ماں کبھی بوڑھی نہیں ہوتی

 پیرانہ سالی میں اولاد کی کفالت کرنے والی عورت کی سچی کتھا۔


 پیرانہ سالی میں اولاد کی کفالت کرنے والی عورت کی سچی کتھا۔ فوٹو: فائل

'' اوپر والے۔۔۔۔۔۔ کچرا دے دو! '' میں کچھ دیر قبل ہی بچوں کو اسکول چھوڑ کر لوٹا تھا۔ بیگم کی ہدایت کے مطابق راستے سے سبزی اور چند دوسری چیزیں بھی ساتھ لیتا آیا تھا۔ سودا سلف کا تھیلا اسے تھما ہی رہا تھا جب یہ مانوس جُملہ کانوں سے ٹکرایا۔ یہ سُنتے ہی بیگم نے فوراً ہدایت جاری کی،'' کچرا دے آئیں۔''

ہم ایک چار منزلہ مکان کی سب سے اوپر والی منزل پر رہائش پذیر ہیں۔ سب سے نیچے والی منزل مالک مکان کے تصرف میں ہے۔ اوپری تین منزلیں کرایہ داروں کے لیے مخصوص ہیں۔ عمارت میں کُل چھے گھرانے آباد ہیں۔ ہر گھر کا کچرا ایک بوڑھی عورت اٹھاتی ہے۔ درمیانے قد کی اس دُبلی پتلی عورت کی عمر ساٹھ برس سے کم نہیں ہوگی۔ اپنا بڑا سا میلا تھیلا شانے کے اوپر سے کمر پر لٹکائے وہ زینے کے دروازے پر پہنچتی ہے۔ چپلیں باہر اتارتی اور پھر ہر کرائے دار کا دروازہ بجا کر،کچرا لے کر تھیلے میں ڈالتی تیسری منزل پرآجاتی ہے۔ یہاں آکر ہمیں متوجہ کرنے کے لیے وہ یہ مخصوص جملہ ادا کرتی ہے۔ کبھی کبھار وضاحت بھی کردیتی ہے کہ اس سے مزید سیڑھیاں نہیں چڑھی جاتیں اس لیے وہ ہمیں کچرا نیچے پہنچانے کی'زحمت ' دیتی ہے۔

اُسے اس عمارت سے کچرا اٹھاتے ہوئے ڈیڑھ سال ہوگیا ہے۔ اس عرصے کے دوران بارہا اس خیال نے میرے ذہن پر دستک دی کہ اس پیرانہ سالی میں وہ آرام کے بجائے محنت مشقت کیوں کررہی ہے؟ کون سی مجبوری ہے جو وہ بلاناغہ ہر صبح دوسروں کے گھر کا کوڑا کرکٹ اٹھانے پہنچ جاتی ہے؟ کئی بار اس کے حالات جاننے کی جستجو ہوئی مگر کبھی وقت کی کمی، کبھی کوئی مصروفیت اور کبھی سستی و کاہلی آڑے آتی رہی۔ بالآخر اس روز میں نے مصمم ارادہ کرلیا کہ 'کچرے والی امّاں' کی داستان حیات سُن کر رہوں گا۔

بیگم کی ہدایت سُن کر میں کچرا دان اٹھانے چلاگیا۔ اسی اثنا میں بوڑھی آواز پھر میری سماعت سے ٹکرائی،'' اوپر والے۔۔۔۔۔۔کچرا دے دو!'' میں سیڑھیاں اُتر کر نیچے پہنچا اور کچرا دان تھیلے کے کُھلے ہوئے منھ میں اُلٹ دیا۔ حسب معمول ان کے منھ سے دعائیہ کلمات برآمد ہوئے،'' اﷲ خوش رکھے! آباد رکھے! اﷲ بہت دے! '' میں نے ان کی خیریت دریافت کی اور پھر کہا،'' امّاں! آپ سے کچھ کام ہے۔ کسی روز تھوڑا سا وقت تو نکالیں۔'' انھوں نے میٹھے سرائیکی لہجے میں،'' بیٹا کیا کام ہے؟'' میں نے کہا کوئی خاص کام نہیں ہے بس ایسے ہی آپ سے بات چیت کرنے کا جی چاہ رہا تھا۔ انھوں نے جواب دیا،'' بیٹا، مجھ سے بات کر کے کیا کرو گے۔ چلو پھر بھی میں ' ٹیم' نکال کے آجائوں گی آپ کے پاس۔''

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اور اس دن وہ پہلی بار ہمارا زینہ چڑھ کر اوپرآئیں۔ اس روز انھوں نے وہ مخصوص جملہ بھی ادا نہیں کیا تھا جو ہم ڈیڑھ سال سے سُنتے آرہے تھے'' اوپر والے۔۔۔۔۔۔ کچرا دے دو! '' امّاں نے حسب معمول میلا کُچیلا لباس پہنا ہوا تھا۔ پائوں ننگے تھے کہ چپلیں وہ مرکزی داخلی دروازے کے باہر اتار دیا کرتی تھیں۔ میں بچوں کو اسکول چھوڑ کر کچھ دیر قبل ہی واپس آیا تھا۔ میں نے ان کی خیریت دریافت کرتے ہوئے گِرل کی کنڈی کھولی اور اندر آنے کے لیے راستہ دیا۔

جواباً انھوں نے رب کریم کا شکر اداکیا اور حسب عادت دعائیں دیتے ہوئے اندر آگئیں۔کچرے کا تھیلا انھوں نے سیڑھیوں ہی پر چھوڑ دیا تھا۔ بیگم نے بھی امّاں کو خوش آمدید کہا، اور میرے اشارے پر ان کے لیے چائے لینے چلی گئیں۔ امّاں نے سوفے پر یہ کہتے ہوئے بیٹھنے سے انکار کردیا کہ'' بیٹا، میرے کپڑے گندے ہیں، سوفہ کھراب ہوجائے گا۔'' مگر میرے اصرار پر وہ سوفے پر ٹِک گئیں اور استفسار کیا،'' ہاں بیٹا! کیا بات ہے؟'' میں نے جواب دیا،'' کوئی خاص بات نہیں ہے امّاں۔۔۔۔۔ بس آپ کو دیکھ کر یہ خیال آتا ہے کہ اس عمر میں یہ مشقت کیوں اٹھارہی ہیں؟ یہ عمر تو آرام کرنے کی ہے''

' کچرے والی امّاں' کا قد درمیانہ اور جسامت منحنی سی تھی۔ رنگت گوری اور نقوش جاذب نظر۔ ناک میں لونگ پہنتی تھیں۔ اندازہ ہوتا تھا کہ جوانی میں خوب صورت رہی ہوں گی۔ میرا سوال سُن کر انھوں نے گہری سانس خارج کی اور اپنے مخصوص لہجے میں بولیں،''بیٹا، بڑھاپا ہر کوئی سکون سے گزارنا چاہتا ہے مگر رب سوہنے کی مرضی کے سامنے کسی کی نہیں چلتی۔''

میں نے اماں سے ان کے اہل خانہ کے بارے میں استفسار کیا۔ وہ بتانے لگیں،'' اﷲ نے دو بیٹے اور دو بیٹیاں دی ہیں۔ سب سے بڑا بیٹا ہے، اس سے چھوٹی دو بیٹیاں اور پھر سب سے چھوٹا بیٹا ہے۔'' '' اورشوہر؟'' میں سوالیہ نگاہوں سے انھیں دیکھتے ہوئے مستفسر ہوا۔''وہ بھی میری طرح بڈھڑا ہے اور دوسرے علاقے میں گھروں سے کچرا اٹھاتا ہے۔'' ان کے لہجے میں تاسف کی جھلک نمایاں تھی۔ غالباً یہ سوچ کر دکھی ہوگئی ہوں گی کہ بڑھاپے میں بھی ان کے مجازی خدا کو سُکون حاصل نہیں۔

خاندانی پس منظر کے بارے میں پوچھنے پر انھوں نے بتایا کہ ان کا تعلق ملتان کی تحصیل شجاع آباد کے گائوں راجا رام سے ہے۔ انھوں نے ایک عسرت زدہ گھرانے میں آنکھ کھولی تھی۔ ان پڑھ والدین محنت مزدوری کرکے اپنے بچوں کا پیٹ پالتے تھے۔ فصلوں کی کٹائی کے دنوں میں وہ زمین داروں کے کھیتوں میںفصلیں کاٹتے یا کپاس چُنتے۔ سال کے باقی ایام میں باپ مختلف چھوٹے موٹے کام اور مزدوریاں کرتا تھا۔ ماں گائوں کے چند متمول گھرانوں میں کام کاج کرنے چلی جاتی تھی۔ کچرے والی امّاں کا نام زینب تھا۔ وہ والدین کی اکلوتی بیٹی تھیں۔ ان سے بڑا ایک بھائی تھا۔

آٹھ سال کی عمر میں اماں زینب گھر کا بوجھ بانٹنے کے لیے ماں کے ساتھ گھروں میں محنت مزدوری کرنے کے لیے جانے لگی تھیں۔ عسرت زدہ ماحول میں پلتے بڑھتے ہوئے انھوں نے جوانی کی دہلیز پر قدم رکھا تو برادری کے ایک نوجوان کے پلّے باندھ دی گئیں۔ سُسرال کی مالی حالت ان کے میکے سے مختلف نہیں تھی۔ چناں چہ شادی کے چند ہفتوں بعد میکے والا معمول شروع ہوگیا۔ فرق صرف یہ تھا کہ اب اس کے ساتھ ماں کے بجائے ساس ہوتی تھی۔

خوش قسمتی سے زینب کا شوہر اکرم اس سے بہت محبت کرتا تھا۔ دن بھر کی محنت مشقت، اوپر سے ساس کی جلی کٹی باتیں اسے بے طرح تھکادیتی تھیِ مگر شام کو شوہر کی آمد اور اس کا والہانہ پن سب کچھ بُھلا دیتا تھا۔ دن اسی طرح گزرتے رہے۔ اس دوران امّاں زینب چار بچوں کی ماں بن گئیں۔ ساس سسرکا انتقال ہوچکا تھا۔ بس اب وہ اور بچے تھے، شوہر تھا اور غربت ! چند برس مزید اسی طرح زندگی کی گاڑی گھسیٹنے کے بعد ایک عزیز کے سہارے وہ روشنیوں کے شہر میں آپہنچے۔ تھوڑی بہت جمع پونجی سے ایک کمرے کا مکان کرائے پر لے لیا۔

اس محلّے میں سرائیکی گھرانوں کی خاصی تعداد آباد تھی۔ تقریباً سبھی کرائے پر رہتے تھے۔ ان کی عورتیں گھروں میں کام کاج کے لیے چلی جاتی تھیں اور مرد محنت مزدوری کے لیے نکل جاتے تھے۔ مائوں کے ساتھ ان کی بیٹیاں بھی ہوتی تھیں، مگر امّاں زینب نہیں چاہتی تھیں کہ ان کی بچّیاں دوسرے کے جھوٹے برتن اور کپڑے دھوئیں، جھاڑو پونچھا کریں اور مردوں کی ہوس ناک نگاہوں کا سامنا کریں۔ لہٰذا انھوں نے گائوں کی طرح یہاں بھی اکرم کے شانہ بہ شانہ چلتے ہوئے گھر کا بوجھ بانٹنے کی سعی جاری رکھی۔

میں امّاں کی داستان حیات سُننے میں منہمک تھا۔ اسی اثنا میں بیگم صاحبہ ٹرے اٹھائے اندرآگئیں۔ ٹرے میں چائے کا کپ اور بسکٹ وغیرہ رکھے تھے۔ انھوں نے چھوٹی میز سرکا کر ٹرے اس پر رکھ دی اور میرے ساتھ بیٹھتے ہوئے امّاں سے بولیں،'' لیجیے امّاں ، چائے پییں۔'' امّاں بولیں،'' ارے بیٹا ! آپ یہ کیوں لے آئی ہو؟ میں تو صبح سویرے ناشتہ کرکے آئی ہوں۔'' پھر میرے اور بیگم کے اصرار پر انھوں نے دعائیں دیتے ہوئے چائے کا کپ اٹھالیا۔ امّاں اب سوفے پر اطمینان سے بیٹھ چکی تھیں۔

میں ان کی کہانی سُننے کے لیے بے چین ہورہا تھا۔ لہٰذا جیسے ہی وہ چائے پی کر فارغ ہوئیں فوراً سوال داغ دیا،'' امّاں اب تو آپ کے بچے، بچیاں جوان ہوچکے ہوں گے؟'' ''ہاں بیٹا، ماشاء اﷲ میرے بڑے بیٹے کے چار بچے ہیں۔ چھوٹا بیٹا بھی جوان ہے مگر ابھی اس کی شادی نہیں کی۔'' انھوں نے جواب دیا۔ '' اور بیٹیاں ؟'' میرے اس سوال نے ان کے چہرے پر کرب کے سائے بکھیردیے۔'' ان کی۔۔۔۔ شادی ہوئی تھی۔۔۔۔۔ پر قسمت اچھی نہیں نکلی۔'' انھوں نے ٹھنڈی سانس بھرتے ہوئے اٹک اٹک کر جواب دیا۔

اب بیگم صاحبہ بھی میرے قریب بیٹھی بڑے انہماک سے امّاں کی باتیں سُن رہی تھیں۔ امّاں رُکیں تو انھوں نے بے چینی سے سوال کیا،'' کیوں امّاں ۔۔۔ کیا ہوا ان کے ساتھ؟'' وہ گویا ہوئیں،''آٹھ سال پہلے دونوں بیٹیوں کی شادی ایک ساتھ ہی کی تھی۔ ایک کا بندہ ( شوہر) ڈلیور ( ڈرائیور) تھا، دوسرا ایک فیکٹری میں کام کرتا تھا۔ بس جی۔۔۔۔۔ جو اﷲ کی مرضی۔۔۔۔ اس کی مرضی کے آگے کس کی چلتی ہے۔ بڑی بیٹی کا بندہ ( شوہر) ٹیکسی چلاتا تھا۔ ایک دن نئیں کرانچی (نئی کراچی) کی سواری لے کر جارہا تھا جب ڈمپر ٹیکسی کے اوپر چڑھ گیا۔ وہ ادھر ہی اﷲ کو پیارا ہوگیا۔۔۔۔۔۔۔ دوسرا داماد فیکٹری میں کام کرتا تھا، اسے وہاں کوئی لڑکی پسند آگئی۔ وہ اسے ساتھ لے کر بھاگ گیا۔'' امّاں کی آنکھیں نم ہوگئی تھیں۔ بیٹیوں کا دُکھ ان کی آنکھوں میں اشک بن کر اتر آیا تھا۔ مجھے یہ سب سُن کر شاک لگا تھا۔ یہی کیفیت میری بیگم کی بھی تھی۔ ہمارے دل تاسف سے بھر گئے تھے۔

'' دونوں بیٹیاں آپ کے پاس ہیں؟'' بیگم نے پوچھا۔'' ہاں جی، بیوہ ہونے کے بعد کلثوم کو تو ہمارے پاس آنا ہی تھا۔ چھوٹی والی کو میں خود لے آئی کہ جب اس کا بندہ ہی نہیں ہے تو پھر وہاں رہ کر کیا کرے گی۔'' امّاں کے لہجے میں اُداسی نمایاں تھی۔ ایک بوڑھی دُکھی عورت کے زخم کریدنے پر اب میں اپنے اپ کو ملامت کررہا تھا۔ میں نے ماحول کا بوجھل پن کم کرنے کی غرض سے پوچھا،''آپ کا بڑا بیٹا کیا کرتا ہے؟''،''پہلے ایک سیٹھ کی گاڑی چلاتا تھا۔ اب پتا نہیں کیا کرتا ہے؟'' اس جواب پر مجھے حیرانی ہوئی۔ ''کیا وہ آپ کے ساتھ نہیں رہتا؟'' بے ساختہ میں نے استفسار کیا۔ کچرے والی امّاں کی آنکھوں میں اُتری اداسی گہری ہوگئی،'' شادی کے بعدکچھ مہینوں تک ساتھ رہا تھا۔ پھر الگ ہوگیا، اور ایسا الگ ہوا کہ اب اس کا کوئی اتا پتا نہیں۔ سُنا ہے کورنگی میں کہیں رہ رہا ہے۔ جہاں بھی رہے اﷲ سائیں اسے خوش رکھے!'' ماں کے لہجے میں ناخلف اولاد کے لیے ازلی مامتا در آئی تھی کہ قدرت نے اس ہستی کا خمیر ہی محبت سے اٹھایا ہے۔ بڑے بیٹے نے اپنی ذمہ داریوں اور والدین کے حقوق سے نظر چُراتے ہوئے اپنی الگ دنیا جابسائی تھی مگر ماں کے لبوں پر حرف شکایت کے بجائے دعائیں تھیں۔

'' آپ کی بیٹیوں کے بچے ہیں؟'' بیگم کو مزید جاننے کی جستجو ہوئی۔ '' بڑی بیٹی کے دو لڑ کے ہیں۔ ابھی چھوٹے ہیں۔ کبھی کبھی میرے ساتھ آجاتے ہیں۔'' امّاں کی بات سُن کر دفعتاً مجھے یاد آیا کہ کئی بار میں نے ان کے ساتھ دو بچے دیکھے تھے۔ میلے کچیلے کپڑوں میں ملبوس بچوں کے پائوں میں چپل بھی نہیں ہوتی تھی۔

'' آپ کا چھوٹا بیٹا کیا کرتا ہے؟'' میں نے پوچھا۔ '' وہ ویلڈنگ کا کام سیکھ رہا ہے۔'' امّاں نے جواب دیا۔ '' تو آپ کا گھر کیسے چلتا ہے؟ گزارہ کیسے ہوتا ہے؟ '' بیگم نے ایک ساتھ کئی سوال کر ڈالے۔ یہ سوال کافی دیر سے میرے دماغ میں بھی مچل رہے تھے۔ ''بیٹا گزارہ کروانا تو اﷲ کا کام ہے۔ میں کوئی بیس پچیس گھروں سے کچرا اٹھاتی ہوں۔ میرے بندے (شوہر) کے پاس بھی اتنے ہی گھر ہیں۔ کوئی دو سو دے دیتا ہے۔ کوئی تین سو۔ اﷲ سائیں کا شکر ہے کہ گزارہ ہو ہی جاتا ہے۔'' امّاں کی اس بات نے مجھے حیرت میں ڈال دیا تھا۔ میرے لیے یہ تصور کرنا بھی مشکل تھا کہ گرانی کے اس دور میں دس بارہ ہزار روپے سات افراد پر مشتمل کنبے کے لیے کافی ہوسکتے ہیں جب کہ مکان بھی کرائے کا ہو۔

''آپ کی بیٹیاں کچھ نہیں کرتیں؟'' بیگم نے پوچھا۔ ''نہیں بیٹا۔ ہماری برادری میں عورتیں جھاڑو پونچھا کرنے ضرور جاتی ہیں مگر میں نے اپنی بیٹیوں کے لیے کبھی یہ نہیں سوچا کہ وہ دوسرے کے گھروں میں جا کر کام کریں۔ جب تک میں زندہ ہوں، میں انھیں کبھی گھر سے باہر نہیں جانے دوں گی۔'' کچرے والی امّاں کے لہجے میں بیٹیوں کے لیے محبت کا سمندر لہریں لیتا محسوس ہورہا تھا۔

''اچھا بیٹا، اب میں چلتی ہوں۔ بُرا مت ماننا مجھے دیر ہوگئی ہے۔ ابھی کئی گھروں سے کچرا اٹھانا ہے۔ اﷲ خوش رکھے، آباد رکھے! '' امّاں یہ کہتے ہوئے اُٹھ کھڑی ہوئیں۔ میں نے اٹھ کرگرل کی کُنڈی کھولی۔ انھوں نے کچرے کا تھیلا کندھے پر ڈالا اور ننگے پائوں سیڑھیاں اترنے لگیں۔

میں اس عظیم ماں کو نگاہوں سے اوجھل ہوتے دیکھتا رہا جو اس بڑھاپے میں بھی اپنی اولاد کی کفالت کے لیے مشقت کررہی تھی۔ حالاں کہ اگر وہ کئی دوسری عورتوں کے مانند گداگری کی راہ اپناتی تو بنا مشقت کے کئی گنا زیادہ کماسکتی تھی مگر یہ اس کی خودداری کو گوارا نہ ہوا کہ ساری عمر محنت کرتے ہوئے کاٹی تھی۔ اور تمام تر مشکلات کے باوجود اس کی زبان پر ہمیشہ کلمۂ شکر جاری رہتا تھا۔ کچرے والی امّاں کے ساتھ گزرے چند لمحات نے میری نگاہوں میں اس منحنی سی کم زور عورت کا قد بہت اونچا کردیا تھا۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں