جوش اور فیض کی فلمی شاعریآخری حصہ
قفس اداس ہے یارو صبا سے کچھ تو کہو<br />
<br />
کہیں تو بہرِ خدا آج ذکرِ یار چلے
فیض احمد فیض نے باقاعدہ طور پر جن فلموں کے لیے لکھا تھا وہ 'قسم اس وقت کی، جاگو ہوا سویر اور 'سکھ کا سپنا'' تھیں۔ ''قسم اس وقت کی'' میں جہاں جوش ملیح آبادی نے بڑے جوش وخروش سے گیت لکھے وہاں فیض احمد فیض نے بھی بڑی محبت سے اس فلم کو اپنا وقت دیا تھا۔ اس فلم میں جوش صاحب کا لکھا ہوا ایک گیت مجیب عالم نے گایا تھا۔ جس کی موسیقی سہیل رعنا نے مرتب کی تھی اورگیت کے بول تھے ''اس دھوپ کنارے شام ڈھلے اور فیض صاحب کی ایک اور غزل کو اس فلم میں گلوکارہ فریدہ خانم پر ہی فلمایا گیا تھا۔ اور یہ غزل نیول اکیڈمی کے ایک کنسرٹ میں گاتی ہوئی دکھائی گئی تھی جس کے بول تھے:
سب قتل ہو کے تیرے مقابل سے آئے ہیں
قسم اس وقت کی بلیک اینڈ وہائٹ فلم تھی جو 12دسمبر 1969 میں کراچی کے نشاط سینما میں عیدالفطر کے موقعے پر ریلیز ہوئی تھی اس فلم کی کہانی پروفیسر احمد علی اور مکالمے شاہد حسین نے لکھے تھے اور اس فلم کے گیتوں کی موسیقی تین موسیقاروں سہیل رعنا، خان عطا الرحمن اوراستاد نتھو خاں نے دی تھی۔ اب میں آتا ہوں ان مشہور اور تاریخی فلموں کی طرف جو مصنف ریاض شاہد اور ہدایتکارخلیل قیصر کی کاوشوں کا نچوڑ تھیں اور جنھیں عوام میں بھی بڑی مقبولیت حاصل ہوئی تھی اور ان فلموں میں فلمسازوں اور ہدایت کاروں نے فیض صاحب کی اجازت کے ساتھ ان کی شہرۂ آفاق نظمیں اور غزلیں اپنی فلموں کی زینت بنائی تھیں اور یہ نظمیں غزلیں ادب کا قیمتی سرمایا تھیں۔ یہ نظم جسے منیر حسین کی آواز میں رشید عطرے نے موسیقی کے حسن سے سنوارا تھا۔
نثار میں تری گلیوں کے اے وطن کہ جہاں
چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے
یہ نظم فلم میں اداکار اعجاز پر عکس بند کی گئی تھی۔ فیض صاحب کی دوسری لازوال نظم جسے فلم فرنگی میں شمیم آرا پر فلمایا گیا تھا اس نے بھی ایک نئی تاریخ رقم کی تھی۔ رشید عطرے کی موسیقی میں جسے نسیم بیگم نے کیا خوب گایا تھا۔ اس کے چند اشعار بھی نذرِ قارئین ہیں:
ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے
تیرے ہونٹوں کے پھولوں کی چاہت میں ہم
فلم ''فرنگی'' ہی میں فیض احمد فیض کی ایک اور شہرۂ آفاق غزل کو شامل کیا گیا تھا۔ یہ غزل ریڈیو پاکستان کراچی اسٹیشن سے پہلی بار نشر ہوئی تھی۔ سلیم گیلانی ان دنوں ڈائریکٹر تھے، ان کے کہنے پر مہدی حسن نے اس غزل کی ریکارڈنگ کی تھی اور اس غزل کی دھن مہدی حسن کے بڑے بھائی پنڈت غلام قادر نے بنائی تھی۔ غلام قادر کو ہندوستان میں فن موسیقی میں پنڈت کی ڈگری سے نوازا گیا تھا۔ پھر مہدی حسن اپنے اہل خانہ کے ساتھ راجھستان سے پاکستان آگئے تھے۔ اورکراچی کی کئی فلموں میں آواز کا جادو جگا چکے تھے۔ ریڈیو پاکستان کراچی میں ریکارڈ کی گئی فیض صاحب کی غزل کا مطلع تھا:
گلوں میں رنگ بھرے بادِ نور بہار چلے
چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے
مہدی حسن کی آواز میں ریکارڈنگ کے بعد جیسے ہی غزل منظر عام پر آئی تو اس غزل نے ایک دھوم مچا دی تھی۔ پاکستان کے ہر ریڈیو اسٹیشن سے صبح وشام اور رات اسی غزل کی فرمائشیں ہوتی تھیں اور صحیح معنوں میں مہدی حسن کی سریلی آواز کو اور اس غزل کو لاکھوں سننے والوں نے پسندیدگی کی سند عطا کی تھی اور یہ غزل مہدی حسن کا بھی ایک قیمتی اثاثہ بن گئی تھی۔ اسی غزل کی بدولت مہدی حسن لاہور کی فلم انڈسٹری میں شہنشاہ غزل بن کر داخل ہوئے تھے۔ اس غزل کے چند اور خوبصورت اشعار قارئین کی نذر ہیں۔
قفس اداس ہے یارو صبا سے کچھ تو کہو
کہیں تو بہرِ خدا آج ذکرِ یار چلے
یہ غزل فلم میں اداکار علاؤ الدین پر فلمائی گئی تھی۔اس غزل نے مقبولیت کے سارے ریکارڈ توڑ دیے تھے یہ غزل ہندوستان میں بھی بہت سے لوگوں نے گائی اورہدایت کار وشال بھردواج نے اپنی فلم ''حیدر'' میں تھیم سانگ کے طور پر استعمال کی اور اس غزل کو وشال کی موسیقی میں سنگر اری جیت نے گایا تھا۔ کہتے تھے ارے بھئی اب اس غزل کو میں بھول گیا ہوں یہ غزل اب میری نہیں مہدی حسن کی ہے۔ اب تو یہ غزل گلوکار مہدی حسن ہی کی آواز میں اچھی لگتی ہے۔
اس غزل کو پھر نگار ایوارڈ کے بعد بے شمار ایوارڈز اورملکی اعزازات سے نوازا گیا تھا۔ اس غزل کو البتہ ایک کریڈٹ یہ بھی جاتا ہے جو فیض احمد فیض ادب کی دنیا کے نامور شاعرمشہور تھے اب اس غزل کے بعد برصغیرکے کروڑوں لوگوں کے پسندیدہ شاعر بن کر ان کے دلوں میں بھی بستے چلے گئے تھے۔ اب میں فیض صاحب کی ایک اور خوبصورت، دلکش اور شہرۂ آفاق نظم جسے ادب کا شاہکار تصورکیا جاتا ہے اس کی طرف آتا ہوں جسے فلم ''قیدی'' میں فیض صاحب کی اجازت سے لیا گیا تھا اور اس طلسماتی حسن رکھنے والی نظم کو ملکۂ ترنم نور جہاں نے بھی بڑی چاہت، بڑے رچاؤ اور بہت سی لگن کے ساتھ سروں میں ڈوب کر گایا تھا اور اس نظم کو اداکارہ شمیم آرا پر فلمایا گیا تھا جس کے کچھ اشعار نذر قارئین ہیں۔
مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ
میں نے سمجھا تھا کہ تو ہے تو درخشاں ہے حیات
تیرا غم ہے تو غم دہر کا جھگڑا کیا ہے
تیری صورت سے ہے عالم میں بہاروں کو ثبات
تیری آنکھوں کے سوا دنیا میں رکھا کیا ہے
اس نظم کو اس فلم میں آنے کے بعد ہندوستان کی کئی نامور گلوکاراؤں نے بھی خوب گایا تھا اور فیض احمد فیض کی اس نظم نے لاکھوں دلوں کو اسیرکرلیا تھا اور یہ ایک نظم ہی فلم ''قیدی'' کے لیے کامیابی کی سند بن گئی تھی، یہ فلم ایورنیو اسٹوڈیو کے مالک آمنا بی اے گل نے پروڈیوس کی تھی اور فلم کے ہدایت کار نجم نقوی تھے یہ وہی نجم نقوی تھے جنھوں نے اپنی فلم ''کنواری بیوہ'' کے لیے ایک نئی لڑکی پتلی بائی کوکراچی سے لاہور بلایا تھا اور اس کا فلمی نام شمیم آرا رکھا تھا اور پھر یہی شمیم آرا فلم انڈسٹری کی آنکھوں کا تارا بن کر ساری فلم انڈسٹری پر چھاگئی تھی۔
فلم قیدی میں فیض صاحب کی نظم کو شمیم آرا نے بھی بڑی محنت سے عکس بند کرایا تھا اور اس کی اداکاری اپنے عروج پر تھی پھر میڈم نور جہاں کی آواز نے سونے پہ سہاگہ کا کام کیا تھا اور یہ نظم فلمی تاریخ کا بھی ایک روشن باب بن گئی تھی اس فلم کے کچھ عرصہ بعد ایک نجی محفل میں جہاں میڈم نور جہاں اور فیض احمد فیض بھی موجود تھے۔ احباب نے فیض صاحب سے ان کی نظم مجھ سے پہلی سی محبت سنانے کی فرمائش کی تو فیض صاحب نے مسکراتے ہوئے کہاتھا۔ آپ کس نظم کی بات کررہے ہیں یہ نظم اب میری کہاں رہی یہ تو میڈم نور جہاں کی ملکیت میں آگئی ہے۔ اب اس نظم پر میرا کوئی حق نہیں رہا پھر نور جہاں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا آپ اس نظم کی ان سے فرمائش کریں اگر میڈم سنادیتی ہیں تو میرے لیے بھی یہ نظم آج میرے سر آنکھوں پر ہے۔
میڈم نور جہاں نے بھی مسکراتے ہوئے پہلو بدل کرکہا تھا میرے لیے تو یہ بھی اعزاز کی بات ہوگی مگر اس محفل میں نہ ہارمونیم تھا اور نہ ہی کوئی طبلہ بجانے والا، فنکار اور یہ ایک بڑا مشکل مرحلہ تھا۔ میڈم نور جہاں کے لیے مگر پھر بھی میڈم نور جہاں نے اس محفل میں بغیرکسی ساز اور بغیر سازندوں کی سنگت کے فیض کی یہ نظم فیض ہی کے رو برو اپنی مدھ بھری آواز میں پیش کرکے ایک سریلی تاریخ رقم کی تھی۔ میڈم آنکھیں بند کیے سروں میں ڈوب کر گارہی تھیں اور محفل پہ ایک سحر سا طاری تھا، ایسا لگتا تھا کہ کچھ دیرکے لیے وقت وہیں رک سا گیا ہے اور محفل کی فضائیں اس وقت پر نثار ہورہی تھیں اور تاریخ کے سنہرے اوراق میں وہ لمحات لکھے جاچکے تھے۔