پرانی کہانی نیا عنوان
کلبھوشن سے پہلے کرنل پروہت بھی دہشت گردی کی واردات میں اپنا آپ چھپا نہ سکا
لاہور:
مستونگ میں ڈپٹی چیئرمین سینیٹ مولانا عبدالغفور حیدری پر دہشت گردی کی واردات کے نتیجے میں ستائیس افراد اپنی جان سے گئے جب کہ مولانا صاحب اس حادثے میں زخمی ہوگئے، یہ خبر پورے ملک کے لیے لمحہ فکریہ بن کر ابھری ہے جس پر تمام سیاسی اداروں کی جانب سے مذمت کی گئی ہے یہ ایسا وقت ہے جب بلوچستان میں بہت سے ناراض بلوچ اپنے ہتھیار اور عزائم کو ایک جانب رکھ کر اپنے ہم وطنوں سے آ ملے۔
اس اہم موقعے پر اس قسم کی دہشت گردی کی واردات بہت سے سوالوں کی جانب اشارہ کرتی ہے، یہ واردات غیر ملکی عناصرکی جانب سے ہے جو ہماری ملکی سالمیت کے خلاف کام کر رہی ہے؟ کلبھوشن کی گرفتاری کے بعد کیا اس کا مشن کسی اور ذرایع کے سپرد کردیا گیا ہے؟ کیا ابھی کچھ ناراض بلوچوں میں ایسے عوامل شامل ہیں جو انھیں اپنی مادر ملت کے خلاف اکسا کر کام کروا رہے ہیں؟ یا کسی نام نہاد تنظیم کو اسلامی محبت کے لبادے میں چھپا کر اسلام کے خلاف مذموم کارروائی کروائی جا رہی ہے؟
23 مارچ 2006 انڈر سیکریٹری آف اسٹیٹ فار پولیٹیکل افیئرز مسٹر نکوس برنز نے اخباری نمایندوں سے بات چیت کرتے اس امر پر نہایت خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا جو بھارت اور امریکا کے درمیان خفیہ دفاعی معاہدے سے متعلق تھی۔
''ہمارے خیال میں لگی لپٹی رکھے بغیر سیدھی سادی بات تو یہ ہے کہ گزشتہ کئی سالوں سے امریکا بھارت کے ساتھ انتہائی اہم اسٹریٹجک اقدامات کی خاطر مرا جا رہا تھا۔''
مسٹر برنز نے اس امر پر بھی نہایت خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس مقصد کے لیے بھارت میں ایڈوانس ٹیکنالوجی سیکٹر کے لیے امریکی، نجی سرمایہ کاری آرہی ہے، بے پناہ تجارتی توسیع پر بھی کام ہورہا ہے جس سے دونوں ملکوں کو فائدہ پہنچے گا۔ انھوں نے اپنی تقریر میں بھارت کو دنیا کی عظیم جمہوریت قرار دیا جو پرامن طریق سے تنازعات کے حل کرنے کا تہیہ کیے ہوئے ہے یہ وہ ملک ہے جس نے ہمسایوں کے خلاف کبھی جارحیت نہیں کی بلکہ اس کے برعکس ان کے ساتھ مسائل حل کرنے کی کوشش کی۔
2006 سے لے کر اب تک گو حالات بدلتے رہے ہیں لیکن کلبھوشن کی گرفتاری نے بہت سے چہروں پر سے نقاب الٹ دیا ہے۔ ایک سیدھا سادھا سا فارمولا کہ جس پر بھارت 1947 کے وقت سے لے کر اب تک عمل کرتا آرہا ہے لیکن اس کے بدلے اسے کیا مل رہا ہے اس کی بری فوج میں نچلے طبقے کے فوجیوں میں اپنے ہی افسروں کے خلاف بے چینی پائی جا رہی ہے یہاں تک کہ عوام میں بھی فوجی طبقوں کے حوالے سے یقین کی بجائے ابہام پایا جاتا ہے، بلوچستان میں ایک طویل عرصے جس پراسراریت سے بے چینی کی فضا پھیلائی گئی۔ اس کے شعلوں نے قائداعظم محمد علی جناح کی زیارت ریزیڈنسی پر بھی حملہ کردیا لیکن کیا ایسا ہی ہوا کہ جیسا وہ چاہتے تھے بے شک بری پلاننگ کتنی ہی عمدہ کیوں نہ بنائی گئی ہو جب تک اس کی منظوری آسمان کی جانب سے نہیں ہوتی کہیں سے بھی کسی قسم کی پیش رفت نہیں ہوتی۔
کشمیرکی حالیہ صورتحال دنیا بھر کے سامنے ہے حالانکہ اس امر کو پریقین بنایا جا رہا ہے کہ انٹرنیٹ اور ایسے ہی دوسرے روابط کے ذریعے کشمیر میں خونی حادثات کی خبریں وائرل نہ ہوں لیکن جس کو ہوا کے ذریعے پھیل جانے کا حکم ہوجاتا ہے اسے کون روک سکا ہے؟
کلبھوشن سے پہلے کرنل پروہت بھی دہشت گردی کی واردات میں اپنا آپ چھپا نہ سکا، یہ وہی کرنل پروہت ہے جس نے دوستی ایکسپریس ٹرین میں دھماکے کروائے اور بے گناہ پاکستانیوں کو زندہ جلایا، یہ شخص بھارتی فوج کا آن ڈیوٹی کرنل تھا، جس نے بھارتی فوج کے اسلحہ خانے سے سیکڑوں من بارود مختلف اوقات میں چوری کرکے آر ایس ایس کی ذیلی دہشت گرد تنظیموں کو پہنچایا تاکہ وہ دھماکے کرکے بھارت ماتا کو ''شدھ'' کریں اور ''استھان'' سے ملیچھوں کا خاتمہ کرکے اپنی ''ماتر بھومی'' کو پوتر کرسکیں۔
امریکا نے اپنی ڈھکی اور چھپی کارروائیوں سے بھارت کے لیے نرم گوشہ رکھنے کا اشارہ دیا ہوا ہے دراصل یہ اس رقابت کی آگ کی بھی کہانی ہے کہ جس میں پاکستان نے اپنی سرزمین پر افغان خیمہ بستیاں آباد کرکے ایک ایسے باب کو جنم دیا کہ جس کے ثمرات اب کھل کر سامنے آرہے ہیں۔
افغان پاک بارڈر سے جس قسم کی کارروائیاں ہو رہی ہیں اس سے واضح ہو رہا ہے کہ افغان حکومت کے پاس پاکستان کے لیے گنجائش نہ ہونے کے برابر ہے، یہاں ہمسایہ کے علاوہ ان بڑے فنڈز اور قرضہ کی کہانی ہے جس نے ہمسایوں کو دشمنی کا سبق رٹا دیا ہے تو دوسری جانب بھارت جب کہ اس کے ساتھ ہی ایران کا معاملہ بھی کلبھوشن کے بیانات کے بعد خاصا واضح ہوگیا، یہ ایک ایسا گیم ہے جسے الجھاتے الجھاتے خاصی دور تک بنا گیا ہے، اب اس گیم کا خاتمہ کیسے ہوتا ہے یا اسے الجھانے کا مقصد ہی پاکستان کی سالمیت کی مخالفت کے کھاتے میں چلا جاتا ہے۔
پاکستان کے حوالے سے دلچسپ صورتحال کچھ اس طرح سے ہے کہ یہاں نئے الیکشن کے لیے اسٹیج بنائے جا رہے ہیں۔ سب اپنے اپنے علاقوں سے ادھر اور ادھر کی جانب دیکھ رہے ہیں اپنے ووٹ بینک کو مضبوط کرنے کی اس تحریک میں ایک انٹرنیشنل گیم کو خاصی حد تک نظر انداز کیا جا رہا ہے، پاکستانی تھنک ٹینک اس کے لیے کیا ایکشن پالیسی مرتب کر رہے ہیں یا نہیں۔ لیکن ہم اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ جس کا کوئی نہیں ہوتا اس کا خدا ہوتا ہے اور پھر جن بڑی طاقتوں نے اپنا مائی باپ امریکا کو قرار دیا ہے وہ سخت ٹینشن میں ہیں کیونکہ ان کے گیم پلان پر کثیر سرمایہ خرچ کیا جا رہا ہے۔
امریکا کیا چاہتا ہے اور بھارت کیوں چاہتا ہے؟ لیکن گزرتا وقت اپنے ساتھ پرانی کہانیاں نئے عنوان کے ساتھ لے کر آتا رہے گا۔ پر ہمیں ان جانوں کے ضیاع پر سخت افسوس ہے جو ایسے دہشت گردی کے حادثات کا پیٹ بھر رہے ہیں ،خدا خیر کرے آمین!