پنجاب میں موجود ’چھپی‘ ہوئی جھیلوں کی سیر

جب جھیل کے صاف و شفاف پانی میں سیاحوں کی جانب سے پھینکے گئے کچرے پر نظر پڑتی ہے توسر پیٹنے کو جی کرنے لگتا ہے۔


کھبیکی جھیل کے بعد ہمارا پڑاؤ کنھاٹی گارڈن تھا۔ کنھاٹی گارڈن اِس علاقے میں سب سے نچلی وادی ہے۔ مجھے تو ساری وادی میں سب سے خوبصورت اور دلفریب نظارے کنھاٹی گارڈن کے محسوس ہوئے۔

جھیل کے نیلگوں پانی پر جمی کائی اور منرل واٹر کی خالی بوتلوں اور کھانے کی اشیاء کے گندے لفافے دیکھتے ہوئے میں دوپہر کو عین اُس وقت اچھالی جھیل میں کشتی کے ہچکولوں سے لطف اندوز ہو رہا تھا جب سورج بالکل سر پر تھا اور سایہ مکمل ختم ہوچکا تھا۔ دور کنارے پر بیٹھے چرواہے کی محصور کن بانسری کی آواز کانوں کو بھلی محسوس ہو رہی تھی مگر ساتھ ہی قدرت کے اِس عظیم شاہکار کی حالتِ زار پر ترس بھی آرہا تھا۔



میں جھیل کے وسط میں پہنچ چکا تھا کہ میرے سامنے ایک مرا ہوا گدھا آگیا جو سطحِ آب پر نمودار ہوچکا تھا۔ گدھے کے جسم کے ساتھ جھیل میں موجود کھانے کے خالی پیکٹ چمٹے ہوئے تھے۔ میں نے کشتی سے پائوں لٹکائے ہوئے تھے وہ تو بھلا ہو اُس وقت چلنے والی ہوا کا جس نے مرے ہوئے گدھے کی بدبو میرے ناک کے نتھنوں کے سپرد کرتے ہوئے خبردار کیا کہ دنیا سے رخصت ہونے والے اِس جانور کے جسم سے میرے پاؤں ٹکرا نہ جائیں۔ میں نے آناً فاناً اپنے پاؤں سمیٹے اور آلتی پالتی مار کر کشتی کے کنارے پر گیان میں مصروف ہوگیا۔ دراصل میں لاہور کی گرمی سے تنگ آکر وسطی پنجاب کی جنت اور موروں کے دیس وادی سون سکیسر میں گیا تھا جہاں تفریح کے دوران اِس معاشرتی المیے سے واسطہ پڑا تھا۔





میں ٹور ازم ڈویلپمنٹ کارپوریشن کی خصوصی دعوت پر ایم فل ماس کمیونیکیشن کے طلبہ و طالبات کے ایک گروپ کے ہمراہ لاہور سے وادیِ سون ایک روزہ تفریحی دورے پر تھا۔ اِس دورے کا مقصد صحافت کے شعبے سے منسلک افراد کو پاکستان کی اِس خوبصورت وادی سے روشناس کرانا تھا۔

واضح رہے کہ ٹور ازم ڈیپارٹمنٹ نے اِس دورے کی باضابطہ فیس بھی وصول کی تھی۔ خیر دورے کے دوران میزبانی اور رہنمائی دونوں کا بہترین انتظام تھا۔ نمازِ فجر کی ادائیگی کے فوراً بعد لاہور سے روانہ ہوئے۔ صبح 10 بجے ہم ٹی ڈی سی پی کے کلرکہار میں قائم شدہ گیسٹ ہاؤس میں موجود تھے، جہاں ہمارے میزبان ناشتہ بنائے ہمارے منتظر تھے۔

ناشتہ کرنے کے بعد باضابطہ طور پر وادیِ سون کا دورہ کرنا تھا۔ رودادِ سفر سے پہلے اِس وادی کے محل وقوع اور حدودِ اربعہ کے بارے میں آپ کو بتاتا چلوں کہ یہ وادی دارالحکومت اسلام آباد سے 290 کلومیٹر اور شاہینوں کے شہر سرگودھا سے 110 کلومیٹر کے فاصلے پر سلسلہ کوہِ نمک کے پہاڑوں میں گھری ہوئی ہے اور قدیم تہذیب و تمدن کی حامل مذہبی روایات کی امین قدرتی طور پر سرسبز اور خوبصورت وادی ہے۔





وادی سون ضلع خوشاب میں واقع ہے۔ خوشاب سے شمال مغرب میں پیل پدھراڑ سے سکیسر تک پھیلی ہوئی اِس وادی کی لمبائی 56 کلومیٹر اور چوڑائی 14 کلومیٹر ہے جبکہ خوبصورت پہاڑوں سے گھری ہوئی اِس وادی کا صدر مقام نوشہرہ ہے۔ اِس وادی میں بھی اَن گنت چھوٹی بڑی وادیاں ہیں جن میں پیل، پدھراڑ، جابہ، دھددہڑ، مکڑمی، ڈھڑنال، مردوال، اوچھالی، شکر کوٹ، اگالی، بھکی، جھالر، کفری قابل ذکر ہیں۔ یہ وادی وسطی پنجاب کے اُن علاقوں میں شامل ہے جہاں پر برف باری بھی ہوتی ہے۔

اِس وادی کا آغاز کلرکہار سے ہوتا ہے۔ جہاں پر بزرگ صوفیوں حضرت پیر آہو باہو (سید محمد اسحاق اور پیر محمد یعقوب) کا مزار واقع ہے۔ اگر آپ طلوع آفتاب سے ایک گھنٹہ پہلے اور غروب آفتاب کے بعد یہاں جائیں تو سینکڑوں مور اِس مزار کے گرد منڈلاتے اور رقص میں مصروف نظر آئیں گے۔ موروں کے نظارے کے علاوہ یہاں سے آپ کو کوہ نمک کے نظارے اور کلر کہار کے خوبصورت مناظر نظر آتے ہیں۔



ہمارا سفر بھی ناشتے کے بعد شروع ہوا جس کی وجہ سے ہم موروں کے اس نظارے سے لطف اندوز نہیں ہوسکے۔ سفر کے آغاز میں سڑک کے دونوں جانب پھیلے لوکاٹ کے باغات منہ میں پانی لارہے تھے۔ اپنے دوستوں کے بھرپور اصرار کے باوجود وقت کی کمی نے لوکاٹ کے تازہ پھل کھانے کی اجازت نہیں دی۔ ہماری اگلی منزل اوچھالی جھیل تھی۔ اوچھالی جھیل قدرت کا ایک عظیم شاہ کار ہے۔ یہ جھیل برساتی پانی سے بنی ہوئی قدرتی جھیل ہے، جہاں بارش کا پانی جمع ہوجاتا ہے۔ اِس جھیل کو دیکھ کر ایک نظر میں بس سبحان تیری قدرت کا لفظ زبان سے نکلتا ہے، مگر جب جھیل کے صاف و شفاف پانی میں سیاحوں کی جانب سے پھینکے گئے کچرے پر نظر پڑتی ہے تو سر پیٹنے کو جی کرنے لگتا ہے۔ جھیل کے پانیوں میں کائی کم اور کھانے کے پیکٹ، جوس و پانی کی بوتلیں زیادہ مقدار میں پائی جاتی ہیں۔ یہ بات ٹھیک ہے کہ حکومت کی عدم توجہی کے باعث قدرت کا یہ انمول کرشمہ تباہی کے دہانے پر ہے مگر سب کام حکومت کے بھی کرنے کے نہیں ہوتے، ہمارے ذاتی رویوں کے باعث بھی قدرت کے نظارے معدومی کے خطرات سے دوچار ہیں۔



اوچھالی جھیل کے بعد ہمارے میزبان نے اعلان کیا کہ اگلی منزل کھبیکی جھیل ہے جو کہ اوچھالی جھیل سے 9 کلومیٹر دور ہے۔ یہ جھیل البتہ انسانوں کے ظلم سے محفوظ ہے۔ اِس جھیل کی لمبائی 1 کلومیڑ لمبی جبکہ چوڑائی 2 کلومیڑ ہے، جس کا پانی نمکین اور ناقابل استعمال ہے۔ یہاں چائنہ کی BREED FISH کی افزائش کی جارہی ہے۔ جھیل کی سیرسے لطف اندوز ہونے کے لئے کشتیاں موجود ہیں۔ اِس جھیل کی صفائی دیکھ کر دل خوش ہوا۔ یہ صفائی شاید کنارے پر موجود ورلڈ وائلڈ لائف کے دفتر کی بدولت تھی۔ جھیل کے شفاف پانی پر تیرتے اور اٹھکیلیاں کرتے بگلے، دور جھاڑیوں میں اکا دُکا موروں کی آوازیں تپتی دوپہر میں زندگی کے ہونے کا احساس دلا رہے تھے۔ موسم سرما میں سائبیریا اور دیگر ممالک سے ہجرت کرکے آنے والے بے شمار پرندے اِس علاقے کی جھیلوں کے حُسن، خوبصورتی اور شان میں قابلِ ذکر اضافہ کردیتے ہیں۔

کھبیکی جھیل کے بعد ہمیں بتایا گیا کہ اب ہمارا پڑاؤ کنھاٹی گارڈن ہے۔ کنھاٹی گارڈن اِس علاقے میں سب سے نچلی وادی ہے۔ مجھے تو ساری وادی میں سب سے خوبصورت اور دلفریب نظارے کنھاٹی گارڈن کے محسوس ہوئے۔ خشک پہاڑوں کے درمیان چند مربع کلومیٹر پر مشتمل وادی جہاں پر پنجاب حکومت کی جانب سے خصوصی باغ تعمیر کیا گیا ہے۔ اِس باغ میں خوبانی، لوکاٹ، سفیدے، دیودار، یوکلپٹس کے دیو قامت درخت ہیں۔ انواع و اقسام کے پھولوں سے مزین اِس باغ میں شہد کی مکھیوں کا ایک فارم بھی ہے۔ یہاں ایک گھنٹہ وقت گزارنے کے بعد ہم نے لاہور کی جانب سفر کا آغاز کردیا۔

لاہور واپسی کے دوران وادی میں موجود چرواہے اپنی بھیڑ بکریاں لئے پہاڑوں سے وادی میں آرہے تھے۔ لوک گیت گاتے، بانسری کی محسور کن آوازیں کانوں سے ٹکرا رہی تھیں اور ہم موروں کے دیس سے لاہور کی جانب جا رہے تھے۔ اِس وادی کے لوگوں کا ذریعہ معاش کھیتی باڑی ہے جو کہ ساری کی ساری بارشوں پر منحصر ہے۔ تاہم آج کل آبپاشی کے لئے ٹیوب ویل بہترین ذریعہ ہیں مگر اوور بلنگ اور انرجی بحران کی وجہ سے یہاں کے لوگ پریشان ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ زیادہ تر لوگوں کا انحصار اور گزر بسر بارانِ رحمت سے سیراب ہونے والی کاشتکاری پر ہے۔



یہاں کے لوگ اللہ پر توکل اور اُس کی عطا پر شکر کرنے کے عادی اور انتہائی مشکل حالات میں بھی خوشی، اعتماد اور چہرے پُرسکون رکھنے کے ہُنر سے واقف ہیں۔ سبزیاں اور گندم یہاں کی فصلیں ہیں۔



عظیم مسلمان فاتح ظہیرالدین بابر جب اِس علاقے سے گزرا تو وادی کے حُسن نے اُسے اپنی جانب متوجہ کیا۔ لشکر کا پڑاؤ ڈالا گیا اور یہاں پر باغات اگانے کا حکم دیا۔ اسی دوران اِس وادی کے بارے میں تاریخی کلمات ''ایں وادی بچہ کشمیر است'' یعنی 'یہ وادی چھوٹا کشمیر ہے' ادا کئے۔ اِس بادشاہ کی چند نشانیاں آج بھی وادی میں موجود ہیں۔

زندگی میں شہر کے شور شرابے سے دور ایک بار ضرور اِس وادی کی سیر کریں اور اگر آپ کے پاس وقت ہو تو پنجاب حکومت کے محکمے ٹور ازم ڈویلپمنٹ کارپوریشن کی خدمات ضرور حاصل کریں، کیوںکہ اِس وادی کی سیر اور تفریح کے لئے پنجاب حکومت کے محکمے سے سستا کوئی ذریعہ ہے اور نہ ہی کوئی بہترین گائیڈ اِس محکمے سے بہتر کرسکتا ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا لکھاری کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کےساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں