’’کالج کے اخراجات کے لیے پیٹرول پمپ پر مزدوری کی‘‘

سکیورٹی فورسز کی موجودگی میں آزادانہ اور غیر جانبدارانہ انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں،حئی بلوچ


Hassaan Khalid January 23, 2013
پیرا ملٹری فورسز کا راج ختم ہونا چاہیے تاکہ الیکشن کا ماحول بنے،حئی بلوچ فوٹو : فائل

ہم نے ہر ادنیٰ کو اعلیٰ کردیا
خاکساری اپنی کام آئی بہت

حالیؔ کا یہ شعر پڑھا اور سنا ضرور تھا، لیکن اس کا عملی مظاہرہ اس روز دیکھا، جب نیک نام اور نام ور بلوچ رہنما کے روبرو بیٹھنے کا اتفاق ہوا۔ کہتے ہیں کہ بڑا آدمی وہ ہوتا ہے، جس کے پاس بیٹھ کر انسان خود کو چھوٹا محسوس نہ کرے۔

عجز و انکسار کے پیکر، خوش مقال اور سادہ اطوار عبدالحئی بلوچ سے بات چیت کا سلسلہ شروع ہوا تو تمام تکلّفات دھرے کے دھرے رہ گئے۔ نرم اور دھیمے لہجے میں بات کرنے والے لیڈر کے طرز گفتگو اور طرز فکر میں بھی وہی کھرا پن اور سچائی تھی، جو اُن کی ظاہری شخصیت سے جھلکتی تھی۔ انہیں دیکھ کر بے اختیار دل سے صدا اُٹھتی ہے کہ کاش ہمارے حکمرانوں میں بھی ایسی ہی سادگی اور اخلاص ہوتا تو آج ہم ایسی خطرناک صورتحال میں نہ گھرے ہوتے۔

ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ کا شمار بلوچستان کے متوسط طبقے کے قوم پرست رہنمائوں میں ہوتا ہے۔ 1945ء میں ضلع کچی (بولان) کی تحصیل بھاگ کے ایک گائوں چھلگری میں پیدا ہوئے۔ عبدالحئی ابھی پانچ سال کے تھے کہ 1950ء میں والد کا انتقال ہوگیا۔ ان کے والد کاشتکار تھے، اس کے ساتھ بیلوں کا بیوپار بھی کیا کرتے تھے۔ بیل گائے کی تجارت کے سلسلے میں پنجاب آنا جانا رہتا تھا۔ والد کا انتقال بھی لاہور میں قیام کے دوران ہوا اور اُنہیں یہیں انجنیئرنگ یونیورسٹی کے عقب میں واقع قبرستان میں دفن کیا گیا۔

والد کے انتقال کے بعد ، والدہ نے باپ کی کمی محسوس نہیں ہونے دی، پوری تندہی سے بیٹے کی مکمل سرپرستی کی اور تعلیم و تربیت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، یہ اپنی نیک نامی اور کامیابیوں کو ماں کی محنت کا ثمر مانتے ہیں۔ ماں کا ذکر کرتے اب بھی احترام سے نگاہیں جھک جاتی ہیں۔ اپنی عظیم والدہ کی خدمات کے وہ بہت ممنون ہیں۔ بچپن میں خود کھیتوں میں ہل چلایا اور مویشیوں کی دیکھ بھال کیا کرتے۔ کھلیوں میں حصہ لینے کے متعلق وہ کہتے ہیں، '' وہ غربت کا دور تھا، کرکٹ، ہاکی جیسے کھیلوں کا رواج نہیں تھا۔ کبڈی، گلی ڈنڈا اور دوڑ کے مقابلوں میں ضرور شرکت کی۔''

گائوں کے سکول سے پرائمری پاس کر چکے تو اگلی منزل گورنمنٹ ہائی اسکول بھاگ تھا جہاں پہنچنے کے لئے 14,13 کلو میٹر کا فاصلہ طے کرنا پڑتا۔ شروع میں روز آتے جاتے رہے، بعد میں وہیں پر رہائش کا انتظام ہوگیا اور ہر ہفتے گھر کا چکر لگنے لگا۔ میٹرک میں انہوں نے ڈرائنگ کے بجائے فارسی کا انتخاب کیا تھا، کیونکہ پہلے ڈرائنگ کا مضمون نہیں پڑھا تھا۔ اس موقع پر استاد کی نصیحت انہیں اب بھی یاد ہے، جنہوں نے کہا تھا کہ ''عبدالحئی! پڑھو فارسی، بیچوتیل۔'' پڑھائی میں شروع سے اچھے تھے، اس لیے استاد مکرم نے سمجھایا کہ انہیں سائنس کے مضامین پڑھنے چاہئیں۔

1962ء میں گورنمنٹ ہائی سکول بھاگ سے میٹرک کا امتحان اعلیٰ نمبروں سے پاس کیا۔ اس وقت بلوچستان پنجاب بورڈ کے تحت ہی آتا تھا۔ 1961ء میں مستونگ میں ایک کالج کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ اس دور میں کلات اور کوئٹہ ڈویژن وجود میں آئے تھے۔ 1962ء میں جب کالج میں داخلے کا وقت آیا تو انہیں کہا گیا کہ چونکہ ان کا تعلق کلات سے ہے، اس لیے مستونگ کالج میں ہی داخلہ لینا پڑے گا۔ وہ سمجھتے ہیں کالج کو کامیاب کرنے کیلئے یہ پابندی اس دور میں ضروری بھی تھی، کیونکہ انتظامیہ کا خیال تھا کہ اگر ادھر کے لوگ یہاں نہیں پڑھیں گے تو کالج کامیاب کیسے ہوگا۔ میٹرک میں اچھے نمبروں کی وجہ سے انہیں سکالرشپ ملا تھا۔ فرسٹ ایئر کے بعد یہی کالج اساتذہ اور طالب علموں سمیت خضدار منتقل کردیا گیا، چنانچہ سیکنڈایئر کی تعلیم وہاں سے مکمل کی۔ کالج سے فراغت کے بعد تین چار ماہ ایک پٹرول پمپ پر محنت مزدوری کی۔ کچھ پیسے گھر سے والدہ بھجوا دیتی تھیں اور کچھ یہ خود کمالیتے تھے، اس طرح گذر بسر ہورہی تھی۔ وہ کہتے ہیں کہ اسی غربت کے ماحول اور محنت کا یہ نتیجہ ہے کہ وہ غریبوں، مظلوموں اور محنت کشوں کا بہت احترام کرتے ہیں اور انہیں بہت عزیز رکھتے ہیں۔

عبدالحئی بلوچ سکول کے زمانے سے ہی بزم ادب، تقریری مقابلوں اور اس طرح کی دوسری سرگرمیوں میں پیش پیش رہے۔F.Sc کے بعد گورنمنٹ کالج کراچی میں میڈیکل کی تعلیم کا آغاز ہوا۔ یہاں طلباء سیاست میں بھی سرگرم کردار ادا کیا اور سٹوڈنٹ لیڈر منتخب ہوئے۔ بلوچستان کی طلباء تنظیم کے پلیٹ فارم سے پہلی بڑی ہڑتال بھی کی اور تمام مطالبات منوائے۔ 70ء کے الیکشن میں حصہ لیا اور MNA منتخب ہوکر اسمبلی کے کم عمر ترین ممبر بننے کا اعزاز حاصل کیا۔ وہ شروع سے ہی ترقی پسند سوچ اور نظریات کے حامی تھے۔ اس دور میں ویسے بھی ماسکو اور چین کا بڑا چرچا تھا۔ میڈیکل کالج میں ان کا بیج 1969ء کا تھا، جوکہ تاخیر کا شکار ہوکر 1970ء میں مکمل ہوا۔ سیاست میں آنے کی وجہ سے انہیں ایک سال مزید انتظار کرنا پڑا اور1971ء میں میڈیکل کی ڈگری مکمل ہوئی۔ عملی سیاست میں آنے کی وجہ سے بعد میں نہ تو ہائوس جاب کیا اور نہ میڈیکل پریکٹس کرنے کا موقع ملا۔

ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ نے مختلف ادوار میں جیل بھی کاٹی۔ بھٹو دور میں انہیں اٹھارہ مہینے قید تنہائی میں گزارنے پڑے، جو انہیں نہیں بھولتے۔ بحیثیت سیاست دان، نظریاتی اور فکری اختلاف کے باوجود سب سیاستدانوں کا احترام کرتے ہیں۔ دوسری طرف، سیاسی جماعتوں میں بھی انہیں ایسی ہی قدر و منزلت حاصل ہے۔ دوسری پارٹیوں کے لوگ انہیں اپنی تقاریب میں بلاتے ہیں، جہاں جاکر وہ آزادانہ اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔ سیاسی اور جمہوری کلچر کو وہ قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ان کے خیال میں ہمارے ہاں بدقسمتی سے لیفٹ کے لوگ اور سیاست منظم نہیں ہوسکی۔ اس کا ذمہ دار وہ یہاں کے نظام اور مذہبی جنون کو ٹھہراتے ہیں۔

1994ء میں بلوچستان نیشنل پارٹی کی ٹکٹ پر سینیٹر منتخب ہوئے اور ایوان میں اپنی پارٹی کے پارلیمانی لیڈر بنے۔ سینیٹر کی حیثیت سے انہیں مختلف ممالک میں جانے کا موقع بھی ملا۔ انہیں پہاڑی علاقے بہت پسند ہیں۔ سوات، مری پسندیدہ مقامات ہیں۔ موسیقی میں غزلیں پسند ہیں۔ عوامی اور انقلابی شاعری اچھی لگتی ہے۔ فیض احمد فیض' حبیب جالب' عطاشاد، گُل خان نصیر اور کلاسیکی بلوچی شاعری کے مداح ہیں۔ عبدالحئی بلوچ اپنی زندگی اور سیاسی فیصلوں سے مکمل طور پر مطمئن ہیں اور انہیں اس ضمن میں کوئی پیشیمانی نہیں۔ انہوں نے اپنے تحفظات کی وجہ سے پارلیمنٹ میں 73ء کے آئین کے حق میں ووٹ نہیں دیا تھا۔ 2008ء کے الیکشن کا بائیکاٹ کرنے کے فیصلے کو بھی وہ صحیح سمجھتے ہیں کہ اس وقت حالات ایسے نہیں تھے کہ الیکشن میں حصہ لیا جاتا۔ ان کا کہنا ہے کہ مختلف جماعتوں کے بائیکاٹ کی وجہ سے ایسے ایسے امیدوار سامنے آئے اور ممبر بنے، جو لوکل کونسل کے ممبر بھی نہیں بن سکتے تھے۔ دو، تین بجے تک پولنگ سٹیشنوں پر ووٹ ڈالنے کے لئے کوئی نہیں آیا تھا۔

شادی 1981ء میں والدہ کی مرضی سے خاندان سے باہر ہوئی۔ چار بیٹوں اور چار بیٹیوں کے شفیق والد ہیں۔ ان کے بقول بڑے بیٹے کو سیاست میں دلچسپی ہے۔ ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ اپنے آپ کو کل وقتی سیاستدان کہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بلامعاوضہ اور رضاکارانہ طور پر لوگوں کے مسائل حل کرانے، ان کے حقوق کیلئے آواز بلند کرنے اور جدوجہد کرنے سے حوصلہ پیدا ہوتا ہے اور دل کو تسکین ملتی ہے۔

بلوچوں کو کالونی بناکر نہیں رکھا جاسکتا

بلوچستان کو شروع سے ہی کالونی سمجھا گیا ہے۔ اس مائنڈسیٹ کے ہم سخت خلاف ہیں۔ یہ ہمارے مزاج میں ہی نہیں کہ کسی کی غلامی اور بالادستی کو قبول کریں۔ جو ہمارے ساتھ پیار اور محبت کی زبان میں بات کرتا ہے، ہم صرف اس کی سنتے ہیں۔ بلوچستان کی حالیہ تحریک میں نوجوانوں، پڑھے لکھے طبقے اور خواتین کی بڑی تعداد شامل ہے۔ یہ سب پڑھے لکھے اور متوسط طبقے کے لوگ ہیں۔ سچی بات تو یہ ہے کہ حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ بلوچ نوجوان ہمیں بھی شک اور نفرت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ یہ بات بالکل غلط اور محض پروپیگنڈہ ہے کہ بلوچستان کی ترقی میں بلوچ سردار رکاوٹ ہیں۔ زیادہ تر سردار تو حکومت میں شامل رہے ہیں اور آج بھی حکومت کے ساتھ ہیں، تو حکومت ان کے ساتھ مل کر ترقیاتی کام کیوں نہیں کراتی، یہ تو حکومت کی ذمہ داری ہے۔ بلوچستان میں بیرونی مداخلت کے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ بیرونی مداخلت کا آغاز تو ہم نے خود کیا۔ ہمیں کیا ضرورت تھی کہ افغانستان میں اپنی فوجیں داخل کرتے اور جنگ لڑتے۔ یہ تو ہماری اپنی کمزوری ہے۔ اگر ہم دوسرے ملک میں مداخلت نہ کرتے تو ہمارے ملک میں بھی کوئی مداخلت نہ ہوتی۔ وہ سمجھتے ہیں کہ موجودہ سیاسی صورتحال میں جمہوری سیاسی قوتوں کو سپورٹ کرنے کی ضرورت ہے۔

نوکری سے چڑ تھی

میں نوکری سے شروع سے ہی نفرت کرتا تھا۔ زمانۂ طالب علمی میں ڈپٹی کمشنر (جو اس وقت علاقے کا حاکم ہوتا تھا) ہمارے علاقے میں آئے اور لوگوں سے پوچھا کہ کوئی پڑھا لکھا لڑکا ہے تو اس سے ملوائو۔ اس دور میں پڑھے لکھے لوگ کم تھے، لوگوں نے ڈپٹی کمشنر کو بتایا کہ ایک لڑکا عبدالحئی ہے۔ اس نے میٹرک کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کیا ہے۔ چنانچہ مجھے بلایا گیا اور ڈپٹی کمشنر نے مجھے ضلع میں ڈائریکٹ تحصیل دار تعینات کرنے کی پیشکش کی۔ اُنہوں نے مجھے قائل کرنے کی کوشش کی اور کہا کہ آپ لائق بچے ہو، بی اے کے بعد CSS کا امتحان بھی پاس کرلو گے اور اس طرح ترقی کرتے کرتے چیف سیکرٹری کے عہدے تک پہنچ سکتے ہو، آپ کا مستقبل روشن ہے۔ میں ایک یتیم اور غریب بچہ تھا،اس کے باوجود ڈپٹی کمشنر کو کہہ دیا کہ میں نوکری کو پسند نہیں کرتا۔ وہ حیران ہوا، اس نے کہا کہ بھائی میں نے آپ کو ٹھیک مشورہ دیا ہے اور میں نے سنا ہے کہ آپ غریب ہیں۔ میں نے کہا کہ جو کچھ بھی ہو، میں نے نوکری نہیں کرنی۔

میٹرک کے بعد کالج میں پہلے پہل میں نے پری انجینرنگ میں داخلہ لیا تھا، کیونکہ میں Mathematics میں بہت اچھا تھا اور ہمیشہ 100 فیصد نمبر لیتا تھا۔ کئی ماہ پڑھتا رہا، پھر کسی نے بتایا کہ انجینئرنگ کرنے کا مطلب تو ہے نوکری۔ میں پریشان ہوا کہ جس نوکری سے اپنی جان چھڑانا چاہتا ہوں، وہ تو پھر گلے پڑنے لگی ہے۔ میں فوراً بیالوجی پڑھانے والے استاد کے پاس گیا کہ میں نوکری نہیں کرنا چاہتا، اس لیے مجھے پری میڈیکل میں داخلہ دو، پہلے تو انہوں نے ڈانٹا کہ اتنے ماہ دوسرے مضامین پڑھتے رہے ہو، اب کہتے ہو، میڈیکل میں داخلہ دے دو۔ پھر پیار سے سمجھانے کی کوشش کی کہ کسی نے تمہیں غلط کہا ہے۔ انجینئرنگ کا مطلب نوکری نہیں ہے۔ ادھر ریاضی کے استاد بھی مضامین کی تبدیلی پر راضی نہ تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ تم میرے Shining سٹوڈنٹ ہو، میں تو تمہیں اس کی اجازت نہیں دوں گا۔ خیر میں نے دونوں استادوں کی منت سماجت جاری رکھی اور یوں مشکل سے میرا کام بنا۔

حالات الیکشن کے لئے سازگار نہیں

بلوچستان میں اب بھی حالات الیکشن کیلئے سازگار نہیں ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جگہ جگہ چیک پوسٹیں ہیں، جگہ جگہ پابندیاں ہیں۔ دوسرا، ووٹر لسٹ اور مردم شماری میں افغان مہاجرین کا بھی اندراج کیا گیا ہے۔ ہمارا اس ایشو پر پُر زور احتجاج ہے۔ ہمارا مطالبہ یہ ہے کہ چونکہ وہ غیر ملکی ہیں، یہاں کے شہری نہیں ہیں، اس لیے ان کا نام ووٹر لسٹوں سے نکالا جائے۔ لاپتا افراد کا ایشو بہت سنگین مسئلہ ہے، جسے فوری بنیادوں پر حل ہونا چاہیے۔

ہمارے اوپر جو پیرا ملٹری فورسز کا راج ہے، اس کا خاتمہ ہونا چاہیے تاکہ پابندیاں ختم ہوں۔ الیکشن کا ماحول بنے، لوگ آزادانہ الیکشن میں حصہ لیں اور اپنے ووٹ کا حق استعمال کرسکیں۔ سکیورٹی فورسز کی موجودگی میں آزادانہ اور غیر جانبدارانہ انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں