لیاری میں فروغ تعلیم کا مشن
رحمان ڈکیت، عزیر بلوچ، غفار ذکری ، جینگو، راشد ریکھا ، استاد تاجو ، وصی اللہ لاکھو وغیرہ بھیانک کردار بن گئے
HYDERABAD:
ایک وقت تھا کہ لیاری کی پہچان انور بھائی جان بلوچ اور فٹ بال و باکسرز سے تھی پھر وقت آیا کہ ککری گراؤنڈ کو بے نظیر کی شادی ہونے کا شرف حاصل ہوا اور وجہ شہرت بنا مگر پھر ہوا یوں کہ لیاری آہستہ آہستہ اپنے جنجال میں پھنس گیا کہ جس میں اس کی پہچان منشیات اور کلاشنکوف نے لے لی۔ جرائم پیشہ افراد نے اس طرح سے اس کو اپنے حصار میں لے لیا کہ لیاری کا نام سن کر لوگوں نے کانوں کو ہاتھ لگانا شروع کردیے۔
رحمان ڈکیت، عزیر بلوچ، غفار ذکری ، جینگو، راشد ریکھا ، استاد تاجو ، وصی اللہ لاکھو وغیرہ بھیانک کردار بن گئے، روتے ہوئے بچوں کو اگر ان کا نام لے کر ڈرایا جاتا تو وہ بھی چپ ہوجاتے۔ ان لوگوں اور ان جیسے دیگر جرائم پیشہ افراد کی بدولت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی چشم پوشی کی وجہ سے یہاں جرائم پروان چڑھنے لگے آپس کی گروہ بندیوں میں آئے دن ہونے والی لڑائیوں نے الگ یہاں کے رہنے والوں کا جینا حرام کر رکھا تھا۔ قبضہ گروپ کی بدولت ایک گلی میں رہنے والوں کا دوسری گلیوں میں جانا محال تھا۔ چیل چوک دہشت کی علامت بن چکا تھا۔
ایسا بالکل نہیں تھا کہ یہاں کے لوگ ہی جرائم پیشہ یا ان کے سہولت کار تھے مگر سیاسی پارٹیوں سے وابستگی اور ان کے عسکری ونگز نے جرائم پیشہ افراد کو اپنی پرچھائیوں میں لے کر ان کو اپنی طاقت قائم رکھنے کے لیے استعمال کیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ لوگوں نے ایک دوسرے کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کیا۔ آپس کی لڑائیوں کے دوران لیاری میدان جنگ بن جاتا، لوگ کئی کئی دن کے لیے محصور ہوجاتے، کوئی گھر ایسا نہیں جہاں گولیوں کے نشان موجود نہ ہوں یا کوئی زخمی نہ ہوا ہو لیکن کہتے ہیں کہ جب ظلم حد سے بڑھ جائے تو مٹ جاتا ہے، کیچڑ میں بھی پھول کھل اٹھتے ہیں۔ رینجرز نے جس طرح کراچی کو جرائم پیشہ افراد کے شکنجے سے نکالا ہے یہ بڑی قابل تعریف بات ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ لیاری کے کچھ نوجوانوں نے سوچنا شروع کیا کہ ہم کب تک جرائم پیشہ عناصر کے نرغہ میں رہتے ہوئے جرائم پیشہ کہلاتے رہیںگے اور ہمارے بچے تعلیم سے دور بھاگتے رہیںگے تین نوجوانوں جن میں زیب بلوچ، محسن اور شاکر شامل ہیں نے اپنے ہم خیال لوگوں کو آہستہ آہستہ ترغیب دینا شروع کی کہ تعلیم سے رشتہ جوڑ کر ہی ہم اپنے علاقے اور اپنے لوگوں کے لیے بہتری کا کام کرسکتے ہیں کیونکہ اگر تعلیم اور شعور نہ ہوگا تو جس کا دل چاہے گا ہمیں اپنے جرائم میں شریک کرے گا۔
اسی لیے ان باہمت نوجوانوں نے اپنے علاقے میں عسکری ونگزکی جگہ اسٹوڈنٹ ونگز لینگویج سینٹر کے نام سے ایسا ادارہ قائم کیا جس کا مقصد لیاری کے نوجوانوں کو مثبت سرگرمیوں میں شامل کرنا تھا تاکہ لیاری کے بچے جو گلی گلی شتر بے مہار پھر رہے ہیں وہ اسٹوڈنٹ ونگز کی چھتری تلے شعور حاصل کریں۔ اپنی مدد آپ کے تحت زیب بلوچ اور ان کے ساتھیوں نے ایک چھوٹے سے کمرے سے اپنے مشن کا آغاز کیا آہستہ آہستہ 2014 سے شروع ہونے والا یہ ادارہ یہاں کے نوجوانوں کے مثبت سوچ کی پہچان بنتا جارہاہے۔ نامساعد حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنی تنظیم کے ذریعے جدید خطوط پر اپنی کلاسز کوآگے بڑھارہے ہیں۔
انھوں نے اس امر کو ذہن نشین کرلیا ہے کہ اگر ترقی کرنی ہے تو انگریزی زبان کو وسیلہ گفتگو بنانا ہے، اسی لیے یہ لیاری کے بچوں کو انگریزی زبان سکھارہے ہیں۔کچرا کنڈی کو صاف کرنے آج وہاں نوجوانوں کو تعلیم دی جارہی ہے۔ یہ لوگ اب باقاعدہ علاقے کے لوگوں کے لیے کام کررہے ہیں۔ لوگوں کی سوچ میں مثبت تبدیلی لانے میں اس ادارے کا بہت بڑا حصہ ہے۔ بلا معاوضہ اپنی خدمات دینے والے ان نوجوانوں کو حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے۔
سب سے اچھی بات یہ ہے کہ جہاں بندوق کی گولی کے بغیر بات نہیں ہوتی تھی وہاں ان جوشیلے نوجوانوں نے جدید تعلیم سے روشناس کروایا۔ اسکول اور کالج کے طلبا اپنی خدمات بلامعاوضہ انجام دیتے ہیں جیسے جیسے کام بڑھ رہا ہے ویسے ویسے وسائل کی ضرورت بھی بڑھ رہی ہے۔ ایسے موقعے پر ضرورت ہے کہ حکومت کی جانب سے ان کی حوصلہ افزائی کی جائے تاکہ ان کے عظیم کام میں رکاوٹ نہ پڑنے پائے ایسا نہ ہو کہ یہ نوجوان مسائل سے گھبراکر اپنے کاموں سے ہاتھ اٹھالیں۔ ہمیں ان ہاتھوں کو مضبوط کرنا ہے۔ تاکہ لیاری بھی وہ مقام حاصل کرے جو دوسرے علاقوں کا ہے۔70ء اسی لیاری میں اسٹریٹ اسکولز کا پہلا تجربہ ہوا تھا۔
کسی بھی معاشرے کے لیے نوجوان اہم ترین سرمایہ ہیں مگر یہ سرمایہ جب ضایع ہوجاتا ہے کہ اگر غلط ہاتھوں میں چلاجاتا ہے منفی سوچوں اور رویوں کی وجہ سے آج کا نوجوان ویسے ہی بہت دل برداشت ہے اسے صحیح سمت نظر نہیں آرہی ہے کرپشن نے جس طرح ماحول کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے وہاں کرپشن کرنے والا کوئی ہیرو دکھائی دیتا ہے۔ اس کے لیے فکریہ بات ہوتی ہے کہ کس طرح عوام اور اداروں کی آنکھوں میں دھول جھونک کر کیسے دولت بنائی، دولت کے چکر میں جائز ناجائز سب حربے استعمال کیے جارہے ہیں کیونکہ صاف یہی نظر آرہا ہے کہ کس طرح امیر اور غریب میں فرق بڑھ رہا ہے۔ امیر پر سو خون بھی معاف ہیں اور غریب کو روٹی چرانے پر بھی سزا کا حق دار قرار دے دیا جاتا ہے۔
ایسے حالات میں سوچ میں اس تیزی سے تبدیلی آرہی ہے کہ پتا بھی نہیں چلتا کہ کس طرح سے بگاڑ ہمارے ذہنوں سے ہوتے ہوئے نسلوں کی بربادی تک پہنچ چکا ہے مگر اس بات کو سمجھنے کے لیے کوئی تیار نہیں ہے کیونکہ ڈھٹائی تیرا ہی آسرا نے حقیقت سے نظریں چُرا کر لوگوں کو اس بات سے نکال دیا ہے کہ کوئی جرم کریںگے تو معاشرے میں بدنامی ہوگی اب تو یہ رویہ پروان چڑھ رہا ہے کہ دولت کے بغیر زندگی کچھ نہیں ۔کچھ عرصہ پہلے کی ہی بات ہے کہ رشوت لینے والوں کو بہت برا سمجھا جاتا تھا۔
رشتے دار اس کے گھر جانا اورکھانا پینا حرام سمجھتے تھے آج یہ وقت آگیا ہے کہ جتنا بڑا چور اتنا بڑا عزت دار ہے اگر ایسے حالات میں زیب بلوچ جیسے لوگ اسٹوڈنٹ ونگز کے ذریعے ایک مقصد کی خاطر تن من دھن سے لوگوں کی اصلاح کے لیے کھڑے ہوں تو ایسے لوگوں کے ہاتھ مضبوط کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ ایسے لوگ ہی ملک و قوم کے لیے سرمایہ ہوتے ہیں۔ ان کے اندر ایک طاقت ہوتی ہے کہ کس طرح سے بگڑے ہوئے لوگوں کو راہ راست پر لانے کے لیے اقدامات کرنے میں یہ لوگ بڑے بڑے دعوؤں ، باتوں کی جگہ عمل کرنے کو ترجیح دیتے ہیں،کرپشن کے اس دور میں بلامعاوضہ لوگوں کی بھلائی کے لیے کام کرنا بڑی بات ہے چراغ سے چراغ ضرور جلتا ہے اور ایک وقت آتا ہے کہ دنیا اسی روشنی سے جگمگانے لگتی ہے۔
ہمیں خبر ہے کہ ہم ہیں چراغ آخر شب
ہمارے بعد اندھیرا نہیں اجالا ہے