پاتانجلی مصنوعات اور ہم

گائے نہ صرف مقدس ہے بلکہ اس کا پیشاب اور فضلہ بھی مقدس خیال کیا جاتا ہے



MINGORA: بھارت میں چاند، ستارے، سورج، زمین، آسمان، پہاڑ، دریا، پتھر، روڑے غرض ہر چیز مقدس اور پوتر ہی نہیں بلکہ ان کی پرستش بھی کی جاتی ہے۔ اسی میں گائے بھی سرفہرست ہے۔ یوں تو ہاتھی، بندر، ہرن، مور کون سا جانور یا پرندہ ایسا ہے جو مقدس نہ ہو یا جس کی پوجا نہ کی جاتی ہو۔

گائے نہ صرف مقدس ہے بلکہ اس کا پیشاب اور فضلہ بھی مقدس خیال کیا جاتا ہے۔ ماضی میں بھی بھارت کے چند سیاسی رہنما گائے کا موتر پیا کرتے تھے ور اسے اپنے لیے باعث شفا گردانتے تھے۔

آج کل گؤ رکشا کی جو لہر چلی ہے اور جس کی بھینٹ خون مسلم بڑی ارزانی سے چڑھایا جا رہا ہے وہ تو اس کی ظاہری اور متعصبانہ شکل ہے ورنہ گائے اور اس کے فضلات ہندو معاشرے میں ہمیشہ مقدس رہے۔

جب سے مودی جی برسر اقتدار آئے ہیں گائے کا تقدس صرف ہندوؤں کے لیے مخصوص نہیں رہا ہے بلکہ دوسروں کو بھی چار و ناچار اسے مقدس ماننے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔

مودی جی کے ایک گرو ہیں، ہماری زبان میں انھیں پیر صاحب کہا جاتا ہے۔ گروجی وزیراعظم کے گرو ہیں تو ان پر سات خون معاف ہیں۔ وہ بہت بڑے تاجر ہیں اور انواع و اقسام کی اشیا بناتے اور بیچتے ہیں۔ 2016 میں بابا رام دیو (گروجی) کا منافع دو ہزار کروڑ روپے تھا۔ لیکن انھوں نے 2017 کے لیے منافع کا تخمینہ 11 ہزار کروڑ روپے رکھا ہے۔

بابا رام دیو کا کہنا ہے کہ وہ بہت جلد بھارت کی مقامی اور بین الاقوامی کمپنیوں سے مارکیٹ چھین لیںگے۔ یہاں تک کہ بڑی بڑی ملٹی نیشنل کمپنیاں بھی ان کے سامنے گھٹنے ٹیک دیںگی۔ یہ کمپنیاں جو مصنوعات فروخت کرتی ہیں وہ متنوع بھی ہیں اور معیاری بھی۔ان کی جگہ لینے کا دعویٰ صرف وزیراعظم کا گرو ہی کرسکتا ہے۔ سو بابا رام دیو نے کردیا۔

بابا صاحب کی مصنوعات میں بیشتر میں گائے کا پوتر پیشاب شامل کیا جاتا ہے۔ البتہ ہر چیز میں اس کے تقاضے کے مطابق کم یا زیادہ مقدار ہوسکتی ہے۔بابا رام دیو کی کمپنی پاتانجلی انواع و اقسام کی چیزیں بناتی ہیں۔ اس میں آیورویدک ادویہ سے لے کر کھانے پینے تک کی سیکڑوں اشیا شامل ہیں۔ اگرچہ کبھی کبھی حقائق کو چھپانے کے لیے گؤ موتر کی آمیزش سے انکار بھی کیا جاتا ہے لیکن کمپنی کے بعض سابقہ ملازمین کا کہنا ہے کہ پاتانجلی کی ہر پروڈکٹ میں گائے کا مقدس پیشاب ضرور شامل کیا جاتا ہے۔ اس کے ثبوت میں یہ کہا جاتا ہے کہ اترکھنڈ ریاست سے ماہانہ دس ہزار لیٹر گؤ موتر کمپنی کو فراہم کیا جاتا ہے۔ اب مدھیہ پردیش راجھستان، مہاراشٹر، کرناٹک، آسام، چھتیس گڑھ، بہار اور دہلی سے پاتانجلی پروڈکٹس کے لیے ایک لاکھ لیٹر پیشاب فراہم کیا جاتا ہے۔

ایک ذریعہ کے مطابق چند مصنوعات مثلاً گودھن آرک، سنجیونی گیا سوپ، کایا کلپ آئل سودھی فنائل اور پتانجلی نوڈلز میں موتر کی مقدار کم رکھی جاتی ہے، جب کہ آرائشی کریموں، لوشنز اور غذائی اشیا میں اس مقدس مشروب کی کافی مقدار شامل کی جاتی ہے۔

اس صورت حال کے پیش نظر بھارت میں مسلمان علمائے دین نے بابا رام دیو کی کمپنی پاتانجلی کی مصنوعات کے استعمال نہ کرنے کا فتویٰ جاری کردیا ہے۔ یہ فتویٰ علمائے دیوبند، اہل سنت اور دیگر مسلم مفتیان کرام نے جاری کیا ہے، تاکہ مسلمان اس گندگی اور غلاظت سے محفوظ رہیں اور ایک حرام چیز کو استعمال کرنے اور آخرت کی جواب دہی سے محفوظ رہیں۔

گروجی بھی جہاں دیدہ ہیں، انھوں نے اپنی مصنوعات اب مقبوضہ کشمیر میں لانچ کرنا شروع کردی ہیں۔ جس طرح کشمیر میں ہندوؤں کی آبادکاری کے ذریعے مسلم اکثریت کو ختم کرنے کی سعی بے حاصل کی جارہی ہے، گروجی اب حرام اشیا کو مسلمانوں کے لیے حلال قرار دے کر ان کے ایمان کا بھی ستیاناس کرنا چاہتے ہیں۔ چنانچہ بعض مصنوعات بالکل اس طرح مفت تقسیم کی جارہی ہیں جس طرح انگریزوں کے عہد میں چائے کا عادی بنانے کے لیے چائے کے ساشے مفت تقسیم کیے جاتے تھے، لیکن ادھر کشمیر میں بھی علما بابا جی کی مصنوعات کے استعمال کے خلاف فتوے جاری کررہے ہیں۔ دارالعلوم بلالیہ کے مہتمم مفتی عبدالرشید نے واضح فتویٰ جاری کیا ہے کہ مسلمان ایسی کمپنی کی مصنوعات استعمال نہ کریں جن میں گائے کا پیشاب ملایا جاتا ہے۔

ادھر مودی صاحب کی سرپرستی کے باعث بابا رام دیو کی مصنوعات کا نہ تو تجزیہ کیا جاتا ہے نہ ان سے کسی قسم کی چھیڑ چھاڑ کی جاتی ہے، اور وہ ایک طرف کروڑوں میں کھیل رہے ہیں تو دوسری طرف مسلمانوں کا دین خراب کرکے پن (ثواب) حاصل کررہے ہیں۔

بھارت اور مقبوضہ کشمیر کے علمائے دین نے تو بابا جی کی مصنوعات کے خلاف فتاویٰ جاری کرکے بھارتی مسلمانوں کو متنبہ کردیا ہے اب اگر کوئی گائے کے پیشاب کو ہی مقدس خیال کرے تو اپنی ذمے داری پرکرے۔

مگر یہ خبر صرف بھارتی مسلمانوں کی تشویش کا باعث نہیں۔ ہمارے بازاروں میں درجنوں بھارتی اشیا اسمگل ہوکر آتی اور شوق سے استعمال کی جاتی ہیں۔ ہمیں تو دشمنی کا حق ادا کرنا بھی نہیں آتا۔ بھارت کے خلاف نعرے بازی ہم سے کرا لو، مگر بھارت میں بننے والا ہر گٹکا، چھالیہ اور اسی نوعیت کی چیزیں آپ کو ہر پان کی دکان پر مل جائیںگی۔

یہ ناجائز طور پر اسمگل ہوکر آتی ہیں اور بڑے شوق سے استعمال ہوتی ہیں۔ ہم کروڑوں روپے کا زرمبادلہ طشتری میں رکھ کر بھارت کو پیش کرتے ہیں۔ مگر نہ ہمارے عوام اس کی پرواہ کرتے ہیں نہ ہی حکومت کے کارندے۔ ان بے چاروں کی تو نظریں کمزور ہیں انھیں دکانوں پر لٹکے ہوئے گٹکے کے ساشے کہاں نظر آتے ہیں۔ پاتانجلی کی جن مصنوعات کا اوپر ذکر ہوا ان میں آرائشی کریمیں، لوشن اور غذائی اشیا بھی شامل ہیں۔ ہماری حسن آگاہ خواتین ان غیر ملکی آرائشی کریموں کا فخریہ استعمال کرتی ہیں۔ غذائی اشیا بھی اسمگل ہوتی ہیں اور خوب استعمال ہوتی ہیں۔

ہمارے یہاں کسی نے اس خطرے کو محسوس ہی نہیں کیا اس لیے فتویٰ بھی جاری نہ ہوا۔ ہمارا تاجر صرف اپنا منافع دیکھتا ہے اس لیے ایسے مواقع پر اس کے اسلامی جذبات سوئے رہتے ہیں۔ ہماری حکومت خود کبوتر بنی ہوئی ہے جس نے ہر چیز سے آنکھیں بند کر رکھی ہیں اور ہم ''پوتر پیشاب '' سے متمتع ہو رہے ہیں۔

ہمارے دین کو کوئی خطرہ نہیں، کیونکہ ہم اسلامی جمہوریہ پاکستان کے باسی ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں