لڑائی جاری رہے گی

یہ بھی عجیب بات ہے کہ مشال خان کے قتل پر سینیٹ اور اسمبلیوں میں تو مذمتی قراردادیں پاس ہوئیں


Zuber Rehman May 10, 2017
[email protected]

سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے اب تک ازخود نوٹس معروف شخصیات، نامورنوکرشاہی یا اہم حکمران یا پھرزیادہ شور شرابا ہونے پر لیے گئے مگر اس بارادنیٰ متوسط طبقے کے ایک طالب علم کے قتل پر ازخود نوٹس لینا نہ صرف قابل ستائش ہے بلکہ قابل فخر بھی ہے۔ دو تین اور بھی ایسے کارنامے انجام پائے جوکہ قا بل تحسین ہیں۔ جیسا کہ مردان اے این پی کے صدر کی جانب سے مشال خان کے خلاف مسلسل بیان آ نے پرکے پی کے، اے این پی کی قیادت نے کہا کہ یہ بیانات پارٹی پالیسی کے خلاف ہیں اور یہ بیانات بند نہ کیے گئے تو پارٹی اس کے خلاف تادیبی کارروائی کرے گی۔

اسی قسم کا بیان عمران خان نے مقتول مشال خان کے والد اقبال خان شاعر سے ملا قات پر دیا کہ اس جرم میں ہماری پارٹی کا کارکن بھی شریک ہوا تو اسے بھی سزا ملے گی۔ اسی طرح پاکستان پیپلزپارٹی کی مر کزی قیادت نے مردان کی پی پی کارکنان کو مشال خان کے خلاف جلسے میں شرکت کر نے پر شوکاز نوٹس بھیجا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ یہ موقف ہماری پارٹی کا نہیں ہے۔کچھ عرصے پہلے دو قاتل گرفتارکر لیے گئے، ایک قاتل نے لاش پرگملہ پھینکا تھا اور دوسرے نے لاش پر پتھراؤ کیا تھا۔ ابھی حال ہی میں مرکزی ملزم جس نے مشال خان پر گولی چلائی، اسے بھی گرفتارکر لیا گیا۔ پو لیس آفیسر نے اس سفاک قاتل کو ٹی وی پر پیش کر کے براہ راست عوام کو اس کے اعترافی بیان سنائے۔ یہ بھی پولیس کا ایک اچھا کارنامہ ہے، لیکن اسی روز ایسے پولیس افسر بھی بت بنے کھڑے رہے جب مشال خان کو قتل کیا جا رہا تھا اوران کی لاش کو تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا تھا۔

یہ بھی عجیب بات ہے کہ مشال خان کے قتل پر سینیٹ اور اسمبلیوں میں تو مذمتی قراردادیں پاس ہوئیں لیکن مردان کے کچھ کونسلروں نے دینی محاذ، جے آئی اور جے یوآئی نے مذمتی قرارداد پاس نہیں ہونے دی اور مردان یونیورسٹی کا نام مشال خان کے نام سے منسوب کرنے کی مخالفت کی۔ ہمیں ان اساتذہ جیسا کہ ضیا اللہ ہمدرد اور طلبہ عبداللہ اور زبیر کو حکومت کی جا نب سے بہادری اور جرات کا تمغہ دینا چا ہئے اور ان کے قا تلوں کو قتل کے الزام اور دہشت گردی کے الزام میں پھانسی پر لٹکایا گیا، اسی طرح مشال خان کے قاتلوں کو بھی لٹکانے کی ضرورت ہے۔

مشال خان پر تحقیق ہونے کی بجائے عبدالولی خان یونیورسٹی کے بعض اساتذہ، کلرک اور سیکیورٹی افسران جنھوں نے دو دو اور تین تین عہدے حاصل کر رکھے ہیں، ان کی انکوائری ہونی چاہیے۔ انتظامیہ کے جن افراد نے طلبہ سے پچیس پچیس ہزار روپے فیس وصول کی ہے، ان کی بھی انکوائری ہونی چاہیے جب کہ فیس پانچ ہزار ہے۔ پھر ایسے بدعنوان افرادکو قرار واقعی سزا دینے کی ضرورت ہے تب جا کے یونیورسٹی بدعنوانیوں سے پاک ہو سکتی ہے۔ مشال خان روس سے سول انجینئرنگ کر چکا تھا، یورپی یونین یونیورسٹی ایسوسی ایشن اور ایسٹرن یورپین یونیورسٹی ایسوسی ایشن کا ملا زم بھی تھا۔

جنھوں نے مشال خان کو قتل کیا اور جنھوں نے اس پر جھوٹی اور جعلی ٹوئٹ بنائی اور اس پر اس کے نام سے بے بنیاد اور من گھڑت ٹوئٹ ارسال کیں انھیں قرار واقعی سزا دی جائے۔ ہمیں معلوم ہے کہ اس سرمایہ دارانہ نظام میں رہتے ہوئے مزدور طبقے، پیداواری قوتوں اور شہریوں کوکوئی انصاف نہیں مل سکتا۔ ہاں مگر انصاف کے لیے جدوجہد کرتے رہنا اور اس نظام کو مسلسل بے نقاب کرتے رہنے کا نام ہی جدوجہد ہے۔ اس عمل میں مزدور سیکھتا، سمجھتا اور لڑنے کی جرات و ہمت سے لیس ہوتا ہے۔

پاکستان میں سب سے پہلے انیس سو ساٹھ میں مزدورطبقے کے عظیم رہنما اورکمیونسٹ پارٹی کے بیباک اور مخلص لیڈر حسن ناصرکو ایوبی آمریت میں لاہورکے شا ہی قلعے میں شدید جسمانی اذیت دے کر قتل کر دیا گیا تھا اورآج تک قاتلوں کو کوئی سزا نہیں ہوئی۔ جنرل ضیاالحق کی جبری فوجی حکو مت نے کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان سندھ کے سیکریٹری نذیر عباسی کو کراچی کے ایک عقوبت خانے میں شدید جسما نی اذیت دیکر قتل کر دیا۔ آج بھی ان کی بیوہ حمیدہ گھانگھرو انصاف کی منتظر ہیں۔

پھر انیس سو تراسی میں دیرکے کمیو نسٹ پارٹی کے رہنما ڈاکٹر محمد تاج ایڈووکیٹ کو افغان دہشت گرد اور مقا می مذہبی قاتل نے کلا شنکوف کی اندھا دھن گولیوں سے قتل کر دیا لیکن آج تک ان کے وارث اہل خانہ اور محنت کشوں کو انصاف نہیں ملا۔ مگر ہمیں یقین ہے کہ وہ دن ضروراور جلد آنے والا ہے جب انقلاب فرانس کی طرح لوئس دہم کا سر قلم کر کے جسے شہر میں گھمایا گیا تھا اسی طرح پا کستان کے انقلابیوں کے قاتلوں کا بھی حشر ہوگا۔ اس نظام زر یعنی سرمایہ داری میں ایسا ہی ہوتا رہے گا۔ امریکا کی معروف انقلابی عظیم دانشو ایماگولڈ مان نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ ''اگر انتخابات سے عوام کے مسائل حل ہوتے تو حکمران انتخابات پرکب کے پابندی لگا چکے ہوتے۔''

کارل مارکس کے نظریے پر چلتے ہوئے چی گویرا کی رہنمائی میں کیوبا میں سوشلسٹ انقلاب برپا ہوا جب کہ کم ال سنگ کی رہنمائی میں شمالی کوریا (سوشلسٹ کوریا) میں انقلاب برپا ہوا اور قائم ہے جہاں سو فیصد لوگ خواندہ ہیں، کوئی بے روزگار ہے اور نہ کوئی گداگر۔ یہاں سرمایہ داری اورجاگیرداری ناپید ہے اور یہ دونوں ممالک امریکی سامراج کی آ نکھوں میں آنکھیں ڈال کر باتیں کرتے ہیں۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ سوشلزم کی مطلق حکمرانی سے کمیونزم کی جانب فورا پیش رفت کرنی ہو گی، اقتدار کارکنان کے بجائے عوام کو منتقل کرنا ہو گا، ورنہ یہاں بھی سرمایہ داری پلٹ کر آ جائے گی۔ اس وقت امریکا اور برطانیہ سمیت دنیا بھر کے عوام اسٹیٹ لیس سوسائٹی کے لیے لڑ رہے ہیں۔ یہ لڑائی جاری ہے اور جاری رہے گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں