ونی پیگ۔مونٹریال۔ آٹوا
مشاعرہ یونیورسٹی کے ایک ہال میں تھا جو ہماری آمد سے قبل ہی کھچا کھچ بھر چکا تھا
ونی پیگ(Winnipeg) کا تاریخی شہر اور قدیم راستہ ٹورانٹو اور وینکوور کے عین درمیان میں ہے اور ایک اعتبار سے اسے یہاں کے اصلی باشندوں اور اسکیمودور کا نمایندہ علاقہ بھی کہا جا سکتا ہے۔
33برس قبل شہر سے کچھ فاصلے پر ایک ریزرو ایریا بھی دیکھنے کا موقع ملا تھا جہاں ان قدیم باشندوں کو ایک مخصوص علاقے اور خصوصی قوانین کے تحت محدود رکھا گیا تھا۔ اس سفر کے رہنماؤں میں سے ایک بھائی سے وینکوور اور دوسرے سے یہاں مشاعرے کی تقریب میں ملاقات تو ہوئی مگر ہجوم کی وجہ سے بات سلام دعا سے آگے نہ بڑھ سکی۔ اب یہ شہر پہلے کی نسبت خاصا پھیل گیا ہے اور پاکستانیوں کی تعداد بھی دو تین ہزار سے بڑھ کر تیس ہزار کے لگ بھگ ہو چکی ہے۔ اولین مشاعرے کی میزبان ڈاکٹر کلثوم اعجاز محمدی کے بارے میں پتہ چلا کہ وہ بہت بیمار ہیں اس لیے آ تو نہیں سکیں گی مگر خصوصی سلام بھجوایا ہے۔
مشاعرہ یونیورسٹی کے ایک ہال میں تھا جو ہماری آمد سے قبل ہی کھچا کھچ بھر چکا تھا، نشستیں تھیٹر کے انداز میں نیچے سے اوپر کی طرف جارہی تھیں، سامعین مشتاق اور سخن فہم تھے اور ماحول بہت خوبصورت تھا سو اس کا خوشگوار اثر تقریب پر بھی پڑا چند فرمائشی پرچیوں میں کچھ بہت پرانی نظموں اور غزلوں کی فرمائش بھی تھی، بعد میں معلوم ہوا کہ ان کے بھیجنے والے تین دہائیاں قبل ہونے والے مشاعرے میں بھی موجود تھے جو غالباً ونی پیگ کی زمین پر ہونے والا پہلا مشاعرہ تھا۔ پروگرام میں تبدیلی کی وجہ سے ملنے والا اضافی دن بہت کام آیا کہ یوں اس شہر کو کسی حد تک دیکھنے کا موقع مل گیا۔ برادرم عامر جعفری کی محبوب کافی شاپ Tim hortons یہاں بھی ہمارے ہوٹل Hampton inn کے بالکل قریب تھی سو کچھ دیر وہاں بھی بیٹھے اور انور مسعود کے پسندیدہ کروساں سے بھی لطف اندوز ہوئے جس کو برادر عزیز عرفان صوفی ولائتی باقر خانی کہا کرتا ہے۔
انٹرنیٹ اور وائی فائی نے واٹس ایپ کے ذریعے دنیا بھر سے رابطہ اس قدر آسان اور بلا خرچ کر دیا ہے کہ اب آپ چوبیس گھنٹے اپنے عزیزوں اور پیاروں سے صوتی اور بصری ہر قسم کے رابطے میں رہ سکتے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ اسی شہر میں سابقہ دورے کے دوران دو دن مسلسل کوشش کے باوجود فون پر گھر والوں سے بات نہیں ہو سکتی تھی۔ یہ مشاعرہ دوسرے ویک اینڈ کا پہلا مشاعرہ تھا لیکن اس سے اگلا دن اس اعتبار سے بہت بھاری تھا کہ نہ صرف ہمیں صبح آٹھ بجے کی فلائٹ پکڑنا تھی بلکہ دوپہر کے وقت مونٹریال میں ایک اضافی تقریب میں شرکت بھی کرنا تھی جس کے بعد کار کے دو گھنٹے کے سفر سے آٹوا پہنچ کر دوسری تقریب میں شریک ہونا تھا اور اگلے دن پھر علی الصبح کی فلائٹ سے ٹورانٹو پہنچنا تھا جہاں اسی شام اس طویل پروگرام کے آخری مشاعرے کو ظہور پذیر ہونا تھا۔
معلوم ہوا کہ مونٹریال کے دوستوں کے پر زور اصرار کی وجہ سے ہمارے غزالی ٹرسٹ کے دوستوں نے اپنے اوپر یہ اضافی بوجھ لاد تو لیا تھا مگر ہال کی وسعت داماں اور حاضرین کی اس سے بھی محدود تعداد کو دیکھ کر عامر جعفری کچھ پریشان سے ہو گئے جس میں اس بات نے مزید اضافہ کر دیا کہ یہ تقریب بھی وینکوور کی طرح ایک ادبی تنظیم کے ہاتھ میں تھی سو وہ دودھ کے جلے کی طرح چھاچھ کو بھی پھونک پھونک کر پینے کے عمل میں تھے۔ ہمیں کھانے کے لیے وہاں کے سب سے اچھے پاکستانی ریستوران ''حویلی'' میں لے جایا گیا جس کے مالکان میں سے ایک ہمارے احباب حفیظ احمد نیازی اور انعام اللہ خاں نیازی کے ایک بھتیجے بھی تھے۔
کچھ دیر میں تنظیم کی صدر تبسم انوار بھی پہنچ گئیں اور انھوں نے آتے ہی ہمارے شبے کی یہ کہہ کر تائید کر دی کہ مشاعرے میں تنظیم کے تین چار ممبران بھی اپنا کلام سنائیں گے لیکن یہ خبر مریض کو موت دکھا کر بخار پر راضی کرنے والی تھی کیونکہ اگلے اسٹیشن یعنی آٹوا میں بقول ان کے بیس کے قریب مقامی شاعر ہمارے انتظار میں تھے جب کہ یہاں کلام سنانے والے چاروں دوست بھی ہمارے ساتھ ہی وہاں کا سفر کر رہے تھے۔ ہماری تعجیل اور اپنی نوعیت کے اعتبار سے یہ تقریب ہر اعتبار سے مختصر تھی۔ مونٹریال ایک نسبتاً چھوٹا مگر خوب صورت شہر ہے اور یہ بھی کینیڈا کے باقی اہم شہروں کی طرح امریکی بارڈر سے بالکل قریب واقع ہے، یہ فرانسیسی بولنے والے صوبے کیوبک کا صدر مقام ہے اور یہاں 1976 میں اولمپک گیمز کا انعقاد بھی ہو چکا ہے۔
ایئرپورٹ سے ہم برادرم محمود الحسن کی گاڑی میں آئے تھے اور اب وہی خوش گو شاعر اور بے حد محبتی توقیر شاہ کے ساتھ ہمیں آٹوا تک لے جا رہے تھے۔ تقریب میں پاکستانی قونصل جنرل عامر خاں آخر تک نہ صرف ساتھ رہے بلکہ ان کا بہت محبت بھرا اصرار بھی تھا کہ ہم کچھ وقت ان کے گھر یا قونصلیٹ میں بھی گزارتے جو ہمارے لیے ممکن نہ تھا، ان کے فون پر ہی آٹوا میں پاکستان کے سفیر طارق عظیم نے رابطہ کیا اور خواہش ظاہر کی کہ ہم آج شام یا کل صبح کا کچھ وقت ان کے ساتھ گزاریں۔ انھوں نے ہنستے ہوئے بتایا کہ ان کا باورچی آلو کے پراٹھے بہت اچھے بناتا ہے مگر یہ بھی ممکن نہ ہو سکا کیونکہ اگلے دن ہماری فلائٹ صبح سات بجے تھی اور شام پہلے سے سر پر کھڑی تھی، بہر حال یہ جان کر خوشی ہوئی کہ اب ہمارے بیرون ملک متعین ڈپلومیٹ اس بات کا خیال رکھنے لگے ہیں کہ اپنے ملک کے تہذیبی سفیروں کو بھی وہ عزت دیں جو وہ اپنے لیے چاہتے ہیں۔
آٹوا میں ہمارے احباب میں سے صرف ایک ولی عالم شاہین ہی تھے جن سے پرانی یاد اللہ تھی کہ باقی سب لوگ کسی نہ کسی وجہ سے اب وہاں نہیں تھے۔ برادرم ڈاکٹر انور نسیم سے بھی پہلی بالمشافہ ملاقات یہیں ہوئی تھی۔ معلوم ہوا کہ وہ پندرہ بیس سال پاکستان میں رہنے کے بعد اب پھر اپنے بچوں کے پاس کینیڈا آ گئے ہیں مگر باوجود کوشش کے ان سے رابطہ نہ ہوسکا۔
مقامی میزبان ڈاکٹر عبدالعزیز تھے جنہوں نے پتہ نہیں کیوں تقریب اور مشاعرے کے لیے وہاں کے اسلامی منسٹر کے ایک ہال کو منتخب کیا تھا کہ اس کی وجہ سے نمازوں اور کھانے کے لیے تین بار وقفہ کرنا پڑا۔ ہمارے مرکزی میزبان شوکت بھائی کے کہنے پر انھوں نے مقامی شاعروں کی تعداد 25سے گھٹا کر 12تو کر دی تھی مگر ان میں سے دو تین ''اساتذہ'' نے اس تخفیف کو محسوس ہی نہیں ہونے دیا، رہی سہی کسر ہمارے میزبان نے اپنے جوش محبت سے پوری کر دی کہ آدھی رات کو ہمیں غلط ہوٹل میں لے گئے سامان رکھنے اتارنے شوکت بھائی سے ہوٹل کے اصل نام کی تصدیق کرنے اور راستہ ڈھونڈنے میں تقریباً ایک گھنٹہ لگ گیا۔ صبح کا ناشتہ بھی ان کی طرف تھا جو تمام گھر والوں نے مل جل کر بقول ان کے رات تین بجے تیار کر لیا تھا۔
ڈاکٹر صاحب نے اپنے وعدے کے مطابق پراٹھے یقیناً بہت منفرد قسم کے بنائے ہوں گے مگر صبح دس بجے تک ان کا تازہ رہنا کسی طور بھی ممکن نہیں تھا، اس پر وہ صاحب تابوب کی آخری کیل ثابت ہوئے جن کے ذمے ہمیں ایئرپورٹ چھوڑنے کی ذمے داری تھی، موصوف کا جی پی ایس' یادداشت اور کامن سنس تینوں بیک وقت کام نہیں کر رہے تھے، سو ہوا یوں کہ راستوں کے نشانات دیکھ دیکھ کر ہم مسافروں کو ان کی رہنمائی کرنا پڑی۔ آٹوا کینیڈا کا اسلام آباد یعنی اس کا دارالخلافہ ہے سو اس کی فضا میں بھی ''ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ'' والی کیفیت نمایاں تھی۔ وہاں سے ٹورانٹو تک کی مختصر فلائٹ کا دورانیہ روحی کنجا ہی کے اسی ایورگرین قسم کے مصرعے کی صحبت میں کٹا کہ
''حالانکہ اس سے فرق تو پڑتا نہیں کوئی''