مجھے دل سے نہ بھلانا
وقت کے ساتھ فن کا ٹھہراؤ جدید دور کے انتشار کی نذر ہو گیا۔ جدیدیت کی آڑ میں مغربی انداز اپنا لیا گیاہے.
زندگی عارضی ہے، کسی بھی چیز کو بقا نہیں، لیکن ہم زندگی کا یہ کڑوا سچ بھول کر وقت کی خوش گمانیوں میں کھو جاتے ہیں، جو سامنے منظر دیکھتے ہیں، اسے سچ سمجھ بیٹھتے ہیں اور گماں خاموشی کے ساتھ حقیقت کا تعاقب کرتا رہتا ہے۔ لیکن جب ہم کسی کی موت کی خبر سنتے ہیں تو زندگی کی بے ثباتی کا احساس غیر محسوس اداسی کی صورت میں در آتا ہے۔ تب احساس ہوتا ہے کہ زندگی کس قدر مختصر ہے۔ بقول انگریزی کے شاعر رابرٹ ہیرک کے ''زندگی مختصر ہے گرمیوں کی بارش جیسی، پھول پر جھلملاتی اوس کی مانند'' یا پھر زندگی ہوا کا خوشگوار جھونکا ہے جو پل بھر کے لیے چھو کے گزر جاتا ہے اور محض یادیں رہ جاتی ہیں۔
پاکستان کی مایہ ناز اور منفرد گلوکارہ مہناز بیگم کی موت کی خبر سننے کے بعد سوچیں ذہن کے ساحل پر لہر در لہر ٹکرانے لگیں۔ ماضی کی بند کتاب کے اوراق یکے بعد دیگرے کھلتے چلے گئے۔ یہ 1993-94ء کی بات ہے جب میں کراچی ٹیلی ویژن کے پروگرام سُر لطیف کی کمپیئرنگ کرتی تھی۔ یہ پروگرام شاہ عبداللطیف بھٹائی کی شاعری پر مشتمل تھا۔ پروگرام کے پروڈیوسر مرغوب احمد صدیقی تھے۔ شاہ لطیف کی شاعری کا ترجمہ آفاق احمد صدیقی نے کیا تھا۔ مرغوب صاحب روحانی فکر کے حامل تھے اور ہر ہفتے شاہ عبداللطیف بھٹائی کی درگاہ پر حاضری دیا کرتے۔
آفاق صدیقی کی مشفق اور مدبر شخصیت علم و ادب کا خزانہ تھی۔ اس زمانے میں نجی چینلز کی بھرمار نہ تھی۔ ٹیلی ویژن ڈرامے اور موسیقی کے پروگرام بہت پسند کیے جاتے تھے۔ سُر لطیف میں جہاں بہت سے فنکاروں نے آواز کا جادو جگایا وہاں مہناز بیگم نے بھی اپنی خوبصورت آواز سے سماں باندھ دیا۔ میری ان سے ملاقات اس پروگرام کے دوران ہوئی۔ مہناز کی شخصیت دھیمی، باوقار، پرسکون اور متاثر کن تھی۔ دھیمے لہجے میں بات کرتیں اور انداز بیاں دل کو چھو جاتا۔ چہرے پر ایک گہرا سکون تھا جو شاذ و نادر ہی دکھائی دیتا ہے۔ ان کی ذات بناوٹ سے عاری تھی۔
مہناز کافی عرصے سے بیمار تھیں، ان کی بیماری کی خبر آئی بھی ہو گی تو اخبار کے کسی گوشے میں مختصر الفاظ میں چھپی ہو گی۔ وگرنہ ملک کے اخبارات کی سرخیاں اور اہم خبریں سیاسی رسہ کشی، اسکینڈلز، بم دھماکوں اور قتل و غارت گری پر مشتمل ہوتی ہیں۔ تیس سال سے فن کی دنیا میں آواز کا جادو جگانے والی مہناز نے کسی سے شکوہ بھی کیا کہ وہ کافی عرصہ بیمار رہیں مگر ان سے کسی نے نہیں پوچھا۔ کسی بھی مصروف و معروف فنکار کے لیے یہ لمحے بہت کٹھن ہوتے ہیں جب وہ روشنیوں و رنگوں کی دنیا سے الگ ہو کر بیماری کے دنوں میں تنہائی کا شکار ہو جاتا ہے۔ مہناز کی روح بھی اپنے لوگوں کی بے اعتنائی سے زخمی ہوتی رہی۔ وہ کچھ عرصہ پہلے امریکا کے کسی اسپتال میں بھی زیر علاج رہیں۔ امریکا کی حکومت نے ان کا مفت علاج کیا۔ مہناز کو گائیکی پر عبور حاصل تھا۔ انھیں غزل، ٹھمری، دادرا، خیال، سلام، نوحے اور مرثیے پر مہارت حاصل تھی۔
مہناز بیگم نے ریڈیو، ٹیلی ویژن اور فلم کے لیے لاتعداد گانے گائے، ان کے چند گانے میرے ذہن سے کبھی نہیں مٹ سکے۔ ''مجھے دل سے نہ بھلانا، دو پیاسے دل ایک ہوئے ہیں، اپنے لیے تو سب ہی جیتے ہیں اس جہاں میں'' اور امیر خسرو کا کلام ''چھاپ تلک سب چھین لی رے' مو سے نیناں ملائی کے'' بہت مشہور ہوا۔ مہناز اس قدر ڈوب کر گاتیں کہ گانے کے بولوں میں ان کی روح کی صدا صاف سنائی دیتی۔ گائیکی کا فن انھیں ورثے میں ملا تھا۔ ان کی والدہ کجن بیگم اپنے دور کی معروف مرثیہ و نعت خواں تھیں۔ مہناز بھی والدہ کے ساتھ میلاد میں نعت پڑھتی تھیں۔ کالج کے زمانے میں موسیقی کے مقابلے میں پہلا انعام حاصل کرنے کے بعد مہناز سُر کی دنیا کی طرف راغب ہوئیں۔ ان کے والد ریڈیو پاکستان میں ملازم تھے۔ ریڈیو ٹیلی ویژن و فلم کی دنیا پر ان کی میٹھی آواز حکمرانی کرنے لگی۔
جس دور میں مہناز نے اپنے کیریئر کا آغاز کیا وہ گائیکی کے حوالے سے جاندار دور تھا۔ لوگ سُر، تال اور لے کو سمجھتے تھے۔ غزل و گیت اور خوبصورت دھنوں سے مزین گانوں سے لطف اندوز ہوتے تھے۔ مگر وقت کے ساتھ فن کا وہ ٹھہراؤ جدید دور کے انتشار کی نذر ہو گیا۔ جدیدیت کی آڑ میں مغربی انداز اپنا لیا گیا اور ہر طرف پاپ میوزک کی صدا گونجنے لگی۔ مگر سچ تو یہ ہے کہ جدید موسیقی روح کی تشنگی کو سیراب نہیں کر پاتی۔ اس کا وقتی تاثر بکھر جاتا ہے۔ مگر اقبال بانو، فریدہ خانم، ناہید اختر، مہدی حسن، امانت علی، اسد امانت علی، ملکہ پکھراج، طاہرہ سید، نور جہاں، منی بیگم، نیرہ نور، عابدہ پروین اور ریشماں کو سن کر ان امر آوازوں کا تاثر لمبے عرصے تک ذہن و روح کو شاداب کیے رکھتا ہے۔ زندہ قومیں اپنے فن کے قیمتی ورثے کو کبھی مٹنے نہیں دیتیں۔ اپنی موسیقی کے خالص پن کو سنبھال کے رکھتی ہیں۔ مگر ہم وہ منفرد ورثہ دن بہ دن کھو رہے ہیں۔
مہناز بیگم کو بھی اس دور جدید کے بدلتے اطوار سے کئی گلے شکوے تھے۔ بیماری کی وجہ سے ان کی خوبصورت آواز مدھر سُر بکھیرنے سے قاصر تھی۔ اس بار وہ علاج کی خاطر امریکا جا رہی تھیں کہ دوران پرواز ان کی طبیعت خراب ہو گئی اور انھیں بحرین کے اسپتال میں منتقل کر دیا گیا، جہاں 55 سال کی عمر میں وہ اس دار فانی سے کوچ کر گئیں۔ ان کے جانے کے بعد ان کے مداح موسیقی کی دنیا میں بہت بڑا خلا محسوس کرتے رہیں گے۔ مگر ان کی خوبصورت آواز اور فضاؤں میں بکھرتے سُروں کے آلاپ ہمیں ان کی موجودگی کا احساس دلاتے رہیں گے۔