امریکا اور شمالی کوریا میں کشیدگی کیا ہونے جارہا ہے کیا ایک نئی جنگ درپیش ہے

شمالی کوریا اور امریکا کے درمیان کشیدگی ان دنوں عروج پر ہے۔


شمالی کوریا اور امریکا کے درمیان کشیدگی ان دنوں عروج پر ہے۔ فوٹو : فائل

شمالی کوریا، مشرقی ایشیا میں واقع جزیرہ نما کوریا کے شمالی حصے پر مشتمل ہے۔ اس کا سرکاری نام ڈیموکریٹک پیپلز ری پبلک آف کوریا ہے۔ کہنے کو یہ جمہوری ملک ہے مگر عملی طور پر یہاں آمرانہ طرز حکومت قائم ہے۔

قیام سے لے کر آج تک ملک پر کِم اِل سنگ کے خاندان کی حکومت چلی آرہی ہے۔ کِم اِل سنگ کے بعد ان کے صاحب زادے کم جونگ اِل حکم راں رہے۔ ان کی موت کے بعد زمام اقتدار ان کے سب سے چھوٹے لخت جگر کِم جونگ اُن نے سنبھال لیا۔ ملک پر ورکرز پارٹی آف کوریا کی حکم رانی ہے جس کا سربراہ اسی خاندان کا کوئی فرد ہوتا ہے۔

اس وقت اس کے چیئرمین کم جونگ اُن ہیں۔ 1948 میں شمالی کوریا کے قیام سے یہ خاندان حکم راں چلا آرہا ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ملک پر اس کی گرفت کتنی مضبوط ہے۔ عوام واقعی اس خاندان کے سحر میں مبتلا ہیں یا یہ جبراً ان پر مسلط ہے؟ اس بارے میں صحیح اندازہ کرنا یوں مشکل ہے کہ شمالی کوریا عملاً ایک 'بند' ملک ہے۔

حکم راں جماعت نے ایسی سخت پالیسیاں اختیار کررکھی ہیں کہ ملکی صورت حال اور ملک کے طول و عرض میں ہونے والی سرگرمیوں سمیت کوئی بھی خبر حکم رانوں کی مرضی کے بغیر شمالی کوریا کی سرحد پار نہیں کرسکتی۔ یہی وجہ ہے کہ بیرونی دنیا اس کے اندرونی حالات سے کچھ زیادہ واقف نہیں۔

شمالی کوریا اقوام متحدہ کا رکن ہے اور ڈیڑھ سو سے زائد ممالک کے ساتھ اس کے سفارتی تعلقات بھی قائم ہیں۔ مگر اس ملک کی سرزمین پر اترنے والے غیرملکی شہریوں کی بھی کڑی نگرانی کی جاتی ہے۔ اس امر کو یقینی بنایا جاتا ہے کہ وہ کسی طرح کی کوئی معلومات ساتھ نہ لے جانے پائیں۔ میڈیا اور انٹرنیٹ پر مکمل سرکاری کنٹرول ہے۔ تمام خبریں صرف سرکاری خبر رساں ایجنسی جاری کرتی ہے۔

شمالی کوریا اور امریکا کے درمیان کشیدگی ان دنوں عروج پر ہے۔ دونوں جانب سے لفظی گولا باری ہورہی ہے۔ امریکا شمالی کوریا کو ''بدمعاش'' ریاست قرار دیتے ہوئے اسے سبق سکھانے کی دھمکی دے رہا ہے تو جواباً کم جونگ اُن کی حکومت امریکا کو ایٹمی حملوں کا نشانہ بنانے کا عزم ظاہر کررہی ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان موجودہ تنازع کی جڑیں جزیرہ نما کوریا کی تاریخ میں پیوستہ ہیں۔ پہلی سائنو۔ جاپان جنگ اور روس۔ جاپان جنگ کے بعد 1910ء میں جاپان نے کوریا پر قبضہ جمالیا تھا۔ جاپانیوں نے وہی طرزحکومت اختیار کیا جو غاصب قوم مفتوح علاقوں میں اپناتی ہے۔ کوریائی ثقافت، تہذیب و تمدن کو مسخ کرنے اور یہاں کے وسائل سے فائدہ اٹھانے کے خلاف کوریائی باشندوں نے مزاحمت شروع کردی۔ باغی گروپ وجود میں آگئے۔ شمالی کوریا کے اولین رہنما اور حکمران کِم اِل سنگ ایسے ہی ایک گوریلا لیڈر تھے۔

1945ء میں، جنگ عظیم دوم میں جاپان کی شکست کے بعد روس اور امریکا نے جزیرہ نما کوریا کو آپس میں بانٹ لیا۔ شمالی حصہ روس کے قبضے میں آگیا اور جنوبی حصے پر امریکا نے تسلط قائم کرلیا۔ 1948ء میں جنوبی کوریا میں شہری اتحادی فوجی حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے جن کے خلاف سختی سے کارروائی کی گئی اور بغاوت کو کچل دیا گیا۔ بڑھتی ہوئی مزاحمت کے نتیجے میں کچھ عرصے کے بعد اینٹی کمیونسٹ لیڈر سنگ مین ری کی قیادت میں جنوبی کوریا باقاعدہ ریاست بن گیا۔

اسی کے ساتھ جزیرہ نما کوریا کا شمالی حصہ ڈیموکریٹک پیپلز ری پبلک آف کوریا کے نام سے دنیا کے نقشے پر ایک نئے ملک کی حیثیت سے وجود میں آگیا کِم اِل سنگ جس کے پہلے حکمران تھے۔ ہنوز یہ ریاست روس کے زیراثر تھی۔ دوسری جانب جنوبی کوریا امریکا کے زیراثر تھا اور آج بھی اس ملک پر سپر پاور کا اثرورسوخ اسی طرح برقرار ہے۔ سوویت یونین کا اثر البتہ شمالی کوریا پر سے بہ تدریج زائل ہوگیا۔ خاص طور سے سقوط سوویت یونین کے بعد شمالی کوریا مکمل طور پر روسی اثر سے نجات پاگیا تھا۔ البتہ اسے روس کی حمایت ضرور حاصل رہی۔

1950ء سے 1953ء تک شمالی اور جنوبی کوریا کے درمیان پہلی جنگ لڑی گئی۔ امریکا کی قیادت میں اقوام متحدہ کی افواج جنوبی کوریا کے دفاع کے لیے آگئیں تو دوسری طرف میدان جنگ اپنی سرحد کے قریب ہونے کی وجہ سے چین شمالی کوریا کا ساتھ دینے کے لیے آگیا۔ یوں توازن برابر ہوگیا۔ تین سال تک جاری رہنے والی اس جنگ میں کئی لاکھ فوجی و سویلین مارے گئے۔

اسی وقت سے جنوبی کوریا میں امریکی فوج موجود ہے جسے شمالی کوریا اپنے لیے بڑا خطرہ سمجھتا ہے۔ جنوبی کوریا سے دشمنی اور اسے حاصل امریکی حمایت نے شمالی کوریا کو اپنی عسکری طاقت بڑھانے اور دفاع کو مضبوط تر کرنے کی کوششوں پر مجبور کردیا تھا۔ چناںچہ کِم اِل سنگ سے لے کر کِم جونگ اُن تک تینوں حکم رانوں نے فوجی طاقت بڑھانے پر بھرپور توجہ دی۔ 1990ء کی دہائی میں شمالی کوریا نے ایٹمی ہتھیار بنانے کی جانب پیش قدمی شروع کردی تھی۔ امریکا نے اسے اس اقدام سے باز رکھنے کے لیے لابنگ شروع کردی۔

جس کے نتیجے میں 1994ء میں سابق امریکی صدر بل کلنٹن کے ساتھ مذاکرات کے نتیجے میں معاہدے پر دستخط ہوئے اور شمالی کوریا نے ایٹمی پروگرام پر پیش رفت روک دی۔ جنوبی کوریا کے ساتھ جنگ نہ کرنے کا بھی معاہدہ طے پایا اور دونوں ممالک کے درمیان تعلقات بہتر ہونے لگے۔ 2001 ء میں صورت حال اس وقت پھر بگڑنے لگی جب جارج ڈبلیو بش نے مسند صدارت پر براجمان ہونے کے بعد دونو معاہدے مسترد کردیے۔

امریکی حکومت نے شمالی کوریا کو ''بدمعاش ریاست'' قرار دے دیا، دوسری جانب شمالی کوریا نے عراق جیسے حشر سے بچنے کے لیے ایٹمی پروگرام پر دوبارہ کام شروع کردیا۔ 9 اکتوبر 2006 ء اس نے پہلا ایٹمی دھماکا کرنے کا اعلان کیا۔ اس کے بعد سے شمالی کوریا کے جنوبی کوریا اور امریکا کے ساتھ تعلقات مزیدکشیدہ ہوتے چلے گئے۔ 2010ء میں کشیدگی اس وقت عروج پر پہنچ گئی تھی جب جنوبی کوریا کا جنگی بحری جہاز تباہ ہوگیا۔ اس کی تباہی کا الزام شمالی کوریا پر لگایا گیا۔ بڑھتی ہوئی کشیدگی کے ساتھ شمالی کوریا نے ایٹمی پروگرام کی رفتار تیز کردی اور 2013ء اور 2016 ء میں پھر ایٹمی دھماکے کیے۔

ڈونلڈ ٹرمپ کے دنیا کے سب سے طاقت ور ملک کا صدر بن جانے کے بعد خطے میں کشیدگی انتہا کو چھونے لگی ہے۔ شمالی کوریا سے تحفظ کی آڑ میں امریکی فوجیں بدستور جنوبی کوریا میں موجود ہیں اور وہ اس ملک کو جدید اسلحہ بھی فراہم کرتا رہا ہے۔ شمالی کوریا کے میزائلوں سے دفاع کو جواز بناتے ہوئے امریکا نے جنوبی کوریا میں جدید میزائل شکن نظام ' تھاڈ' نصب کردیا ہے۔ اس میزائل شکن نظام کی تنصیب پر شمالی کوریا کی جانب سے شدید تنقید کی گئی ہے۔ تھاڈ کی تنصیب کے ساتھ ساتھ امریکا نے خطے میں ایک طیارہ بردار جہاز اور آب دوز بھی تعینات کردی ہے جس سے صورت حال انتہائی کشیدہ ہوگئی ہے۔

امریکا کی ہمیشہ کوشش رہی ہے کہ شمالی کوریا اپنے ایٹمی اور میزائل پروگرام سے دست بردار ہوجائے مگر اس ضمن اس تاحال اس کی کوئی کوشش ثمرآور ثابت نہیں ہوسکی۔ دونوں ممالک کے حکم رانوں کے مابین لفظی جنگ شدت اختیار کر گئی ہے۔ شمالی کوریا کی جانب سے امریکا کے چار شہریوں کو حراست میں لیے جانے کے بعد صورت حال کی کشیدگی میں بے انتہا اضافہ ہوگیا ہے۔

حال ہی میں امریکی صدر نے کہا تھاکہ شمالی کوریا کے میزائل اور جوہری پروگرام کی وجہ سے خطے میں جنگ چھڑ سکتی ہے۔ انھوں نے یہ بھی کہاکہ وہ اس تنازعے کا سفارتی سطح پر حل چاہتے ہیں مگر اس میں کام یاب ہونا مشکل نظر آرہا ہے ۔ گویا سپر پاور کے نزدیک جنگ ناگزیر ہوتی جارہی ہے۔ تاہم یوں معلوم ہوتا ہے کہ اس قسم کے بیانات کا مقصد صرف ''بدمعاش ریاست'' پر دباؤ بڑھانا ہے، کیوںکہ اپریل کے آخر میں شمالی کوریا کی جانب سے میزائل کے تجربے پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ نے ٹوئٹ کی کہ یہ تجربہ کرکے اس نے چین کے صدر کی توہین کی ہے۔

واضح رہے کہ اس سے قبل اپریل کے آغاز میں ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ وہ چین کی مدد کے بغیر بھی شمالی کوریا کا مسئلہ حل کرلیں گے۔ مگر چند ہی ہفتوں کے بعد انھوں نے چین کو اس قضیے میں گھسٹینے کی کوشش کر ڈالی۔ چینی شمالی کوریا کا واحد بین الاقوامی اتحادی ہے، مگر اس نے بھی عالمی برادری کے دباؤ پر شمالی کوریا کے میزائل تجربات کا نوٹس لیتے ہوئے اس سے کوئلے کی در آمد معطل کردی ہے۔ در آمد پر پابندی رواں سال کے آخر تک برقرار رہے گی۔ یہ پابندی شمالی کوریا کے لیے بڑا معاشی جھٹکا ثابت ہوگی۔ بالخصوص اس صورت میں کہ شمالی کوریا پر امریکا اور مغربی ممالک کی طرف سے پہلے ہی پابندیاں عائد ہیں۔

شمالی کوریا اور امریکی حکمرانوں کے حالیہ سخت ترین بیانات کے باوجود ''بدمعاش ریاست'' کے خلاف جنگی کارروائی خارج از امکان نظر آتی ہے۔ خطے میں کشیدگی انتہا کو ضرور چھونے لگی ہے مگر اس کا نتیجہ کسی جنگ کی صورت میں برآمد ہوتا دکھائی نہیں دے رہا، کیوںکہ شمالی کوریا عراق نہیں، اس کے پاس میزائل اور ایٹمی ہتھیار موجود ہیں۔ جنگی مہم جوئی کے نتیجے میں امریکا اور جنوبی کوریا کو بھاری قیمت چکانا پڑسکتی ہے۔

شمالی کوریا کے میزائل پروگرام کا جائزہ

' بدمعاش ریاست' کے میزائل پروگرام کا آغاز 1960ء کے عشرے میں ہوا تھا۔ گذشتہ عشروں کے دوران میزائل پروگرام خاصی ترقی کرچکا ہے۔ ابتدا میں شمالی کوریا کے پاس ٹیکٹیکل آرٹلری راکٹ تھے مگر آج اسے کم اور درمیانے فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں کا ساتھ حاصل ہے۔ عمومی خیال ہے کہ شمالی کوریا کے میزائل ساز اداروں میں طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں پر تحقیق جاری ہے۔

حال ہی میں شمالی کوریا نے بین البراعظمی رینج کے میزائل تیار کرنے کا اعلان کیا تھا، جن میں امریکا اور یورپ تک مار کرنے کی صلاحیت ہوگی۔ شمالی کوریا کا جدید میزائل پروگرام اسکڈ میزائلوں سے شروع ہوا تھا جن کی پہلی کھیپ مبینہ طور پر 1976 میں مصر سے منگائی گئی تھی۔1984 تک شمالی کوریا اسی طرز کے واسونگ نامی میزائل تیار کر رہا تھا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ شمالی کوریا کے پاس کم رینج کے متعدد قسم کے میزائل ہیں جو کہ ہمسایہ ملک جنوبی کوریا کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔ امریکا میں 'سنٹر فار نان پرولفریشن سٹڈیز' کے مطابق واسونگ۔5 اور واسونگ۔6 بالترتیب 300 اور 500 کلومیٹر تک مار کرسکتے ہیں۔ یہ میزائل روایتی وار ہیڈ استعمال کرتے ہیں مگر ان میں کیمیائی، بایولوجیکل، اور جوہری وار ہیڈ لے جانے کی صلاحیت ہو سکتی ہے۔ان دونوں میزائلوں کو ٹیسٹ کیا جا چکا ہے۔

1980ء کی دہائی میں شمالی کوریا نے ایک نیا درمیانی رینج کا میزائل، نوڈانگ تیار کرنا شروع کیا تھا جس کی رینج تقریباً 1000 کلومیٹر تھی۔ یہ میزائل بھی اسکڈ میزائل کے ڈیزائن پر تیار کیا گیا مگر اس کا حجم 50 فی صد زیادہ تھا اور انجن بھی زیادہ طاقت ور تھا۔ شمالی کوریا نے اکتوبر 2010ء میں اس میزائل میں جدت لا کر اس کی رینج 1600 کلومیٹر تک بڑھا دی جس کے نتیجے میں یہ جاپانی جزیرے اوکیناوا میں امریکی اڈوں کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔

شمالی کوریا کئی سالوں سے موسودان نامی میزائل کے تجربے کر رہا ہے۔ اس کی رینج کے بارے میں متضاد اندازے لگائے گئے ہیں۔ اسرائیلی خفیہ ایجنسیوں کا کہنا ہے کہ ان کی رینج 2500 کلومیٹر ہے جب کہ امریکی حکام کے مطابق ان کی رینج 3200 کلومیٹر ہے۔ کچھ اندازوں کے مطابق کے 4000 کلومیٹر تک نشانہ بنا سکتے ہیں۔

نوڈنگ۔ بی یا ٹیپوڈونگ۔ایکس نامی میزائل شمالی کوریا اور جاپان دونوں کے تمام علاقوں کو نشانہ بنا سکتا ہے۔

اس کی رینج کی حد میں گوام میں امریکی فوجی اڈے بھی آتے ہیں۔ وار ہیڈ کے حوالے سے ان میزائلوں کی صلاحیتوں کے بارے میں کچھ زیادہ معلوم نہیں مگر خیال کیا جاتا ہے کہ ایک سے سوا ایک ٹن کا وار ہیڈ لے جا سکتے ہیں۔

انشمالی کوریا اپنا طویل ترین رینج کا میزائل تیار کر رہا ہے جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ یہ موبائل لانچر سے داغا جا سکے گا اور اس کا نام کے این۔ 08 ہوگا۔ اس پیشرفت کا ابتدائی اندازہ اس وقت لگایا گیا جب ستمبر 2016 میں شمالی کوریا نے ایک نیا راکٹ انجن ٹیسٹ کیا جو کہ ایک بین البراعظمی بلسٹک میزائل پر لگایا جا سکے گا۔امریکی وزارتِ دفاع کا ماننا ہے کہ شمالی کوریا کے پاس کم از کم چھ کے این08 میزائل ہیں جو امریکا کے بیشتر علاقوں تک پہنچ سکتے ہیں۔n

شمالی کوریا اور ایران کے مبینہ عسکری تعلقات، امریکا کے لیے باعث تشویش

شمالی کوریا اور اسلامی جمہوریہ ایران، امریکا کے ناپسندیدہ ترین ممالک ہیں۔ شمالی کوریا کے ساتھ بڑھتی ہوئی کشیدگی کے تناظر میں پینٹاگون دونوں ممالک کے فوجی تعلقات پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے۔ امریکی حکام کے مطابق گذشتہ دنوں ایران نے آب دوز سے میزائل لانچ کرنے کی کوشش کی مگر یہ تجربہ ناکام ہوگیا۔ امریکی انٹیلی جنس کی رپورٹوں کے مطابق آب دوز کا ڈیزائن شمالی کوریا کے جنگی بحری جہاز سے متأثر تھا جو 2010ء میں غرقاب ہوگیا تھا۔

امریکی محکمۂ دفاع کے حکام کے مطابق ایران پہلی بار سمندر کی گہرائیوں سے Jask-2 میزائل لانچ کرنے کی کوشش کررہا تھا مگر ناکام رہا۔ امریکی حکام کا خیال ہے کہ ایران اور شمالی کوریا میزائل سازی کے پروگراموں میں ایک دوسرے کی معاونت کررہے ہیں۔ گذشتہ جنوری میں جب ایران نے بلیسٹک میزائل کا تجربہ کیا تھا تو پینٹاگون کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں دعویٰ کیا گیا کہ اس میزائل کا ڈیزائن شمالی کوریا کے میزائلوں سے مشابہ ہے۔ دفاعی ماہرین شمالی کوریا کے تائی پو ڈونگ میزائل کو ایرانی شہاب میزائل کی نقل قرار دیتے ہیں۔



گذشتہ موسم گرما میں ایران نے ایک اور میزائل کام یابی سے لانچ کیا تھا۔ اس کے بارے میں دعویٰ کیا گیا کہ یہ شمالی کوریا کے جدیدترین مسودان میزائل کی ٹیکنالوجی پر مبنی تھا۔ واضح رہے کہ مسودان میزائل شمالی کوریا کا سب سے بہتر میزائل ہے جس کا تجربہ کام یاب رہا تھا۔ اب تک یہ ملک کئی ناکام تجربات کا سامنا کرچکا ہے۔ پینٹاگون کے مطابق انھوں نے دونوں ممالک کے اعلیٰ عہدے داروں کی ایک دوسرے کے ملک میں تصاویر دیکھی ہیں اور عمومی قسم کے آلات بھی نوٹ کیے گئے ہیں، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے باہمی تعلقات گہرے ہوتے جارہے ہیں۔

2015ء میں شمالی کوریا نے آب دوز سے میزائل لان کرنے کا کام یاب تجربہ کیا تھا۔ اس وقت کئی ماہرین نے خیال ظاہر کیا تھا کہ مستقبل میں ایران بھی شمالی کوریا کی پیروی کرتے ہوئے یہ تجربہ کرسکتا ہے۔ اس خیال کی بنیاد اس حقیقت پر تھی کہ یونو کلاس آب دوز جنھیں 'بونی آب دوز' بھی کہا جاتا ہے، دنیا میں صرف شمالی کوریا اور ایران کے پاس ہیں۔ یہ آب دوزیں اتھلے پانی میں سرگرم رہتی ہیں۔ شمالی کوریا کی اسی قسم کی آب دوز نے 2010ء میں جنوبی کوریا کا جنگی جہاز تباہ کردیا تھا، اگرچہ شمالی کوریا نے اس واقعے میں ملوث ہونے کی تردید کی تھی۔ ایک امریکی دفاعی ماہر کے مطابق بیٹری کی طاقت سے چلنے والی ان آب دوزوں کا سراغ لگانا بہت مشکل ہوتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں