عفُو ودَرگذر پُرامن بقائے باہمی کا راز

آج ہمارے معاشرے کو بدلے، زیادتی اور انتقامی جذبات کی آگ نے ہر طرف سے جھلسا رکھا ہے


حضرت ابی بن کعبؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ جو شخص یہ چاہتا ہو کہ جنت میں اس کے لیے محلات تعمیر کیے جائیں اور اس کے درجات بلند کردیے جائیں تو اسے چاہیے کہ وہ ظلم کے جواب میں عفو و درگزر سے کام لے، محروم کرنے والے کو عطا کرے اور قطع تعلقی کرنے والے سے صلۂ رحمی کا سلوک کرے۔‘‘فوٹو : فائل

ﷲ تعالیٰ کی صفات میں سے ایک صفت ''عفو'' بھی ہے۔ جس کا معنی و مفہوم یہ ہے کہ مجرم ، خطاکار اور سزاوارِ عذاب کے مستحق کو معاف کرنے والا اور اس کی نافرمانیوں، خطاؤں اور گناہوں سے درگزر کرنے والا۔ جرم ، غلطی اور نافرمانی کے باوجود سخت برتاؤ کے بہ جائے نرمی و محبت سے پیش آنے والا۔ تمام انبیائؑ بالخصوص خاتم الانبیاء حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم اﷲ تعالیٰ کی صفت ِ''عفو '' کے مکمل آئینہ دار تھے۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی عملی زندگی اس دعوے کی سب سے بڑی، روشن اور واضح دلیل ہے۔

سیرت کی تمام کتب میں ملتا ہے کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو ( معاذاﷲ ) دکھوں، مصیبتوں، پریشانیوں اور مشکل حالات سے دوچار کرنے والے، آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی ذات اقدس کو رنج و غم اور تکالیف میں مبتلا کرنے والے، آپؐ کو ہر طرح کی اذیتیں دینے والے، مارنے پیٹنے والے، گردن مبارک میں کپڑے اور رسیاں ڈال کر بھینچنے اور بَل دینے والے، آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے مقدس جسم کوتیر و تفنگ، نیزوں اور پتھروں سے لہولہان کرنے والے، آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو ذہنی کوفت دینے والے، آپ صلی اﷲ علیہ وسلم پر ساحر، مجنون اور دیوانے جیسے ناپاک جملے کسنے والے، آپؐ کو اپنے وطن سے ہجرت پر مجبور کرنے والے، آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے آل و اصحاب علیہم الرضوان کوخاک و خون میں تڑپا تڑپا کر شہید کرنے والے، حتی کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی جان کے پیاسے کھانے میں زہر دینے والے لوگ جب مفتوح، جنگی قیدی اور بے بس ہو کر مکمل طور پر آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی دست رس میں آئے تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے انہیں نہ صرف یہ کہ دل و جان سے معاف کر دیا بل کہ ان کو اپنے سینے سے لگایا اور ان کے لیے اﷲ تعالیٰ سے دعائیں کیں۔ یہی وجہ تھی کہ وہ لوگ جو کبھی اسلام کو دیس نکالا دینا چاہتے تھا اسلام نے خود انہی کے دلوں میں ڈیرہ ڈال دیا۔

انسانی معاشرے میں امن و امان اور سکون و راحت کا خوش گوار ماحول بنانے کے لیے اﷲ تعالیٰ اور اس کے آخری نبی حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم نے ''عفو و درگزر'' پر بہت زور دیا ہے۔ قرآن کریم میں متعدد مقامات پر عفو و درگزر کی فضیلت، اجر و ثواب، اس کی معاشرتی اہمیت و ضرورت کو واضح لفظوں میں بیان کیا گیا ہے۔ اﷲ کے برگزیدہ نیک بندوں کی اعلیٰ صفات کا جہاں تذکرہ ہے وہاں پر ان کی عفو و درگزر جیسی عمدہ صفت سرفہرست ہے۔ چوں کہ غصے کا آنا ایک فطری عمل ہے اور اس کی وجہ سے معاشرہ میں خون خرابہ، قتل و غارت اور دشمنی و عداوت پیدا ہوتی ہے اس لیے شریعت نے اس کا حل عفو و درگزر کو قرار دیا ہے۔ لیکن یہ بات اچھی طرح یاد رہے کہ عفو و درگزر کا حکم ایسے معاملات میں ہے جن کا تعلق انسان کی اپنی ذات سے ہوتا ہے اور اگر معاملہ دین اسلام اور پیغمبر اسلامؐ کی عزت و حرمت کا ہو تو وہاں غصے کا نہ آنا مذموم و ناپسند ہے۔ وہ کفار اور دین دشمن قوتیں جو اسلام اور اہل اسلام کو مٹانے کے درپے ہوں ان کے بارے میں ہرگز عفو و درگزر کا حکم نہیں۔ اسی طرح سماجی برائیوں کو روکنے اور ختم کرنے کے لیے قانونی سزائیں جاری کرنے میں بھی عفو و درگزر سے کام نہیں لیا جائے گا، ورنہ بدامنی مزید پھیلے گی۔

قرآن کریم کی طرح احادیث مبارکہ میں بھی جہاں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے اپنے عفو و درگزر کے سیکڑوں بل کہ ہزاروں واقعات ملتے ہیں، وہاں پر آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس کی تعلیم اور خوب ترغیب بھی دی ہے۔

٭ حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا : '' معاف کرنے والے کی اﷲ تعالیٰ عزت بڑھا دیتے ہیں۔''

( صحیح مسلم، باب استحباب العفو والتواضع، حدیث نمبر 6757 )

٭ حضرت عبداﷲ بن عمرو بن عاص رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا : '' تم مخلوق پر رحم کرو اﷲ تم پر رحم فرمائے گا اور تم لوگوں کو معاف کرو اﷲ تمہیں معاف کرے گا۔'' (مسند احمد ، حدیث نمبر6541 )

٭ حضرت ابی بن کعب رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا : '' جو شخص یہ چاہتا ہو کہ جنت میں اس کے لیے محلات تعمیر کیے جائیں اور اس کے درجات بلند کر دیے جائیں تو اسے چاہیے کہ وہ ظلم کے جواب میں عفو و درگزر سے کام لے، محروم کرنے والے کو عطا کرے اور قطع تعلقی کرنے والے سے صلہ رحمی کا سلوک کرے۔''

( مستدرک حاکم ، تحت تفسیر سورۃ آل عمران، حدیث نمبر3161 )

٭ حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا : ''جس کے پاس اس کا بھائی معذرت خواہ ہو کر آئے تو اس کا عذر قبول کرے خواہ صحیح ہو یا غلط۔ اگر ایسا نہیں کرے گا تو میرے حوض پر نہ آئے۔''

( مستدرک حاکم، کتاب البر والصلۃ، حدیث نمبر7258 )

٭ حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا : '' تین عادتیں جس شخص کے اندر ہوں گی اﷲ تعالیٰ قیامت کے دن اس سے آسان حساب و کتاب لے گا اور اپنی رحمت کے ساتھ جنت میں داخل فرمائے گا۔ صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم نے عرض کی ہمارے ماں باپ آپؐ پر قربان ہوں وہ کون سی تین عادات ہیں ؟ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے جواب دیا : جو تمہیں محروم کرے تم اسے نواز دو، جو تم سے تعلق توڑے تم اس سے جوڑو اور جو تجھ پر ظلم کرے تم عفو و درگزر سے کام لو۔ جب تم یہ کام کر لو تو جنت میں داخل ہو جانا۔''

( مستدرک حاکم، تحت تفسیر سورۃ اذا السماء انشقت، حدیث نمبر3912 )

٭ حضرت انس بن مالک رضی اﷲ عنہ روایت ہے کہ ایک بار ہماری مجلس میں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم تشریف فرما تھے ہم نے دیکھا کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم مسکرائے یہاں تک کہ آپ کے سامنے کے دانت مبارک نظر آنے لگے۔ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ سے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم سے عرض کی یا رسول اﷲ ﷺ! میرے ماں باپ آپ پر قربان کس وجہ سے آپ مسکرا رہے ہیں؟ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا : میری امت کے دو آدمیوں نے اﷲ رب العزت کے ہاں کسی معاملے پر بحث و مباحثہ کیا ایک ان میں سے کہنے لگا کہ اے اﷲ میرے بھائی نے جو مجھ پر زیادتی کی مجھے اس کا بدلے میں اس کی نیکیاں عطا کر۔ اﷲ تعالیٰ نے اسے کہا: اس کی نیکیاں تمہیں کیسے بدلے کے طور پر دوں وہ تو ختم ہوچکی ہیں ؟ وہ شخص کہنے لگا اے میرے رب پھر میرے گناہ اس پر ڈال دے۔

یہ بات کہتے ہوئے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی آنکھیں بہہ پڑیں آپ روئے پھر فرمایا: بے شک وہ دن بہت بڑا دن ہے اس دن لوگ یہ چاہیں گے کہ ان کے گناہ ان سے ہٹا کر دوسروں پر ڈال دیے جائیں۔ پھر آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا : کہ اﷲ تعالیٰ نے اس نیکیاں طلب کرنے والے شخص سے فرمایا : آنکھ اٹھاؤ اور دیکھو۔ اس نے آنکھ اٹھائی اور کہا : اے میرے رب میں سونے کے شہر اور سونے کے محلات دیکھ رہا ہوں جس میں موتی جڑے ہوئے ہیں یہ کسی نبی کے لیے ہیں ؟ یا کسی صدیق یا کسی شہید کے لیے ہیں ؟ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا : یہ اس کے لیے جو اس کی قیمت ادا کرے گا۔ وہ شخص کہنے لگا کہ اس کی قیمت کون ادا کرے گا ؟ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا کہ تو اس کا مالک ہو سکتا ہے۔ وہ شخص پوچھنے لگا کہ وہ کیسے ؟ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر تو اپنے بھائی کو معاف کر دے تو تُو اس کا مالک بن سکتا ہے۔ وہ شخص کہنے لگا کہ اے میرے رب میں نے اپنے بھائی کو معاف کیا۔ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا: اپنے بھائی کا ہاتھ پکڑ کر جنت میں داخل ہوجا۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس واقعے کو آیت کی تفسیر کے طور پر ذکر فرمایا کہ جس کا ترجمہ یہ ہے : اﷲ سے ڈرو اور باہمی صلح صفائی سے معاملات طے کرو ، بے شک اﷲ تعالیٰ مسلمانوں کے درمیان صلح کرانے والے ہیں۔

( مستدرک حاکم، کتاب الاحوال، حدیث نمبر 8718 )

آج ہمارے معاشرے کو بدلے، زیادتی اور انتقامی جذبات کی آگ نے ہر طرف سے جھلسا رکھا ہے۔ ہمارے اخلاق و عادات کو ظلم کی دیمک چاٹ رہی ہے۔ ہر طرف سے اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کی آوازیں سنائی دیتی ہیں۔ ہر شخص نواب کے مقابلے میں ڈیڑھ نواب بننے کو تْلا بیٹھا ہے۔ غلطی اور جرم سے بڑھ کر سزا اور بدلے کی روش ظلم در ظلم کی شکل میں دکھائی دے رہی ہے۔ افسوس کہ آج ہمارے دل، رحم و کرم، صبر و تحمل اور عفو و درگزر جیسی اعلیٰ اوصاف سے یک سر خالی ہو رہے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ہماری اجتماعی طاقت کا شیرازہ بکھر کر پارہ پارہ ہوچکا ہے۔ باہمی نفرت و عدوات، لڑائی جھگڑے اور انتقامی کارروائیوں نے ہماری ہیبت و جلال، سطوت و شوکت اور وجاہت و دبدبے کو سلب کرلیا اور آپس کے انتشار کی وجہ سے ہماری ہوا اکھڑ گئی ہے۔

آئیے عزم کریں! محض ارادے نہیں بل کہ فیصلے کریں! کہ ہم سب ایسی زندگی گزاریں گے جو اﷲ اور اس کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کو پسند ہو، معاشرے کو خوش گوار، محبت افزاء اور پرامن بنانے کے لیے بقائے باہمی پر عمل کریں گے اور اپنے اندر دیگر اعلی اوصاف کی طرح عفو و درگزر کی صفت بھی پیدا کریں گے۔ آئندہ اس امید بل کہ پختہ یقین کے ساتھ لوگوں کی غلطیاں اور جرائم کو معاف کریں گے کہ کل روز قیامت اﷲ کریم عفو و درگزر کا معاملہ کرتے ہوئے ہماری غلطیاں اور ہمارے جرائم معاف کر دے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں