کل بھوشن سرخ رو کرنے کا معاوضہ
بین الاقوام کی آبیاری کرنے والی قوتوں نے ملی بھگت کرکے کلبھوشن کے مسئلے کو عالمی عدالت انصاف میں سننے کا فیصلہ کیا
معروضی حالات: اقوام عالم اور ان کی ریاستوں پر آج یورپی نشاۃ ثانیہ میں ترتیب دیے گئے نظریات کا غلبہ دکھائی دیتا ہے۔ جن میں انتظام معاشرت کے لحاظ سے جمہوریت، لبرلزم، سوشلزم و سیکولر زم کو گنوایا جاسکتا ہے۔ جب کہ دیگر شعبہ حیات پر وسیع النظری اور ترقی پسندی کے مظاہرے بھی کچھ اسی طرح کی صورتحال کو بیان کرتے ہوئے ملتے ہیں۔ جن کی روشنی میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ آج جو قوم خاص طور جمہوری قدروں سے دور ہے اسے اقوام عالم کی صف میں دقیانوسی و بنیاد پرست قرار دیا جاتا ہے۔ اس ضمن میں سب سے زیادہ دباؤ پاکستان کی ریاست اور اس کی قومی شناخت پر ڈالے جانے کی روایت بہت ہی مضبوط ہوتی ہوئی دکھائی دی جانے لگی۔ چونکہ اقوام عالم نے یورپی نشاۃ ثانیہ کے محققین، مدبرین، موبرین، منتظمین، موجدین اور دانشوروں کو اپنا رہبر و رہنما مان کر یورپی اقوام کی ترقی پسندی کے زیر اثر ان کے جیسا بن جانے کا عزم کیا ہوا ہے۔ اور وہ کشاں کشاں اس منزل کی جانب رواں دواں بھی ہیں۔ جس کے عملی اثرات پاکستان پر اور پاکستان میں بھی ظاہر ہوتے آئے ہیں۔ شاید اسی لیے ہمارا مقتدر طبقہ ان کے جیسا بننے کے لیے ان کی ریاستوں میں ملکیتیں بنانے میں مگن دکھائی دیتا ہے۔ بلاشبہ ان کی اس طرح کی روش میں اساسی طور جمہوری قدریں ہی وجہ برکت بنی ہوئی ہیں اور عالمی دباؤ کے تحت ریاست ان تمام ''جمہوری قدروں'' کے شانہ بشانہ کھڑی ہوئی نظر آنے لگتی ہے۔ لیکن حیرت انگیز طور پر جمہوریت اور ہمارے مقتدر طبقے کی ملی بھگت کے حتمی نتائج میں ہماری ریاست و ہمارا قومی تشخص نام نہاد ترقی و جمہوریت پسندوں کی تنقید کا نشانہ بنا ہوا ہے۔ تو دوسری جانب جمہوریت کو پروان چڑھانے والی استعماریت کی سازشوں میں گھری پاکستانی ریاست پر ہندوستانی جارحیت کے بعد استعماریت کی تازہ ترین لاڈلی و نومولود جمہوری افغانستانی حکومت کی جارحانہ و بزدلانہ کارروائی کے بعد ہمارے تیسرے پڑوسی ملک ایران نے بھی حملے کی دھمکی دے ڈالی ہے۔ گو کہ بعد میں برادر اسلامی ملک نے پاکستانی ریاست کو سفارتی طور پر مبینہ دہشتگردوں کے خلاف کارروائی کی اپیل کی ہے۔ کیونکہ ان کو بھی یہ احساس ہے کہ پاکستان خود دہشتگردی اور جارحیت کا شکار ہے اور اس کے خلاف بہت بڑی جنگ لڑ رہا ہے۔
اقدامات: پاکستان کا قیام استعاری نظام معاشرت کے نام کے بجائے اسلام کے نام پر عمل میں لایا گیا تھا، جس نے بحیثیت ایک ریاست جارحانہ خطرات کے پیش نظر قومی ارتقائی مرحلے کے مختصر ترین دورانیے میں خود کو ناقابل تسخیر بنایا ہوا ہے، جس سے بلاشبہ اقوام عالم میں جارحیت کے خلاف ایک مضبوط اور موثر آواز کی موجودگی جارحیت گزیدہ اقوام کی امیدوں کا مرکز بنی ہوئی ہے۔ کیا یہ کسی اعزاز سے کم ہے کہ پاکستان کی ریاستی ذمے داریوں سے سبکدوش ہونے والے سے دنیا کے 34 ممالک کی جانب سے اپنی اپنی ریاستوں کی اساس کو مضبوط کرنے کے لیے پاکستانی صلاحیتیں مانگ لی گئی ہیں؟ کیونکہ پاکستان نے جارحانہ جمہوریت کے تمام ڈی میرٹس سے نمٹنے کی ابتدا ہی جارحانہ، انتہا پسندانہ و دہشتگردانہ عزائم کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے سے کی تھی۔ جس کے ارتقائی اظہار میں آپریشن ضرب عضب، رینجرز آپریشن اور آپریشن ردالفساد کے میدانوں میں وہ کامیابیان حاصل کی ہیں، جس کے خود وہ ممالک بھی معترف ہیں جو پاکستانیوں کو ایک غیر جمہوری ریاست کا باشندہ ہونے کا طعنہ دیا کرتے اور انھیں قدامت پسند گردانتے آئے ہیں۔ لیکن آج ریاست پاکستان نے سفارت کاری کی تاریخ میں پہلی بار اپنے خلاف سازشیں کرنے والی استعماری قوتوں کی لاڈلی بھارتی خفیہ ایجنسی ''را'' کے لیے کام کرنے والے بھارتی بحریہ کے افسر 41885z کمانڈر کلبھوشن سدھیر یادیو عرف حسین مبارک پٹیل کو بلوچستان کے علاقے ماشکیل سے دریافت کرکے اقوام عالم کے سامنے لاکر کھڑا کردیا ہے۔ اور ان کو جتا دیا ہے کہ استعماری و انسانیت دشمن قوتوں نے پاکستان اور اس سے متعلق تاریخی تشخص کو اقوام عالم کے سامنے جس بھیانک انداز میں پیش کیا ہوا تھا، اس کی اصل حقیقت کل بھوشن یادیو کے سامنے آنے سے کھل چکی ہے۔
خطرات کا سدباب: اگر دیکھا جائے تو جس طرح پاکستان کی بحیثیت ایک ریاست اور قوم کے تمامتر اجزائے ترکیبی اپنا وہ منفرد تاریخی و نظریاتی تشخص رکھتے ہیں، جو تاریخ کے ہر موڑ پر عالم انسانیت کی فلاح و بہبود، ترقی وخوشحالی کا پیغام پہنچانے کے مقدس ترین کام میں ہمیشہ ہی سرخرو رہتا آیا ہے، جس کے ارتقائی اظہار میں اتنی ساری قوتوں کی گہری سازشوں اور اپنوں کی ''صادقی و جعفری'' کے باوجود پاکستان بحیثیت ایک نظریاتی ریاست استعماری مقاصد کی تکمیل میں سیسہ پلائی دیوار کی مانند رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اس کے نظریاتی تشخص کی ہی تاثیر کے باعث اس کو ریاستوں کی صف میں ایسی جغرافیہ سے نوازا گیا ہے جس کے نتیجے میں یہ عالمی معیشت کو نہ صرف ہلانے کی طاقت رکھتا ہے بلکہ C.P.E.C کے نام سے اس نے گیم چینجر منصوبے کا آغاز بھی کیا ہوا ہے، جس کو ناکام بنانے یا اس میں تعطل پیدا کرنے کے لیے کلبھوشن یادیو جیسی حرکتیں کھل کر سامنے آگئی ہیں۔ عالم انسانیت کے اہل نظر دانشوران کرام نے کشمیر اور فلسطین کے مسائل پر استعماریت کے زر خرید غلاموں جیسے عالمی اداروں کے عملی کردار کو دیکھ لیا ہوا ہے، جس کی روشنی میں وہ یہ سمجھ سکتے ہیں کہ قانون بین الاقوام کی عملی حیثیت پتھر سے سر پھوڑ کر ''سرخ رو'' کیے جانے کا معاوضہ طلب کیے جانے کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ اس قانون بین الاقوام کی آبیاری کرنے والی قوتوں نے ملی بھگت کرکے کلبھوشن یادیو کے مسئلے کو عالمی عدالت انصاف میں سننے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس نازک تاریخی موقعے پر پاکستان ہمیشہ کی طرح ایک بار پھر ان قوتوں کی آنکھوں میں آنکھیں ملا کر اپنا تاریخی بیانیہ دہرانے جارہا ہے، جو بیانیہ کل ابراہیم نبیؑ نے بابل کے خدائی دعویداری رکھنے والے نمرود، موسیٰ نبیؑ نے طبث کے فرعون، داؤدؑ و سلیمانؑ نے سود خور علمائے یہود اور جناب عیسیٰؑ نے دیوتائی تسلط لیے اہل یورپ کے سامنے رکھا تھا۔ اب کی بار بس ذرا اس کا ارتقائی اظہار مختلف ہے، یعنی اب استعماریت کے مدمقابل پاکستان ایک ریاست کی حیثیت سے وہ بیانیہ پیش کرے گی جس کو سبوتاژ کرنے کے لیے کل بھوشن یادیو جیسے ہتھکنڈے استعمال کیے جانے لگے ہیں۔ اس نازک تاریخی کام میں اگر پاکستان کی ریاست نے ذرا بھر بھی نام نہاد ترقی پسندی، وسیع النظری اور جمہوریت پسندی کا مظاہرہ کیا تو پھر اتنی ساری دہشتگرد کارروائیوں سے ملک وقوم جس انداز میں ''سرخ رو'' بنی ہوئی ہے، اس کا معاوضہ ادا کیے جانے کے خطرات کا خاتمہ کرنا ناممکن ہوگا۔