میرے خیال میں
پاکستان کا عام آدمی برسوں سے غربت کی چکی میں پس رہا ہے
بن مانگے بھلا کون کسی کو اس کا حق دیتا ہے۔ پاکستان کا عام آدمی برسوں سے غربت کی چکی میں پس رہا ہے، مقتدر افراد کی جانب سے استحصال، ذلت بھی برداشت کررہاہے۔ لگتا ہے کہ عوام محض خواص کو ووٹ دے کر خاص بنانے کے لیے ہی پیدا ہوئے ہیں۔ شاید انھیں ملک میں اسی وجہ سے برداشت بھی کیا جارہا ہے کہ حرج ہی کیا ہے کہ کون سا ان پر کچھ خرچ کرنا پڑ رہا ہے۔
البتہ ان کا یہ فائدہ ہے کہ ان کے ووٹ سے ہم کرسیٔ اقتدار تک با آسانی پہنچ جاتے ہیں۔ ''اگر یہاں پڑے ہیں تو کسی سے کیا لیتے ہیں'' بد سے بد ترکام کرنے پر تیار ہوجاتے ہیں، صرف پیٹ کا دوزخ بھرنے کے لیے۔ ایسا ملک جہاں آبادی کا نصف سے زائد خطِ غربت سے نیچے زندگی بسرکررہا ہو، چالیس میں سے تیس فی صد خط غربت سے ذرا اوپر اور باقی دس فی صد کے ہاتھ میں ملک کے تمام وسائل، تمام دولت، تمام مراعات ہوں مگر ملک کیونکہ ملک خداداد ہے لہٰذا اس کو چلا بھی رہا ہے اﷲ تعالیٰ ورنہ صاحبان اقتدار نے تو اس کو توڑنے اور ڈبونے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔
ملکی ترقی اور بہتری کے فلک شگاف نعرے تمام ذرایع ابلاغ سے بلند ہوتے رہتے ہیں مگر ٹیکس اور بیرونی قرض بڑھتا ہی جاتا ہے۔ بڑی بڑی جاگیروں کے مالک ٹیکس سے مستثنیٰ ہیں، صنعت کار، تاجر بھی ٹیکس بچانے کے ماہر ہیں، ٹیکس صرف وہ دیتے ہیں جن کے ذرایع آمدنی محدود ہیں۔ معمولی ملازمین، اسکول کالج کے اساتذہ جن کی ماہانہ تنخواہ میں سے انھیں ملنے سے پہلے ہی ٹیکس منہا کرلیا جاتا ہے۔ ہمارے وزرائے اعلیٰ، وزیراعظم اور ان کی کابینہ کے وزرا جو بلند بانگ دعوے کرتے ہیں، طرح طرح کی اسکیمیں روز متعارف کرواتے ہیں اگر وہ واقعی مکمل ہوتیں تو ملک کی حالت کب کی سدھر چکی ہوتی۔ ''مگر یہ ہو نہ سکا اور اب یہ عالم ہے'' کہ جاگیردار، وڈیرے، پٹواری پولیس اہلکار اور دیگر با اختیار ادارے کیا گل کھلارہے ہیں۔
چند روز کے اخبار اٹھائے خبریں دیکھے جو کہ آپ پہلے ہی دیکھ چکے ہوںگے ایک بار پھر نظر ڈالیے تو اصل پاکستان آپ کو نظر آجائے گا۔ کچھ پرانے اورکچھ تازہ اخبارات سے چند خبریں پیش خدمت ہیں۔ بلاول ہاؤس، قونصل خانوں اور اہم مقامات پر رکاوٹیں غیر قانونی ہیں۔ وزرا کی غیر حاضری، چیئرمین سینیٹ احتجاجاً کام چھوڑ کر چلے گئے، حکومت منانے میں ناکام (خبر) ادارے تباہ کرنے کا ذکر سب کرتے ہیں، مگر جن اداروں پر ملکی عمارت استوار ہے جب وہی تباہ کرنے کی، ان کے وقار کو نقصان پہنچانے کی دانستہ کوشش خود صاحبان اقتدار کی جانب سے کی جائے تو پھر کسی سیاسی جماعت یا کسی شخص پر ملک کے خلاف سازش یا ملک کو کمزور کرنے کا (مصدقہ یا غیر مصدقہ) الزام عائد کرنا حکومت کے کردار اور عزائم کو کیا شفاف ثابت کرسکتا ہے؟
طالب علم مشال نے توہین رسالت نہیں کی، قانون ہاتھ میں لینا غلط ہے، اشرفی، الزام لگانے والوں کو بھی توہین رسالت کی سزا دی جائے، مفتی نعیم (خبر) ہونا تو یہی چاہیے مگر اس سے کئی برس قبل سیالکوٹ کے دو بھائیوں کے پولیس کی موجودگی میں محض چوری یا ڈکیتی کے غلط الزام پر بہیمانہ قتل کے خلاف اگر پورا ملک بالخصوص ہر ماں سراپا احتجاج بن کر سڑکوں پر آجاتی اور مجرموں کو ایسی ہی درد ناک سزا فوراً دلائے بغیر کوئی بھی سڑکوں سے گھر نہ جاتا تو مشال اور بے شمار جوان جعلی مقابلوں، جھوٹے الزام، سیاسی مخالفت اور مذہبی انتہا پسندی کی بھینٹ نہ چڑھتے سیکڑوں افراد لاپتہ نہ ہوتے۔ مگر اجتماعی بے حسی کے باعث آج کسی کا بھی نور نظر لخت جگر کسی بھی جگہ محفوظ نہیں، چاہے وہ درس گاہ ہی کیوں نہ ہو۔
ہمارے مطالبات نہ مانے تو کراچی کی تباہی کوئی نہیں روک سکتا، حکمرانوں نے قرآن پر حلف اٹھایا ہے کہ عوام کو ان کے حقوق دیںگے، مصطفی کمال۔ (خبر) اگر مسائل حل کرانے کے لیے اصل زور مسائل پر ہی ہو سیاسی قد بڑھانا نہ ہو، حق دار کو اس کا حق دلانے کی نیت ہو تو در اصل یہی شفاف سیاست ہے، اور عوام کی حقیقی خدمت بھی پی ایس پی کا عوامی حقوق کے لیے جد وجہد اور جذبہ قابل تعریف ہے۔
یوکرین میں ہر سرکاری ملازم عوام کو جواب دہ ہے، سرکاری ملازم ہر ماہ قومی انسداد بد عنوانی بیورو کو اپنے اثاثہ جات اور اخراجات پیش کرتا ہے، جسے کوئی بھی شہری چیلنج کرسکتا ہے، سفیر (خبر) کمال ہے یہ بھی کوئی ملک ہوا، بڑے اور دبنگ ملک میں تو حکمران بھی کسی کو جواب دہ نہیں حتیٰ کہ عدالت کو بھی نہیں، عام شہری کی کیا مجال کہ وہ کسی وزیر، کسی ادارے کے سربراہ یا ملکی سربراہ سے جواب طلب کرے۔ جائیداد میں حصہ قرآن نے مختص کیا، بہنوں کو کیوں نہیں دیا جاتا، (خبر) ایسے فیصلے آتے رہتے ہیں، اگر ان پر عمل بھی ہو تو خواتین کے تحفظ کے لیے کسی این جی او یا کسی بھی فاؤنڈیشن کی ضرورت پیش نہ آئے۔