیں بازو کے حمایتیوں کے پاس بھی موقع ہے کہ وہ اس واقعے سے فائدہ اٹھائیں اور عوام میں ان کے حقوق کے لیے شعور بیدار کریں۔ اکثر مارکسی دانشور یہ کہتے رہتے ہیں کہ فلاں انقلاب رد انقلاب میں تبدیل ہو گیا تھا۔ آج ان کے پاس بھی موقع ہے کہ آگے بڑھیں اور اس واقعے کو اپنے حق میں ہائی جیک کر لیں۔
یہ بات تو طے ہے کہ اگر یہ واقعہ کامیابی سے ہمکنار نہیں بھی ہوتا تو پھر بھی اس ''واقعے'' کے بعد پاکستان ویسا نہیں رہے گا جیسا اس سے پہلے تھا۔ پاکستانی حکمرانوں کی لوٹ مار، بدعنوانی، ظلم و تشدد اور دہشت گردی سے متعلق احساسات لوگوں کے شعور میں مزید راسخ ہو جائیں گے۔ سرمایہ داروں کی جمہوریت کا کھوکھلا پن کھل کر سامنے آ جائے گا اور ایک بہتر معاشرے کا احساس اذہان میں راسخ ہونے کے ساتھ ساتھ عوامی شعور بہتر صورت میں متشکل ہو گا۔ اس لیے شخصیات (طاہر القادری) پر توجہ دینے کے بجائے اس واقعے سے نئے شعور کو جنم لیتا ہوا دیکھیں اور جو کچھ اس واقعے سے حاصل کیا جا سکتا ہے، اسے حاصل کرنا چاہیے۔