ایک جریدہ اور چند کتابیں  دوسرا اور آخری حصہ

’’سیاست دوراں‘‘ محمد حلیم انصاری کے ان قطعات کا مجموعہ ہے


Naseem Anjum May 14, 2017
[email protected]

''سیاست دوراں'' محمد حلیم انصاری کے ان قطعات کا مجموعہ ہے جو انھوں نے 2015 سے 2016 تک فیس بک پر لکھے اور لوگوں کی بڑی تعداد نے انھیں داد و تحسین سے نوازا، انھوں نے اپنی تخلیق کے بارے میں خود لکھا ہے کہ:

نغمگی سوز و ساز ڈھونڈو ہو
تازگی اور گداز ڈھونڈو ہو

لوگ شاعر ہیں فیس بک کے حلیم
آپ غالب، فراز ڈھونڈو ہو

حلیم انصاری نے گزشتہ اور موجودہ سیاسی حالات، حکومتی جارحانہ رویہ، ہوسِ اقتدار اور عوام کی خستہ حالی، وڈیروں، جاگیرداروں کے ظلم و ستم اور شہر کراچی کی خستہ حالی کا نوحہ شاعری کی شکل میں بیان کیا ہے۔ ان دنوں اور گزرے کل میں پاناما کا شہرہ پوری دنیا میں رہا، دوسرے ملکوں کے مقتدر حضرات نے خود استعفیٰ پیش کیا اور عزت سے رخصت ہوئے لیکن ہمارے یہاں کی کہانی بڑی درد ناک اور عبرت انگیز ہے۔

اقتدار عزت سے زیادہ پیارا ہے، کچھ بھی ہوجائے کرسی چھوڑنے پر تیار نہیں، میں نہ مانوں والا معاملہ درپیش ہے۔ پاکستانی سیاست کے تناظر میں انھوں نے قطعات کی شکل میں اشعار تخلیق کیے ہیں۔ ٹائٹل کی کشش قاری کو اپنی طرف متوجہ کرلیتی ہے، گویا موجودہ سیاست اور اس کی کار گزاریاں ٹائٹل کی شکل میں عیاں ہیں۔

سحر حسن کا شعری مجموعہ 'خوابوں کی تتلیاں' پڑھنے کے بعد اندازہ ہوا کہ ان کی شاعری عام شاعری نہیں ہے، بلکہ ان کے مشاہدے، تجربات اور آپ بیتی و جگ بیتی نے ان کے اشعار کو حرارت بخش دی ہے اور یہ حرارت اور جاذبیت دلوں کو گرماتی ہے۔ دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے، والا معاملہ ہے اور دنیا تو ہے ہی تجربات کی کھیتی، ایک غم ہزار غموں کو جنم دیتا ہے اور شاعر ہر احساس تیز ہوائوں سے بجھنے والے چراغ کا دکھ اس سے سہانی شامیں اور بہار کی رُت چھین لیتا ہے۔

سحر حسن نے بھی بے شمار لوگوں کی طرح اپنوں سے دھوکے کھائے اور زہر کا پیالا پیا ہے، اس زہر نے اسے مارا نہیں بلکہ خون میں شامل ہوکر اسے جینے کا نیا حوصلہ بخش گیا ہے، یہ حوصلہ ہی ہے کہ سحر نے خواب اور خوابوں میں رنگ برنگ اڑتی ہوئی تتلیاں دیکھیں اور اب یہ خواب شاعری کی شکل میں ہمارے سامنے ہیں۔ ان کے اس ایک شعر میں گزری ہوئی زندگی اور اس کی تلخیاں پنہاں ہیں۔

زمانہ قتل کرتا ہے، سزائیں کاٹتی ہوں میں
وفا کا درس دیتی ہوں، جفائیں کاٹتی ہوں میں

سحر حسن کی شاعری میں یاسیت کا رنگ بہت گہرا ہے اور ان کی زندگی کے نشیب و فراز نے کامیابی کے دیے کم جلائے ہیں اور ناکامی کا اندھیرا دور دور تک پھیلا ہوا ہے لیکن انھوں نے امید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا ہے۔ آس کے جگنو شعری آہنگ میں جگ مگ کرتے نظر آتے ہیں۔ اس ضمن میں امداد حسینی کا مضمون قابل ذکر ہے۔ احساس کی شدت نے سحر کی شاعری کو قاری کے دل تک پہنچادیا ہے اور یہی ان کی کامیابی ہے کہ وہ بات کرنے اور شعر کہنے کا ہنر جانتی ہیں۔

کالم اپنے اختتام کی طرف رواں دواں تھا کہ اسی دوران سہ ماہی ''اجمال'' کتابی سلسلہ 12 موصول ہوا، ورق گردانی کی، کچھ اوراق توجہ سے پڑھے کہ وقت کم اور مقابلہ سخت تھا۔ پرچے کا چھپنا، منظر عام پر آنا بھی مدیر کا سخت ترین امتحان ہوتا ہے۔''اجمال'' ایک خالص ادبی پرچہ ہے۔ سہ ماہی اجمال میں ''ستیہ پال آنند اور معین الدین عقیل'' کے عنوان سے اداریہ شایع ہوا تھا۔ مدیر اعلیٰ نے کئی باتوں کی طرف توجہ دلائی تھی، جسے میں من و عن درج کر رہی ہوں۔

پہلی بات یہ کہ لاہور و فیصل آباد سے شایع ہونے والے سہ ماہی ادبی جریدے ''زر نگار'' نے امریکا میں مقیم شاعر ستیہ پال آنند کا 280 صفحات پر مشتمل انٹرویو شایع کیا تھا، ان کے اس انٹرویو نے چند سوال ضرور کھڑے کیے ہیں۔ جب آپ کسی کو شاعروں کا شاعر کہتے ہیں اور اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ آپ ان سے اختلاف کی ہمت سے عاری تھے، تو پھر کیا آپ کے اس خود ساختہ اختلاف کا تذکرہ ایک ایسے وقت کرنا جب کہ مذکورہ شخص (فیض) اس دنیا میں موجود نہیں ہے، کسی طور جائز ہے۔

آنند صاحب تقابلی ادب کے استاد رہے ہیں، تاہم یہاں انھوں نے استعارات کے مختلف ہونے کی تو بات کی ہے لیکن اس کا کوئی موازنہ نہیں کیا، مثلاً کیا وہ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ علی سردار جعفری اور مخدوم محی الدین کی شاعری فیض کے مقابلے میں بہتر ہے، اگر آپ 280 صفحات پر پھیلی ہوئی اپنی شاعری اور خیالات میں بھی اس کی وضاحت نہیں کرسکتے تو پھر آپ کو اور کتنی شاعری کا لہو چاہیے'' اسی طرح اجمال 12 کا اداریہ بھی قابل غور اور فکری دریچوں کو کھولتا ہے۔

''اہل قلم کانفرنس، ابھی میلے ٹھیلے اور نفاذ اردو''اس ہی عنوان کے تحت فہیم انصاری نے حقائق کو زبان عطا کردی ہے، بے شمار قلمکاروں کو تو اس بات پر بھی اعتراض ہے کہ اس کا نام تبدیل کرنے کی ضرورت ہے چونکہ نام کے اعتبار سے یہ اہل قلم کانفرنس ہرگز نہیں ہوتی ہے بلکہ اہم ادیبوں اور شاعروں کو پتہ ہی نہیں ہوتا ہے کہ کس کس کو نوازے جانے کی مہم شروع ہونے والی ہے۔ ''اندھا بانٹے ریوڑیاں اپنوں اپنوں کو'' یہی صورت حال دوسرے علمی و ادبی اداروں میں موجود ہے۔

مذکورہ جریدے کے مضامین شاعری اور افسانے متاثر کن ہیں۔ خاص طور پر ممتاز احمد خان کا مضمون ''ایک چادر میلی سی، کی رانو'' انھوں نے ایسا مضمون لکھا ہے جسے پڑھ کر قاری کہہ سکتا ہے کہ کوزے میں دریا کو بند کردیا گیا ہے۔ کہانی بھی ہے اور تجزیہ بھی، رانو اور دوسرے کرداروں کی نفسیات، تلوکے کے قاتل سے بڑی کی شادی، ساس کے طعنے تشنے اور جادو ڈالنے کی رسم کے ساتھ اور بہت سی تلخ سچائیاں جس پر ممتاز احمد خان کا سیر حاصل تبصرہ قابل تعریف ہے۔

افسانوں میں اونچے نیچے لوگ ''ہابیل قابیل، ''اندھیرا'' اور ''جستجو کیا ہے'' اچھے افسانے تھے۔ ''اونچے نیچے لوگ'' میں عذرا اصغر نے خانہ بدوشوں کی طرز زندگی اور قرب وجوار کے ماحول کی بہت خوبصورت انداز میں عکاسی کی ہے۔ ہابیل قابیل آغا گل کی تخلیق ہے، ہابیل آج بھی نیک اور قابیل قتل و غارت کی علامت کے طور پر سامنے آیا ہے۔ بڑی محنت اور توجہ سے لکھا گیا ہے۔ استعارات نے افسانے کو پر اثر بنادیا ہے۔

آغا گل اور سلمان صدیقی کے خطوط قابل غور اور اقربا پروری سے پاک ہیں، آغا گل نے تنقید کے حوالے سے بہت اہم باتیں کہی ہیں اور قبل از وقت ہی مدیر اعلیٰ کی خواہش کی تکمیل کردی ہے۔ ادبی چاشنی میں ملفوف خط اچھا لگا۔ وہ لکھتے ہیں شکر ہے کہ حلوائی کا حال تنقید آپ کے ہاں نہیں ہے۔ ملک بھر میں ماشااﷲ کوئی سو کے قریب تنقید نگار ہیں۔

نہیں جناب بے شمار حضرات ایسے ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ ان سے بڑا کوئی نقاد نہیں ہے، وہ وطن عزیز کے ہر رسالے میں تنقید کرنا ضروری سمجھتے ہیں، یہ افسانہ اچھا ہے، وہ افسانہ کمزور ہے، یہ ایک فیشن چل نکلا ہے۔ میرا خیال ہے ادب کو تنگ نظر اور تنگ دل نہیں ہونا چاہیے لیکن ہیں۔ وہ اپنے آپ کو بدلنے کو ہرگز تیار نہیں ہیں۔ اسی لیے ماحول ناسازگار اور دلوں میں حبس کا عالم ہے۔

ابوالفرح ہمایوں کے لیے یہ کہنا بجا ہے کہ نہ صلہ کی پرواہ نہ ستائش کی تمنا، گوشہ نشینی کی زندگی گزار رہے ہیں، محفلوں میں کم ہی نظر آتے ہیں، درویشانہ مزاج اور چہرے پر بلا کی معصومیت اور نیکی کا نور ہے۔ وہ بہت اچھے طنز و مزاح نگار، مترجم ہیں۔ ان کی ترجمے کی کتاب شایع ہوچکی ہے، غالباً جوئے لطافت ان کی پہلی تصنیف تھی۔ ''دنیا کے بہترین افسانے'' اس عنوان کے تحت تقریباً 400 صفحات کا احاطہ کرنے والی کتاب حال ہی میں شایع ہوئی ہے۔

دیس، دیس کی کہانیوں کا ترجمہ ابوالفرح ہمایوں نے ہنرمندی اور سلیقے کے ساتھ کیا ہے جو کہ قاری کے لیے نئی نئی معلومات کے در وا کرتا ہے۔ غمِ حیات سچی کہانیوں، سفر ناموں اور ڈراموں پر مشتمل کتاب بھی ابوالفرح ہمایوں کی تازہ ترین تصنیف ہے، ان کی تحریریں سادگی اور دلکشی سے مزین ہیں۔ 22 کتابوں کے مصنف ہیں، جن میں بچوں کا ادب بھی شامل ہے۔ شاعر بھی ہیں اور بہت ساری صلاحیتوں سے مالا مال، تخلیق کے سونے پھوٹتے ہیں، نئے نئے پھول کھل رہے ہیں۔ ماشا اللہ، اللہ کرے زور قلم اور زیادہ ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں