ناکام حسرتوں کے امین
الیکشن میں ابھی تقریباً دو ماہ کا عرصہ باقی ہے دیکھتے ہیں کیسے کیسے مزید انقلابی یہاں اپنا تماشہ دکھاتے ہیں۔
حیرانی ہے جناب شیخ رشید کی عقلِ سلیم پر جنھیں ملکی سیاست کا ایک طویل تجربہ ہو چکا ہے اور جو بقول خود بچپن ہی سے سیاست کرتے آئے ہیں اور اِس ملک میں کمسن سیاسی قیدی بننے کا بھی اعزاز اُنہی کے پاس ہے۔ جن کی عمر کا ایک بڑا حصہ حکومتی ایوانوں میں گزرا ہے اور جنھیں چھ مرتبہ وفاقی وزیر بننے کی سعادت بھی نصیب ہو چکی ہے وہ آج کل ایسے ایسے بیانات دے رہے ہیں جن سے اُن کی فہم و فراست، عقل و دانش اور سیاسی بلوغت پر شک ہونے لگا ہے۔ جدید دور کی الیکٹرانک میڈیا کی برکتوں سے فیضیاب ہونے والے ہمارے یہ انتہائی جذباتی سیاسی مفکر آج کل کسی بڑی نفسیاتی کشمکش اور ذہنی الجھن کا شکار دکھائی دیتے ہیں۔ اُن کی وہ تمام سیاسی پیشین گوئیاں جو کبھی کبھار سچ ہو جایا کرتی تھیں، موجودہ حالات میں بالکل غلط بلکہ برخود غلط ثابت ہو رہی ہیں۔
راولپنڈی میں ہماری اسٹیبلشمنٹ کے ہیڈ آفس سے دیرینہ مراسم کی بدولت اُنہیں یہ گمان ہو چلا تھا کہ وہ جن جن خطرات کی نشاندہی کر تے جائیں گے اسٹیبلشمنٹ اُن پر یقین کرتے ہوئے کسی ایسی کاروائی کے لیے بالآخر راضی اور تیار ہو جائے گی جس سے یہ سارا جمہوری سیٹ اپ تباہ و برباد ہو کر رہ جائے اور ملک پھر ایک طویل غیر جمہوری دور بھگتنے پر مجبور ہو جائے۔ لیکن اُن کی ایسی ہر خواہش کو ہماری عدلیہ نے اپنے فیصلوں سے ناکام و نامراد بنا دیا۔ اِس وطنِ عزیز میں اگر جمہوریت کے دفاع میں کوئی قوت سینہ سپر ہو کر کھڑی ہو گئی ہے تو وہ ہماری عدلیہ ہی ہے۔ جس نے تہیہ کر لیا ہے کہ خواہ کچھ بھی ہو جائے وہ آیندہ کسی مارشل لاء کو نظریہ ضرورت کے تحت جائز قرار نہیں دے گی اور کسی آمر کو حیاتِ جاوداں اور من مانی کرنے کا سرٹیفکیٹ فراہم نہیں کریگی۔
یہی وجہ ہے کہ مارشل لاؤں کی گود میں پروان چڑھنے والے ہمارے کچھ سیاسی رہنما اب بھی کسی ایسی انہونی کی تلاش میں سرگرداں دکھائی دیتے ہیں جس سے ملک میں رواں جمہوری نظام تہہ و بالا ہو کر رہ جائے اور کوئی طالع آزما اِس قوم کے اعصاب پر پھر سوار ہو جائے۔ ایسی ہی خواہشوں کے پیچھے بھاگتے بھاگتے وہ اتنے خفیف اور کم تر ہو چکے ہیں کہ ہر اُس معمولی سیاسی ہلچل کو وہ اپنی حسرتوں کی تکمیل کا ساماں تصور کرنے لگتے ہیں جو اپنے وجود کو چند دنوں سے زائد برقرار رکھنے کی سکت بھی نہ رکھتی ہو۔ ایسا ہی کچھ نظارہ اِس قوم نے پچھلے دنوں اسلام آباد میں دیکھا تھا جہاں دینی تعلیم دینے کا دعویدار ایک پروفیسر جسے اپنے لیے مولانا کے نام سے چڑ سی ہو چکی ہے ملک کے اندر انقلاب برپا کرنے نکلا تھا اور صرف چند دنوں کی شعلہ بیانی اور چرب زبانی کے جوہر دکھا کر اطمینان و سکون سے اپنے لاہور والے گھر واپس لوٹ گیا۔
ساری قوم نے چار دنوں تک ٹی وی چینلوں کے کیمروں سے ایک ایسے کنٹینر سے اپنے امیر انقلاب کو گرجتے برستے دیکھا جس میں فراہم کردہ سہولتیں کسی فائیو اسٹار ہوٹل سے کم نہ تھیں۔ اُس کے پرستار اُس کے چاہنے والے اور اُسکی باتوں ہر یقین کرنے والے باہر سخت سردی اور بارش میں ایک ایسے انقلاب کی توقع لگائے بیٹھے تھے جسے کبھی ظہور پذیر ہونا ہی نہیں تھا۔ وہ انقلاب تو قائدِ انقلاب کے اُن پُر اسرار سہانے خوابوں کی مانند ایک فریب ہی تھا جن کا تذکرہ آج کل سوشل میڈیا پر بہت عام ہے۔ اسلام آباد کو کربلا اور حکمرانوں کو یزیدی لشکر کا نام دینے والا اور اپنے قافلے کو حسین کے قافلے سے تشبیہ دینے والا یہ وقت کا عجیب و غریب انقلابی تھا جسے اپنے خیالات اور اپنی سوچ پر، اپنے نقطہ نظر پر کامل عبور بھی حاصل نہ تھا۔
وہ اپنے مارچ کو دنیا کا سب سے بڑا مارچ قرار دے رہا تھا۔ ایسا مارچ جس کے اصل مقاصد اور مطالبے خود اُس کے لیڈر ہی کو معلوم نہ تھے۔ وہ کس تبدیلی کے لیے اپنے گھر سے چلا تھا اور کیا حاصل کر کے واپس لوٹا۔ اُس نے دعویٰ تو بہت کیا تھا کہ اسلام آباد کے ڈی چوک کو تحریر اسکوئر بنا ڈالوں گا اور حکومتِ وقت کے خاتمے تک دھرنا جاری رہے گا لیکن جو کچھ ہوا وہ قوم کے سامنے ہے۔ اپنی پہلی تقریر کے دوران سپریم کورٹ کے ایک آڈر کے اچانک آ جانے پر فرطِ مسرت اور جذبات میں جس طرح کو وہ چیختے اور چلاتے دکھائی دیے وہ انڈین اداکار امریش پوری کی کسی فلم سے کم نہ تھے۔
لیکن بہت جلدی اُنکی اِس خوشی پر پانی پھر گیا اور وزیرِ اعظم کی گرفتاری کا خواب ادھورا ہی رہ گیا۔ اپنی آدھی تقریر کو آدھی کامیابی قرار دینے والے اِس خود ساختہ اور خود پرست انقلابی رہنما کو بہت جلد اپنی مکمل ناکامی کا احساس ہو گیا اور ایک طے شدہ اسکرپٹ کے مطابق وہ یزیدی حکمرانوں سے مذاکرات کا سوانگ رچانے پر رضامند ہو گیا۔ اِس طے شدہ اسکرپٹ کا بھانڈا تو ہمارے بھولے بھالے سیاستدان جناب چوہدری شجاعت نے اُس وقت پھوڑ ڈالا جب آخری دن کنٹینر میں اعلانِ اسلام آباد پڑھ کر سنایا جا رہا تھا ۔ بقول اُن کے کہ اُنہوں نے علی الصبح فجر کے نماز ادا کر کے آج شام ہونے والے مذاکرات کی کامیابی کی دعائیں کی تھیں۔
اس قوم کے ساتھ کیسے کیسے خطرناک کھیل کھیلے جاتے ہیں اور کیسے کیسے مذاق کیے جاتے ہیں او ر پھر کیسے کیسے ہمارے بھولے بھالے لوگ اِس کھیل کا حصہ بن جاتے ہیں، یہ ایک ایسی افسوناک اٹل حقیقت ہے جس پر جتنا بھی ماتم کیا جائے کم ہے۔ قوم کے اعصاب پر سوار ایسے جعلی انقلابی لوگ ویسے تو ہر دور میں کارفرما دکھائی دیتے ہیں لیکن گزشتہ چند سالوں سے اِن میں کچھ تیزی آ گئی ہے اور وہ ڈرائنگ روم سے باہر نکل کر سڑکوں اور میدانوں میں لوگوں کو متحرک کرتے دکھائی دینے لگے ہیں۔ ہماری قوم تو ہر وقت کسی ایسے انقلاب کی نوید سننے کے لیے بے چین و بے تاب رہتی ہے، لہذا اُسے جب کوئی پکارتا ہے وہ اُس کی جانب دوڑنے لگتی ہے۔ مگر صحیح انقلاب کے لیے جس جذبے اور خلوصِ نیت کی ضرورت ہوتی ہے وہ ابھی تک کسی بھی انقلابی دعویدار میں دکھائی نہیں دی۔
یہاں انقلاب کا ڈراما رچانے والے تو بہت ہیں لیکن اصل انقلاب کی چاہ اور خواہش کسی رہنما میں نہیں، سب کے اپنے اپنے مفادات ہیں اور وہ اُنہی مفادات کے تحت اپنی اپنی پسند کا انقلاب لانا چاہتے ہیں۔ عوام کی قسمت اور حالت زار بدلنا کسی کا اولین مقصد او ر متعین ہدف نہیں ہے۔ ایک کامیاب سیاسی جلسہ کر کے کچھ لوگ اپنے آپ کو قوم کا نجات دہندہ سمجھ لیتے ہیں اور ذہنوں میں خود ساختہ کامیابی کے ایسے ایسے ارمان سجا لیتے کہ اگلے الیکشن میں اُنہیں اپنی جیت ایک سونامی کی مانند دکھائی دینے لگتی ہے۔
جس طرح ریاست بچانے والے کو بمشکل اپنی عزت بچانی پڑی بالکل اُسی طرح سونامی کے دعویدار کو اب اپنی ساکھ خطروں میں گھرتی دکھائی دینے لگی ہے تو وہ الیکشن سے پہلے ہی دھاندلی کا شور ڈالنے کا شوشہ بلند کرنے لگے ہیں۔ پہلے چیف الیکشن کے انتخاب پر اپنا اعتماد ظاہر کرنے والے کو اب اُس کی قابلیت اور اہلیت پر شک و شبہ ہونے لگا ہے۔ اپنے بارے میں تو اُسے یہ خبط اور گمان ہے کہ وہ ایک ایسا لیڈر اور کپتان ہے کہ اکیلا ہی ملک کی ساری ٹیم کو اپنے فہم و فراست کے مطابق بخوبی چلا سکتا ہے لیکن ایک غیر جانبدار، ایماندار شخص جناب فخرالدین جی ابراہیم ایک الیکشن کمیشن کو اپنی مرضی و منشاء کے مطابق نہیں چلا سکتے ہیں۔
الیکشن میں ابھی تقریباً دو ماہ کا عرصہ باقی ہے دیکھتے ہیں کیسے کیسے مزید انقلابی یہاں اپنا تماشہ دکھاتے ہیں۔ اور کون کون اپنی متوقع ناکامی کا الزام الیکشن کمیشن کے سر تھوپنے کا ارادہ کیے ہوئے ہے۔ سونامی اور مک مکا کی گردان پڑھنے والے کو اب نئے لفظ دھاندلی کی گردان بھی شروع کر دینی چاہیے کہ اَسی میں اُس کی رہی سہی عزت اور ساکھ بچانے کا راز پنہاں ہے۔