ٹورانٹو
صاحب خانہ اور ان کی بیگم دونوں کا تعلق کراچی سے تھا اور ان کا گھر بھی ان کے دل کی طرح بہت بڑا اور مہمان نواز تھا
SUKKUR:
ٹورانٹو کو اردو کے حوالے سے اگر کینیڈا کا ادبی مرکز کہا جائے تو یہ کچھ غلط نہ ہوگا۔ سب سے زیادہ پاکستانی اور ایشین بھی یہیں پائے جاتے ہیں۔ اس کا ایک نواحی شہر مسس سواگا (جو اب ''گریٹر ٹورانٹو'' کا ایک حصہ ہے) تو انگلینڈ کے شہر بریڈ فورڈ کی طرح لٹل پاکستان کہلاتا ہے۔
ٹورانٹو کا ایئرپورٹ بھی اسی علاقے میں واقع ہے۔ اکناریلف کی طرف سے ہمارے مرکزی میزبان شوکت بھائی اپنی بہت میٹھی اور دوستانہ مسکراہٹ کی وجہ سے پہلی نظر میں ہی بہت اچھے لگے۔ تمام تر آرام کے باوجود چودہ گھنٹے کی طویل پرواز اپنا اثر دکھا رہی تھی۔ ہمارا قیام کوالٹی ان نامی ہوٹل میں تھا جو ایئرپورٹ ہی کے نواح میں واقع تھا۔
اگلے دن صبح کا ناشتہ گزشتہ بار کی طرح اب بھی عزیز سعید میو کے ساتھ تھا جس کا گھر ہمارے ہوٹل سے بھی زیادہ ایئرپورٹ کے نزدیک تھا۔ سعید میو ہے تو میواتی لیکن اس کا ناشتہ سراسر پنجابی بلکہ کشمیریوں والا تھا کہ مقدار اور معیار دونوں ہی ایک سے بڑھ کر ایک تھے۔ دوپہر کا کھانا قونصل جنرل عمران صدیقی کے گھر پر تھا جہاں دیگر احباب کے ساتھ ساتھ ''تقدیس ادب'' نامی ادبی تنظیم کے دوستوں سے بھی ملاقات ہوئی۔
سابق قونصل جنرل نفیس زکریا کی طرح عمران صدیقی بھی اپنے فرائض منصبی کے ضمن میں بہت پرجوش اور کمیٹڈ نظر آئے۔ فنون لطیفہ سے عمومی دلچسپی کے ساتھ ساتھ انھیں مصورانہ خطاطی سے خصوصی رغبت ہے جس کا اندازہ ان کے گھر کی دیواروں کودیکھ کر بھی ہو رہا تھا۔ رات کے کھانے پر میرے بیشتر ڈراموں کے اداکار باقر علی سے ملاقات ہوئی جو کچھ عرصے سے یہاں اپنے بیٹوں کے ساتھ رہ رہے ہیں۔
صاحب خانہ اور ان کی بیگم دونوں کا تعلق کراچی سے تھا اور ان کا گھر بھی ان کے دل کی طرح بہت بڑا اور مہمان نواز تھا۔ اتفاق سے ٹورانٹو کا پروگرام سب سے آخر میں یعنی 23 اپریل کو تھا سو ان دوستوں سے اگلی ملاقات کا وعدہ کرکے ہم وینکوور کی طرف روانہ ہوگئے۔
گزشتہ تین کالموں میں آپ ونیکوور، ایڈمنٹن، کیلگری، ونی پیگ، مونٹریال اور آٹوا میں گزارے ہوئے دنوں کی روداد پڑھ چکے ہیں۔ آٹوا سے ہماری پرواز ایک گھنٹے سے بھی کچھ کم تھی۔ ہم ایئرپورٹ سے سیدھے اکناریلف کے دفتر پہنچے جہاں دوپہر کے کھانے اور تنظیم کے اسٹاف سے ملاقات کے علاوہ ایک ٹی وی انٹرویو کا بھی اہتمام کیا گیا تھا۔
حاضرین کی تعداد کے اعتبار سے یہ پروگرام پہلے نمبر پر رہا کہ ساڑھے چار سو نشستوں کے باوجود کچھ لوگوں کو بیٹھنے کی جگہ نہ مل سکی۔ شاعر دوستوں میں سے صرف اشفاق حسین اور افضال نوید ہی نظر آئے جب کہ امید تھی کہ نسیم سید، عرفان ستار، امیر حسین جعفری، ذکیہ غزل اور کچھ دیگر احباب بھی وہاں موجود ہوں گے۔ تفتیش پر جو بات سمجھ میں آئی اس کا تعلق پھر ادبی سیاست سے تھا کہ بیرون ملک بھی ہمارے دوست ادبی گروہ بندیوں اور نظریاتی وابستگیوں کی وجہ سے ''باہر'' کے لوگوں کو اپنے پروگراموں میں جان بوجھ کر مدعو نہیں کرتے۔ طاہر اسلم گورا اور خواجہ صباح الدین سے بھی کوشش کے باوجود رابطہ نہ ہوسکا۔
انور مسعود کے برادران نسبتی شاہد، خالد اور ان کی ہمشیرہ نسیم اپنے بچوں سمیت آئے اور ہمیشہ کی طرح بہت تپاک سے ملے۔ پروگرام ہر اعتبار سے بہت شاندار اور کامیاب رہا جس کے لیے اکناریلف کے تمام دوست مبارک اور تعریف کے مستحق ہیں۔ سید تقی عابدی، ڈاکٹر بیدار بخت اور پروین شاکر کے صاحبزادے سید مراد علی اپنی کسی مصروفیت کی وجہ سے اس پروگرام میں تو تشریف نہ لاسکے مگر دو دوستوں سے اگلے روز ہوٹل میں تفصیلی ملاقات ہوگئی جب کہ سیدتقی عابدی کے ساتھ فون پر مستقل رابطہ رہا۔
ڈاکٹر بیدار بخت نے دو مختلف کینیڈین ساتھیوں سے مل کر میری منتخب شاعری کے انگریزی تراجم کیے ہیں جو In the last days of avtumn اور Shifting Sands کے ناموں سے 1990ء اور 2015ء میں شایع ہوچکے ہیں، وہ کرنل انور احمد اور اپنی دو نئی کتابوں کے ساتھ تشریف لائے، ایک اخترالایمان کے بارے میں تھی اور دوسری ایران کی جوانمرگ اور باغی مزاج شاعرہ فروغ فرخ زاد سے متعلق تھی۔
میں نے انھیں بتایا کہ دوسری کتاب مجھ سے زیادہ میری بیٹی دوشین کے لیے ایک تحفہ ہے کہ وہ آج کل اپنے ایم فل کے سلسلے میں فروغ فرخ زاد پرہی کام کر رہی ہے۔ دونوں احباب سے پہلی ملاقات 1984ء میں علی سردار جعفری، جمیل الدین عالی اور پروین شاکر کی معیت میں ہوئی تھی۔ اتفاق سے یہ تینوں ہی اب اس عالم فانی سے پردہ کرچکے ہیں۔ سو گفتگو میں کسی نہ کسی حوالے سے ان کا ذکر بھی بار بار آتا رہا۔
سید مراد علی جسے مرحوم پروین شاکر ''گیتو'' کہہ کر بلایا کرتی تھی، اب ماشاء اللہ 37 برس کا ہوچکا ہے۔ گزشتہ تقریباً 16 برس سے کینیڈا میں ہے۔ آئی ٹی میں اعلیٰ ڈگری حاصل کرنے کے بعد اس نے وہیں ایک پاکستانی نژاد لڑکی سے شادی کی جب کہ ولیمہ کراچی اور اسلام میں ہوا۔
میں نے جو نظم پروین کی وفات پر ''گیتو'' کے حوالے سے لکھی تھی اسی کے تسلسل میں ایک نئی نظم اس کی اسلام آباد والی تقریب ولیمہ میں بھی پڑھی تھی جس کا ذکر اور شکریہ اس نے آج کی ملاقات میں بار بار کرتے ہوئے مجھے یہ بھی یاد دلایا کہ میں نے اس کے بچپن میں کسی ریستوران میں جو چینی کھانا اسے کھلایا تھا اس کا ذائقہ اسے اب تک یاد ہے اور اب جب بھی وہ لاہور آیا میرے ساتھ دوبارہ اسی ہوٹل میں جائے گا۔ اس کی اس معصوم فرمائش اور محبت بھری گفتگو نے کچھ ایسا سماں باندھ دیا کہ یوں لگا جیسے پروین شاکر یہیں کہیں چھپ کر ہمیں دیکھ اور ہماری باتیں سن رہی ہے۔
اکناریلف کے برادرم شوکت نے اس طویل اور تھکا دینے والے سفر سے ہمیں ریلیف دینے کے لیے نیاگرا فال کی سیر کے ساتھ وہاں رات گزارنے کا انتظام بھی کررکھا تھا۔ ہلٹن ہوٹل والوں نے فال سے نزدیک تر فاصلے پر ایک 52 منزلہ عمارت ایمبیسی سویٹس کے نام سے بنا رکھی ہے جس کی دسویں منزل سے اوپر کی تمام منزلوں کی کھڑکیوں سے نیاگرا فال کا مرکزی حصہ بالکل سامنے نظر آتا ہے جس پر رات کے وقت لیزر کے ذریعے ڈالی جانے والی رنگارنگ روشنیاں ایک عجیب سحرانگیز سا ماحول پیدا کردیتی ہیں۔
ہم چاروں یعنی انور مسعود، شوکت بھائی، عامر جعفری اور میں بہت دیر تک کھڑکی سے لگ کر بیٹھے قدرت کے اس عجیب و غریب مظہر کو ایک خوابناک سی کیفیت میں دیکھتے رہے۔ ہلکی ہلکی ہونے والی بارش ذرا تھمی تو ہم نے اس بے مثال آبشار کو نزدیک سے دیکھنے کا پروگرام بنایا جس پر انور مسعود نے Ok Seen کا نعرہ لگاکر چادر سر پر تان لی اور دیر تک ہمارے قہقہے اس کمرے کی فضا میں گونجتے رہے۔ اس اوکے سین کا پس منظر اصل میں ایک لطیفہ ہے کہ بعض ٹورسٹ تاریخی مقامات کو کس طرح سے دیکھتے ہیں۔
کہتے ہیں کہ ایک ٹورسٹ بس پیرس کے مشہور دریا سین Saine کے کنارے رکی تو ٹورسٹ گائیڈ نے سیاحوں کو اترنے کا اشارہ کرتے ہوئے کہا ادھر دیکھئے دریائے سین آپ کے سامنے ہے۔ اس پر ایک بڈھے سے ٹورسٹ جوڑے نے اپنی نوٹ بک پر لکھے ہوئے سیاحتی مقامات کی فہرست میں سے دریائے سین کے نام پر صادر (گڈ) کا نشان لگاتے ہوئے کہا۔ Ok Seen۔
واپسی پر شوکت بھائی نے اپنے گھر پر کھانے کا اہتمام کررکھا تھا، جہاں چند اوردوستوں کے ساتھ ساتھ برادرم فصیح خان سے بھی ملاقات ہوگئی جو شوکت سے ان کا ایڈریس لے کر وہاں پہنچے تھے۔ فصیح بھائی سے چند روز قبل عزیز دوست نصرالصمد قریشی کے دفتر میں ملاقات ہوئی تھی۔ انھوں نے نہ صرف اپنا کینیڈا کا کارڈ دیا بلکہ اس دوران میں مسلسل رابطے میں بھی رہے۔ وہ ایک صاحب دل اور صاحب مطالعہ انسان ہیں۔ ان سے اس مختصر سے وقت میں کئی موضوعات پر پرلطف گفتگو رہی۔
ہماری ٹورانٹو سے لندن تک کی پرواز بذریعہ آئس لینڈ ایئر تھی کہ وہاں سے پی آئی اے کی کوئی پرواز لندن نہیں جاتی تھی۔ آئس لینڈ کے بارے میں مرحوم جمیل الدین عالی نے ایک بہت دلچسپ سفرنامہ لکھ رکھا ہے۔ وسیع سمندروں کے درمیان واقع اس جزیرے کی کل آبادی تین لاکھ ہے لیکن فی کس آمدنی کے اعتبار سے یہ دنیا کے پہلے دس ملکوں میں شمار ہوتا ہے۔ یہاں ہمارا قیام صرف ڈیڑھ گھنٹے کا تھا جس میں عالی صاحب کو بار بار یاد کیا گیا۔