آئین کی بالادستی
شہری اسی وقت آئین اور قانون کی پاسداری کرتے ہیں، جب ریاستی ادارے آئین و قانون کو اہمیت دیتے ہیں
تاریخ عالم کا مطالعہ ہمیں بتاتا ہے کہ دنیا میں وہی معاشرے مہذب و شائستہ کہلاتے ہیں اور عالمی سطح پر عزت و توقیر پاتے ہیں جہاں آئین کو ریاست کے منطقی جواز اور نظم حکمرانی کا صحیفہ سمجھا جاتا ہے، جب کہ قانون پر عمل درآمد کی روایت کو مستحکم بنانے میں معاشرے کے تمام طبقات دیانت داری سے اپنا حصہ ڈالتے ہیں۔ ادارے بڑے ہوں یا چھوٹے، بااختیار ہوں یا بے اختیار، قانون کی پاسداری ان کے شعار کو فروغ دینا ان کی اولین ذمے داری ہوتی ہے۔
اس لیے نہایت ادب کے ساتھ چند گذارشات پیش کرنے کی جسارت کریں گے۔ اول، جب ملک میں آئین موجود ہو، تو مختلف امور میں اس سے رہنمائی حاصل کی جائے۔ اگر کسی مسئلے پر آئین خاموش ہو، تو عدالت عظمیٰ سے تشریح کرائی جائے، لیکن ملک کو صحیح خطوط پر چلانے کے لیے آئین کی پاسداری ملک کے ہر شہری اور ہر ریاستی ادارے کی اولین ذمے داری ہے۔
شہری اسی وقت آئین اور قانون کی پاسداری کرتے ہیں، جب ریاستی ادارے آئین و قانون کو اہمیت دیتے ہیں۔ دوئم، ملک کا نظام حکمرانی شخصی ہو یا جمہوری، ہر دو صورت میں اقتدار و اختیار کا منبع ایک کلیدی عہدہ ہوتا ہے، جو The Administrator کہلاتا ہے۔ ریاست ہو یا کوئی ادارہ یا کوئی تنظیم ہر جگہ نظم و ضبط اور قواعد و ضوابط پر عملدرآمد کے لیے The Administrator کا ہونا اور اس کے احکامات کی تعمیل ضروری ہوتی ہے۔ یہاں لفظ Theاس عہدے کی پوزیشن اور اہمیت کو ظاہر کرتا ہے۔
پاکستان کے آئین کے مطابق صدر ریاست کا سربراہ ہوتا ہے، جب کہ وزیراعظم ملک کا انتظامی سربراہ (چیف ایگزیکٹو) ہونے کے ناتےThe Administrator ہوتا ہے۔ اس بات کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ صدارتی نظام کے برخلاف پارلیمانی جمہوریت میں صدرکی انتظامی حیثیت محض رسمی یعنی Ceremonial ہوتی ہے، لیکن آئین کی رو سے وہ قانون سازی کے انسٹی ٹیوشن میں حتمی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔
اس کے دستخطوں کے بغیر قومی اسمبلی اور سینیٹ سے منظور کردہ کوئی ضابطہ قانونی شکل اختیار نہیں کرسکتا، جب کہ وزیراعظم ریاست کا منتظم اعلیٰ (چیف ایگزیکٹو) ہوتا ہے۔ تمام ریاستی انتظامی امور کی نگرانی و نگہداشت وزیراعظم کی ذمے داری ہے۔ وہ ملک کی مسلح افواج کے سربراہان کا انتخاب کرتا ہے، لیکن ان کی تقرری کے احکامات صدر مملکت جاری کرتا ہے، جو مسلح افواج کا سپریم کمانڈر ہوتا ہے۔
سوئم، ہمیں بحیثیت عام شہری حکومت اور اس کے اعلیٰ ترین عہدیداروں کی طرز سیاست اور انداز حکمرانی سے اختلاف کرنے اور تحفظات ظاہر کرنے کا پورا حق حاصل ہے۔ عوام حکومت سے پیدا ہونے والی شکایات اور اختلافات کا اظہار جلسے جلوسوں، مظاہروں اور ذرایع ابلاغ کے ذریعے کرنے کا حق رکھتے ہیں، لیکن ریاستی اداروں بشمول نیم خود مختار اداروں کے سربراہان اور اہلکاروں کے لیے اپنی شکایات کو The Administrator تک پہنچانے کا طریقہ کار انتظامی Manual موجود ہے۔ اگر سرکاری اہلکار کسی نوٹیفیکیشن کے بارے میں اپنے ردعمل کا اظہار رسمی یا سماجی ذرایع ابلاغ یا عوامی اجتماعات میں کرنے لگیں گے، تو پھر ریاستی انتظامی ڈھانچہ تباہی سے دوچار ہوجاتا ہے۔
ہمیں یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ پاکستان ایک جدید ریاست ہے۔ جس میں آئین اور آئین ساز ادارے موجود ہیں۔ انصاف اور قوانین کی تشریح کے لیے عدلیہ موجود ہے۔ ملک کا نظم و نسق چلانے کے لیے انتظامی ڈھانچہ موجود ہے۔ اس لیے ریاست کے تمام ادارے اپنی آئینی حدود کے اندر رہتے ہوئے کام کریں، تو بہت سے مسائل پر قابو پانا آسان ہوجاتا ہے، جب کہ ملک کو قبائلی انداز میں چلانے سے پورا انتظامی ڈھانچہ متاثر ہوسکتا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ ملک کا انتظامی ڈھانچہ بدترین فرسودگی کا شکار ہوچکا ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ جس طرف آنکھ اٹھائیں ابتری ہی ابتری ہے۔ ملک کے پورے انتظامی و عدالتی نظام کو تطہیر و تبدیلی کی ضرورت ہے، مگر یہ دور انقلابات کا نہیں ہے۔ بلکہ جو کچھ بھی کرنا ہے، ارتقائی عمل کے ذریعے کرنا ہے۔ ایڈونچر کے نتائج بھی ہمیشہ تباہی کی شکل میں ظاہر ہوتے ہیں۔ اس لیے ایڈونچر سے گریز ہم سب کی اولین پالیسی ہونا چاہیے۔
تبدیلی اگر پارلیمان کے ذریعے آئے گی تو ٹھوس اور پائیدار ہوگی۔ بیرونی ذرایع سے آنے والی تبدیلی کبھی پائیدار نہیں ہوتی۔ ہم نے32 برس چار تجربات کی نذر کیے، مگر کچھ حاصل کرنے کے بجائے بہت کچھ گنوا بیٹھے۔ ابتدائی گیارہ برس بھی ایڈونچر ازم کی نذرہوگئے۔ نہ آئین بن سکا نہ سیاست کو کوئی سمت مل سکی۔ پہلے امریکا کی خوشنودی میں لگے رہے ، اب چین نوازی میں مبتلا ہیں۔ اپنے طور پر سوچنے کی عادت نہیں ہے۔ بقول راز مرادآبادی
اتنے مانوس صیاد سے ہوگئے
اب رہائی ملے گی تو مرجائیں گے
لیکن امید کی کرنیں مدھم نہیں ہونی چاہئیں۔ یہ امید رکھنی چاہیے کہ بہتری ہمارے اپنے عزم و حوصلے اور بصیرت سے آئے گی۔ ہم نہ سہی ہماری نئی نسل یہ کارنامہ کر دکھائے گی۔ اس بات میں دو رائے نہیں کہ اشرافیائی کلچر سے چھٹکارا پائے بغیر ترقی کی منازل تک پہنچنا ممکن نہیں، لیکن یہ عمل بھی کسی ایڈونچر سے نہیں بلکہ سیاسی عمل کے ذریعے ہی ممکن ہے۔لہٰذا بحیثیت ایک متوشش شہری ہماری یہ خواہش اور کوشش ہونا چاہیے کہ ملک کی مقتدر اعلیٰ سمیت کوئی بھی ریاستی ادارہ ماورائے آئین نہ جائے اور نہ جانے کی کوشش کرے جو تبدیلی آئے وہ آئین اور قانون کے دائرے کے اندر آئے۔ ہمارے ریاستی ادارے خواہ وہ قانون ساز ہوں یا قانون نافذ کرنے والے، خود کو آئین اور ریاست سے ماورا سمجھنا چھوڑ دیں۔
یہی وجہ ہے کہ میں اکثر اپنے طلبہ سے کہتا ہوں کہ تم لوگ حقیقت پسندی(Rationalism)کی بنیاد پر سیاسی جماعت تشکیل دو توہم تمہارے پیچھے چلنے کو تیار ہیں، کیونکہ تبدیلی اب نئی نسل ہی لاسکتی ہے، لیکن یہ تبدیلی آئین و قانون کے دائرے میں ہونا چاہیے۔ ہمیں یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ اس ملک کا بنیادی مسئلہ اچھی حکمرانی(Good Governance)ہے، جس میں بہتری لائے بغیر ہم کرپشن اور بدعنوانیوں جیسی برائیوں پر قابو نہیں پاسکتے، اگر سیاسی عزم و بصیرت اور نیک نیتی کے ساتھ چلنے کی کوشش کی جائے تو معاملات کی درستی سالوں نہیں مہینوں کا قصہ ہے۔ اس لیے ایک بار پھر مؤدبانہ گذارش ہے کہ تمام تر کمزوریوں اور خامیوں کے باوجودThe Administratorکی آئینی حیثیت کو چیلنج کرنے سے گریز کیا جائے اور تمام سرکاری اور نیم سرکاری ادارے آئین کی پاسداری کو اپنا شعار بنالیں، تو بہتر ناممکن نہیں ہے۔